جو شخص ہمارے نبی محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی ذات سے کچھ ذرہ بھی بغض رکھے اور تمامی جہان پر آنحضرت ﷺ کے بزرگ و افضل ہونے کا قائل نہ ہو اور شفاعت کا اور آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونےکا انکار کرتا ہو، وہ کافر ہے یا نہیں۔ بینوا
جس نے ایسا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے،جنت اس پرحرام ہے ہمیشہ دوزخ میں رہے گا جو رسول اللہﷺ کا دوست، وہ اللہ کا دوست اور کوئی چاہے کہ بعد بعثت رسول اللہﷺ کے بلا وساطت آنحضرتﷺ کے اللہ سے دوستی رکھے، وہ مردود ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قل[1] ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یجبکم اللہاور فضیلت و بزرگی آنحضرت ﷺ کی تمام جہان پر قرآن و حدیث سے صاف ظاہر و باہر ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور کسی نبی کو اس لقب سے یاد نہیں فرمایا ہے، رما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین اے نبی ہم نے تم کو سب کے واسطے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ میں ہے۔
عن [2] ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم و نصرت بالرعب واحلت لی الغنائم و جعلت لی الارض طہورا و مسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ و ختم بی النبیون وفی روایۃ اعطیت الشفاعۃ اور دوسرے مقام میں ہے انا سید[3] ولد ادم اور خاتم الانبیاء ہونا بھی آنحضرتﷺ کا مثل آفتاب نیم روز کے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے واضح ولائح ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ما[4]کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین اورصحیح مسلم کی کتاب الفضائل میں ہے،باب ذکوکونہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین۔ عن ابی ہریرہ[5] ان سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بنیانا فاحسنہ و اجملہ الاموضع لبنۃ من زادیۃ من زوایاہ فجعل الناس یطرفون بہ ویعجبون لہویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ قال فانا خاتم النبیین وفی روایۃ ناموضع اللبنۃ جئت فختمت الانبیاء علیہم السلام۔
اور آنحضرتﷺ کا شفاعت کرنا قیامت میں اپنی امت کے لیے بلکہ تمام امتوں کے واسطے قرآن و حدیث سے خوب صاف ہر کسی کو معلوم ہوجاتا ہے، کچھ پوشیدہ امر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ و یبعثک [6]ربک مقاما محموداور فرماتا ہے وسوف[7] یعطیک ربک فترضی حدیث میں ہے وعن [8]عوف بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتانی ات من عند ربی فخیرنی بین ان یدخل نصف امتی الجنۃ و بین الشفاعۃ فاخترت الشفاعۃ وھی لمن مات لا یشوک باللہ رواہ الترمذی و ابن ماجۃ۔ وعن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال شفاعتی لا ھل الکبائر من امتی رواہ الترمذی و ابوداؤد ابن ماجہ عن جابراور ایک بڑی حدیث میں بخاری و مسلم کے آیا ہے کہ قیامت یعنی حشر کے روز سب لوگ واسطے طلب شفاعت کے آدم و نوح و موسیٰ و عیسیٰ تمام انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے وہ سب اپنا اپنا قصور بیان کریں گے ، شفاعت نہیں کریں گے، حضرت عیسیٰ فرمائیں گےکہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ، حضرت کے پاس آئیں گے ، پہلے دروازہ شفاعت کا ہمارے رسول اللہﷺ کھولیں گے، بعد ہ سب شفاعت کریں گے، حضرت کے آگے کسی کو دم مارنے کی طاقت نہیں رہے گی، اللہ تعالیٰ حد مقرر فرما ئے گا اس کے موافق حضرت بار بار حکم اللہ کا لیتے جائیں گے، سجدہ کرتے جائیں گے اور شفاعت کرتے جائیں گے اور صدہا احادیث اسی مضمون کی صحاح ستہ وغیرہ میں موجود ہیں، جس کا جی چاہے ، وہ دیکھ لے اور بعد اس کے بھی جو شخص پھر حضرتﷺ کی بزرگی اور خاتم ہونے کا اور قیامت میں شفاعت کرنےکا منکر ہو تو بموجب آیت ماذا بعد الحق الاالضلال گمراہ، کافر، خالد مخلد دوزخ کا کندہ بن رہے گا۔
المجیب ابوالبرکات محمد عبدالحی تقی عرف صدر الدین احمد حیدر آبادی۔
الجواب صحیح والرای نجیح و منکر ھا مردود و کافر۔ حررہ العاجر محمدنذیر حسین عفی عنہ سید محمد نذیر حسین
[1] آپ کہہ دیں، اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوں، تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا۔
[2] ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، مجھے دوسرے انبیاء پر چھ فضلتیں عطا کی گئی ہیں، میں جامع کلمات عطا کیاگیا ہوں، رعب سے میری مدد کی گئی ہے،میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئی ہیں،میرے لیے تمام زمین وضو کے قائم مقام اور مسجد بنا دی گئی ہے،میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کربھیجا گیا ہوں اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کیا گیا ہے اور ایک روایت میں ہے ،مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔
[3] میں آدم کی تمام اولاد کاسردار ہوں۔
[4] محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔
[5] آنحضرت ﷺ کا خاتم النبیین ہونا، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک آدمی جیسی ہےجس نے ایک عمارت بنایا اور اچھا بنایا اور بہت خوبصورت بنایا، مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی، لوگ اس کےگرد پھرنےلگے اور اس کی خوبصورتی سے تعجب کرنے لگے اور کہنےلگے کاش اس جگہ اینٹ لگا دیجاتی تو آپ نے فرمایا میں وہ اینٹ ہوں ، میں خاتم النبیین ہوں اور ایکروایت میں ہے ، میں اس اینٹ کی جگہ آگیا ہوں، سو میں نےنبیوں کوختم کردیا ہے۔
[6] تم کو تمہارا رب مقام محمود میں پہنچائے گا۔
[7] آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
[8] اور عوف بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اورمجھ کو اختیار دیا کہ یا تو میری اُمت میں سے نصف امت جنت میں داخل ہوجائے گی اور یا پھر آپ شفاعت کرلیں۔ سو میں نے شفاعت کو پسند کرلیا اور وہ ہر اس آدمی کے لیے ہوگی جو اس حال میں مرجائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اس کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لیے ہوگی، اس کو ترمذی ، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے۔