کیافرماتے ہیں، علمائے دین اس مسئلہ میں ، کہ ایک شخص اہل علم ابتداء دین محمدی میں تھا ، رفتہ رفتہ چلہائے غیر مشروعہ مروجہ صوفیہ میں منہمک ہوا اور گاہے مذہب نیچری کو اور گاہےمذہب عیسائی کوٹھیک بتاتا ہے، بعض لوگ نے اس کو ان کے معابد میں شامل ہوتے دیکھا، اس کا والد کہتا ہے کہ اس کو خفقان ہے ، اب اس شخص کا کیا حکم ہے،زید کہتا ہے کہ یہ شخص اگر توبہ کرے تو اس کے ساتھ سلام و کلام و شادی وغمی میں شامل ہونا درست ہے لیکن سردار کے ہوتے ہوئے اور امام کے ہوتے ہوئے اس کو امام و سردار نہ بنانا چاہیے اور حدیث شریف اس سے نہ قبول کرنی چاہیے، اگر وہ شخص نماز پڑھتا ہو اور کوئی شخص اس کی اقتدا کرلے تو جائز ہے، پس ایسے شخص کو سردار وغیرہ بنانا درست ہے یانہیں۔ بینوا توجروا
جو شخص ادیان باطلہ کفریہ کی صراحۃً تصویب کرے اور ساتھ اس کے ان کے معابد میں بھی شامل ہو تو وہ باتفاق اہل علم کافر ہے ،ایسا شخص اگر توبہ صحیحہ کرے (جس کے آثار علانیہ پائے جائیں، تو البتہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگا اور جمیع احکام میں مثل سائر اہل اسلام کے ہوگا اس کے ساتھ سلام و کلام اور اس کی شادی و غمی میں شریک ہونا اور نماز میں اس کی اقتدا کرناوغیرہ سب کچھ جائز و درست ہوگا رہا یہ امر کہ بعد توبہ صحیحہ کے اس کو سردار و امام بنانادرست ہے یا نہیں، سو واضح ہو کہ ہرمسلمان سرداری و امامت کی قابلیت و اہلیت نہیں رکھتا ہے، اس منصب جلیل کی شرعاً جو اہلیت و قابلیت رکھے، اس کو بنانا چاہیے رہی یہ بات کہ شخص مذکور کو خفقان یا جنون ہے یانہیں، سو واضح ہو کہ خفقان یا جنون امراض مشاہدہ و بدیہیہ سے ہیں اگر اس شخص میں خفقان یا جنون کے آثار و علامات پائے جاتے ہیں تو یہ شخص مجنون یامبتلا بخفقان قرار دیا جائے گا ورنہ نہیں، واللہ تعالیٰ اعلم ۔ حررہ محمد عبدالحق ملتان عفی عنہ سید محمد نذیرحسین