سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(900) اولیاء اللہ کا ظاہری آنکھوں سے سے الله کا دیدار؟

  • 5503
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1670

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اولیاء اللہ ظاہری آنکھوں سے بیداری کی حالت میں  بغیر کسی تاویل کے خدا تعالیٰ کو دنیا میں  دیکھ سکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں  نہیں دیکھ سکتے اور اس پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے اور اس کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے چنانچہ ’’منح الازہر‘‘ میں  اس مسئلہ پر پوری بحث کی گئی ہے ، لکھتے ہیں : میرےپاس (مندرجہ بالا مضمون کا) ایک سوال آیا، میں  نے اپنی صوابدید کے مطابق اس کا جواب لکھا ہے اور اسی پر اہل سنت والجماعت کےتمام ائمہ کا اجماع ہےکہ عقلی طور پر دنیا اور آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی رؤیت ظاہری آنکھوں سے جائز ہے اور آخرت میں  نقلاً و سمعاً ثابت ہے اور دنیا میں  رؤیت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق اختلاف ہے، اکثریت کا خیال ہے کہ جائز ہے دوسرے اس کا انکار کرتے ہیں لیکن جو اس کے جواز کے قائل ہیں وہ صرف اس وجہ سے قائل ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ کو معراج کی رات دیکھا ہے اور دوسرے کسی کے لیے اس کو ثابت نہیں کرتے اور آنحضرتﷺ کے دیکھنے کے متعلق بھی تو سلف میں  اختلاف تھا، صحیح یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا ہے، آنکھ سے نہیں دیکھا، چنانچہ شرح عقائد میں  اس کی تصریح ہے۔

اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں  نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں  دیکھا ہے تو یہ جائز ہے ، کیونکہ وہ ظاہری انکھ سے دیکھتا نہیں ہے بلکہ تصورات مثالیہ اور تمثیلات خیالیہ کا دیکھنا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں  نے خدا تعالیٰ کی صفات کے مظاہر دیکھے ہیں تو یہ ٹھیک ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں  نے بذاتہ خدا تعالیٰ کو دیکھا ہے تو پرلے درجہ کا بے دین اور گمراہ ہے اس کو تعزیر لگانی چاہیے اور شہر میں  پھرانا چاہیے۔

صاحب ’’تعرف‘‘ کاقول ہے۔ یہ کتاب تصوف کے مضمون میں  بے مثال ہے کہ مشائخ طریقت کا اس پراجماع ہے کہ دنیا میں  کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا،رؤیت خداوندی کا محل آخرت ہے۔ دنیا نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ زندیق، ملحد، شریعت کا منکر اور سنت کا مخالف ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو یہ جواب ملتی ہے کہ تو مجھے کبھی نہیں دیکھ سکتا تو اور کون ہے جو  رؤیت کا دعویٰ کرسکے۔ ملا علی قاری کی ’’منح الازہر شرح فقہ اکبر‘‘ میں  یہ تمام تفصیل موجود ہے۔

پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ خداوند تعالیٰ نے فرمایا: وجوہ یومئذنا ضرۃ الی ربہا ناظرہ تو رؤیت کو قیامت کے دن پرمعلق کیا۔ اگر دنیامیں  بھی رؤیت ہوسکتی تو قیامت کے دن کی قید بالکل بےمعنی تھی اور آنحضرتﷺ نے صحابہ سے فرمایاکہ ’’تم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھو گے‘‘ اگر دنیامیں  بھی دیدار خداوندی ممکن ہوتا تو قیامت کے دن کی قید لگانےکی کیا ضرورت تھی، اسی طرح فرما دیتے کہ تم جس طرح دنیامیں  خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو، آخرت میں  بھی دیکھو گے۔

امام نووی کا قول ہے کہ تمام اہلسنت کاعقیدہ یہی ہے کہ رؤیت خداوندی دنیا میں  نہیں ہوسکتی ، آخرت میں  ہوگی اور اس میں  متکلمین کےسلف اور خلف بھی متفق ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ