اس طرح کاعقیدہ رکھنا کہ آنحضرت ﷺ کو عالم برزخ میں امت کے تمام حالات کی اطلاع ہوتی رہتی ہے خواہ کسی طرح بھی ہوصحیح ہے یا نہیں؟ اگر صحیح نہیں ہےتو ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے یافسق؟ جو بھی آپ کے نزدیک درست ہو تحریر فرما دیں۔
اس طرح کا عقیدہرکھنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے بلکہ بدعت اور گمراہی ہے کیونکہ عقیدہ کےلیےکوئی قطعی دلیل ہوناچاہیے اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جیساکہ مولانا عبدالعلی لکھنؤی نے ابن ہمام کی’’تحریر الاصول‘‘ کی شرح میں لکھا ہے۔
اور پھریہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس عقیدہ کے برخلاف صحیح بخاری صحیح مسلم اور دیگر صحاح کی کتابوں میں بہت سے کبار سے متعدد سندوں سے ایک مرفوع حدیث آئی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’حوض کوثر پر میرے صحابہ میں سےکچھ لوگ میرے پاس آئیں گے میں ان کو پہچان لوں گا تو ان کو ہانک کر دور لےجایاجائے گا میں کہوں گا یہ تو میرے صحابی ہیں تو جواب ملے گا تم کومعلوم نہیں’’کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا کچھ کیا۔‘‘
یہ حدیث حضرت انسؓ، ابوہریرہؓ، حذیفہؓ، سہل بن سعدؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، کسی روایت میں تفصیل ہے کسی میں اجمال ہے۔
اور ماہران اسانید پر پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حدیت پانچ چھ سندون سے منقول ہے ، پس یقیناً یہ حدیث شہرت کے درجہ پر پہنچ چکی ہے، کیونکہ محدثین کے نزدیک حدیث مشہورہ ہے جودو سے زیادہ سندوں سے مروی ہو جیسا کہ نخبۃ الفکر وغیرہ کتب اصول میں مذکو رہے۔
حاصل کلام یہ کہ ان روایات صحیحہ سے صاف ظاہر کہ آنحضرتﷺ کو عالم برزخ میں اُمت کے احوال کی خبر نہیں ہوتی ورنہ آپ قیامت کے روز ایسا نہ فرماتے، جیسا کہ اسی حدیث کے ایک طریق میں آنحضرتﷺ کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’اے اللہ میں جب تک ان میں موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا اور جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو پھر تو ہی نگران تھا‘‘ پھر ایسی صورت میں کیونکر یہ عقیدہ رکھا جاسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کو عالم برزخ میں اُمت کے حالات کی خبر ہوتی ہے۔