سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(903) مسئلہ تقلید کے متعلق کافی مدت سے دل میں خلش سی رہتی ہے..الخ

  • 5469
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1331

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی ومحترمی جناب مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! گذارش ہے کہ مسئلہ تقلید کے متعلق کافی مدت سے دل میں خلش سی رہتی ہے امید ہے کہ بحیثیت عالم ہونے کے اور {وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ} کے پیش نظر بندہ کی دلجوئی فرما کر مسئلہ سمجھنے میں تعاون فرمائیں گے مسئلہ تقلید ائمہ مجتہدین رحمہ اللہ کے متعلق اپنا یعنی جو حق سمجھتے ہیں عندیہ تحریر فرمائیں کہ تقلید ائمہ مجتہدین رحمہ اللہ کن وجوہات ودلائل کی وجہ سے حرام ہے یا کہ تقلید کے اقسام مختلف ہیں اور ہر قسم کا حکم جدا جدا قرآن وسنت سے واضح فرمائیں امید واثق  ہے کہ آپ محروم نہ فرمائیں گے ہو سکتا ہے کہ بندہ کے اشکال دور ہو جائیں اور صراط مستقیم کی مکمل شرح سامنے آ جائے ؟ اگر جواب نہ ملا تو قیامت میں بندہ آپ پر دعویٰ کرے گا کہ ان بزرگوں نے مجھے مطمئن نہ کیا تھا ۔

                             السائل الاحقر : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ  ضلع گوجرانوالہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب راشد صاحب!       \

اما بعد ! ۷ ذوالحجہ ۱۴۰۱ہـ  نماز عصر کے بعد آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ نے تقلید سے متعلق سوال کیا ہے تو جواباً گزارش ہے کہ پچھلے دو ماہ شوال اور ذوالقعدہ میں بندہ اور حضرت القاضی شمس الدین صاحب (زادہ اللہ تعالیٰ مجد اوشرفا) کے درمیان اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہی مناسب معلوم ہوا کہ اس بات چیت کی ایک نقل آپ کو ارسال کر دی جائے کہ آپ بھی اس کا مطالعہ فرما لیں تاکہ مسئلہ کے دونوں پہلو آپ کے سامنے آ جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کے اشکال بھی دور ہو جائیں اللہ تعالیٰ ہم سب کے اشکال دور فرمائے ۔

آپ کا ارسال کیا ہوا جوابی لفافہ اور حضرت قاضی صاحب مدظلہ اور بندہ کے مابین بات چیت کی ایک نقل حاضر خدمت ہے چنانچہ اسے واپسی رسید لگا کر آپ کی طرف رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔فقط والسلام

                                                                   ابن عبدالحق بقلمہ۸ذوالحجہ۱۴۰۱ہـ

                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی ومحترمی جناب مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی              السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ بندہ نے مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے عریضہ لکھا تھا آپ نے احسان فرمایا کہ کاغذات متعلقہ بامسئلہ تقلید بندہ کو رجسٹری کر دئیے ان سے کافی فائدہ ہوا مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان کاغذات سے خالی الذہن آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا یعنی کہ آپ تقلید کو کیا سمجھتے ہیں اور اس کے دلائل کتاب وسنت سے کیا ہیں تاکہ مسئلہ پوری وضاحت سے سامنے آ جائے اور مجھ جیسے کم مایہ کو حقیقت کے سمجھنے میں آسانی ہو سکے بندہ صرف مسئلہ سمجھنا چاہتا ہے تاکہ ذہنی الجھن سے نجات مل جائے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ بندہ کو بعض دوستوں سے پتہ چلا ہے کہ آپ بات سمجھانے میں پوری کوشش فرماتے ہیں بندہ کے بعض قریبی رشتہ دار جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا دوبارہ یہی گزارش ہے کہ تقلید ائمہ کا حکم بلکہ اگر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق تقلید کے اقسام کئی ہوں تو ہر ایک کا حکم قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں تاکہ بندہ پوری طرح مطمئن ہو سکے اور یہ کہ تقلید کی وہ کون سی صورت ہو گی جو درجہ حرام تک پہنچے گی یا ہر طرح کی تقلید ایک حکم رکھتی ہیں ۔ بندہ کل بروز جمعہ گھر سے واپس آیا تو جناب والا کی طرف سے رجسٹری پہنچی ہوئی تھی دیکھ کر خوشی ہوئی مگر جب پڑھی تو بات ادھوری معلوم ہوئی جس کی وجہ سے دوبارہ گزارش پیش کر دی ۔            والسلام : السائل : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب!زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امابعد ! ۲۱ ذوالحجہ ۱۴۰۱ہـ قبل از نماز ظہر آپ کا دوسرا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ لکھتے ہیں ’’بندہ کے بعض قریبی رشتہ دار جماعت اہلحدیث سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا دوبارہ یہی گزارش ہے کہ تقلید ائمہ کا حکم بلکہ اگر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق تقلید کے اقسام کئی ہوں تو ہر ایک کا حکم قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں‘‘۔

جواباً گزارش ہے کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں تقلید کے دو معنی آپ کے سامنے آ چکے ہیں جن سے ایک تو حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کا بیان فرمودہ ہے جبکہ دوسرا ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان فرمودہ پھر حضرت قاضی صاحب زید مجدہ کے بیان فرمودہ معنی تقلید پر بندہ کے اعتراضات بھی آپ  کے پاس پہنچ چکے ہیں تو اب مسئلہ کو سمجھنے کی صورت یہ ہے کہ آپ تقلید کے ان دونوں معنوں اور بندہ کی طرف سے حضرت قاضی صاحب طول عمرہ کے بیان فرمودہ معنی تقلید پر وارد کردہ سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اگر آپ بذات خود ان دونوں معنوں سے درست معنی کا فیصلہ نہ کر پائیں تو ماشاء اللہ حضرت قاضی صاحب مدظلہ ابھی بحیات ہیں آپ ان سے دریافت فرمائیں ان دونوں معنوں سے کون سا معنی درست اور کون سا نادرست ہے ؟ کیونکہ اس طرح خالی الذہن آدمی کے لیے تقلید کے حکم کو سمجھنے تک بسہولت رسائی حاصل ہو جاتی ہے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اس نہج پر چلیں گے اور ضرور بالضرور تقلید کے ان دونوں معنوں پر گہرے غوروفکر کے بعد بندہ کو اپنی رائے گرامی سے مطلع فرمائیں گے تاکہ ہم تقلید کے حکم کو سمجھنے کی طرف قدم آگے بڑھا سکیں ۔ فقط والسلام :     اس دوسری تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔                           ابن عبدالحق۲۲ذوالحجہ۱۴۰۱ہـ

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی ومحترمی جناب مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی              السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ آج بروز سوموار ۲۷ ذوالحجہ ۱۴۰۱ مطابق ۲۶ اکتوبر 1981 بوقت دوپہر جناب کی طرف سے نوازش نامہ بندہ تک پہنچا مگر پڑھنے کے بعد دل نے یہی کہا اے بسا آرزو کہ خاک شدہ مکرمی بندہ کا مقصد سوال کرنے سے صرف حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے لہٰذا سائل کو اور حضرات کے بیان کی طرف بھیجنے کی بجائے خود آپ اپنے پاس سے تسلی بخش معنی اور حکم مدلل بیان فرما دیں جب ان سے سوال کروں گا تو ان کے بیان فرمودہ معنی اور حکم کو دیکھ لیا جائے گا زیادہ مفید صورت یہی ہے کہ آپ بیان فرما دیں کیونکہ اگر اس طرح دیگر حضرات علماء عظام کے بیان کردہ معنوں کو دیکھنے لگیں تو بات بلاوجہ طول پکڑتی ہے کہ پہلے ان کے معنی دیکھو پھر ان کی تشریحات الخ بندہ نے یہ لفظ دونوں مسلک (حنفی اہل سنت اور اہلحدیث)  کے علماء کی کتب میں دیکھا ہے دونوں ہی اس کی بعض صورتوں کو جائز اور بعض کو ناجائز وغیرہ لکھتے ہیں مثلاً فتاویٰ نذیریہ ص۱۷۹ ج۱ یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل الخ تو اس سے معلوم ہوا کہ تقلید کاکوئی معہود معنی مسلک اہلحدیث میں بھی جائز ہے اسی قسم کے اشکالات کی وجہ سے بندہ نے سوال کیا تھا کہ اس تقلید ائمہ کی مکمل تشریح سامنے فرما دیں جس میں لازماً تقلید کا معنی اور مکمل تفصیلی حکم داخل ہے اور آپ نے جو پہلے کاغذات بھیجے تھے ان میں آپ کی طرف سے تقلید کا معنی نظر سے نہیں گزرا بندہ کو مخالف نہ سمجھیں حقیقت سمجھانے کی پوری کوشش فرمائیں شاید اس سے دین کا فائدہ ہو ۔    والسلام : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب !زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۳۰ ذوالحجہ ۱۴۰۱ قبل از نماز ظہر آپ کا تیسرا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ میری دوسری تحریر پڑھ کر لکھتے ہیں ’’مکرمی بندہ کا  مقصد سوال کرنے سے صرف مسئلہ کی حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے‘‘ الخ

جواباً گزارش ہے کہ بندہ نے یہ طریق سائل کو ’’لمبے چکر‘‘ میں ڈالنے کے لیے نہیں صرف اسے مسئلہ کی حقیقت معلوم کروانے کی خاطر اختیار کیا ہے چنانچہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ۔ ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی رحمہ اﷲ ص ۲۶۵ لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّۃٍ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلادلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت ۔ بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱)  اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے یا نہیں ؟ اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے ۔

یہ انداز صرف اور صرف آپ کو سمجھانے کی خاطر اختیار کر رہا ہوں ورنہ آپ کے سوال کے جواب میں تو صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ۔ اس تیسری تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔                         فقط والسلام ابن عبدالحق یکم محرم ۱۴۰۲ہـ

 محترمی ومکرمی حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ بندہ نے صرف مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے جناب محترم کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ تقلید کس کو کہتے ہیں اور آپ نے نوازش فرمائی کہ سابقہ گفتگو کے کاغذات  روانہ فرمائے ان سے کچھ حاصل نہ ہوتا تھا بندہ نے دوبارہ لکھا آپ نے پھر اسی تحریر کی طرف اشارہ فرمایا بلکہ تیسری بار بھی اسی گفتگو کے کاغذات سے کچھ عبارات نقل فرما دیں مگر آپ میری گزارش پہ خدا جانے کیوں توجہ نہیں فرماتے شاید مجھ سے لکھنے میں غلطی ہو جاتی ہے جس سے مطلب بگڑ جاتا ہے مکرمی 1 میں نے یہی لکھا تھا کہ تقلید کا لفظ مسلک اہل حدیث اور مسلک حنفی دونوں بزرگوں کی کتب میں موجود ہے بلکہ فتاوی نذیریہ سے یہ عبارت بھی لکھی تھی ’’یَجُوْزُ تَقْلِیْدُ الْمَفْضُوْلِ مَعَ وُجُوْدِ الْاَفْضَل‘‘ جب یہ لفظ دونوں مسلکوں میں موجود ہے تو آپ سے اسی لفظ کی تعریف آپ کے اپنے مسلک کے مطابق پوچھی تھی مزید گزارش ہے کہ ہدیہ المہدی ص۱۱۰ میں ہے ’’لاَ بُدَّ لِلْعَامِیْ مِنْ تَقْلِیْدِ الْعُلَمَائِ‘‘ نیز کتاب سیدی والی ص ۳۷۵ میں اسی سے ملتے جلتے تقریباً الفاظ ہیں تو اب میں یہی گزارش کرتا ہوں کہ ان جماعت اہلحدیث کے بزرگوں کی تصریحات کی روشنی میں تقلید کی تعریف اور اقسام مفصل بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں تاکہ سائل کے اشکالات رفع ہو جائیں اور حقیقت حال اجاگر ہو جائے بندہ کو ادھر ادھر بھیجنے کی بجائے خود ہی مطمئن فرما دیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے۔             السائل محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دارالتوحید والسنہ منڈیالہ ضلع گوجرانوالہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب !زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۱۴ محرم ۱۴۰۲ہـ  بعد از  نماز عصر آپ کا چوتھا گرامی نامہ موصول ہوا ۔ آپ نے اپنی تیسری تحریر میں لکھا : ’’آپ اپنے پاس سے تسلی بخش معنی اور حکم مدلل بیان فرما دیں‘‘ تو بندہ نے اس کے جواب میں لکھا۔ ’’آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ’’ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّۃٍ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت - بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱) اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے  یا نہیں ؟   اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے‘‘

نیز بندہ ہی نے لکھا ’’حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ‘‘

اب آپ فرمائیں آیا آپ کے معنی تقلید اور حکم تقلید سے متعلق سوال کا جواب اس بندہ کی طرف سے آپ کے پاس پہنچ چکا ہے یا نہیں ؟ اگر پہنچ چکا ہے تو یہ بندہ اپنی ذمہ داری (پہنچانے اور بتانے) سے فارغ ہو چکا ہے والحمد ﷲ علی ذالک باقی بات کو دل میں اتارنا اللہ تعالیٰ جل وعلا کا کام ہے بصورت دیگر آپ لکھیں کہ تو نے معنی تقلید بیان کیا ہے نہ حکم تقلید تاکہ یہ دونوں چیزیں لکھ کر رقعہ آپ کو بھیج دیا جائے ۔

حضرت الامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ اور عقیدہ علم غیب سے متعلق جو کچھ آپ نے کسی بزرگ سے سنا وہ ہمارا مسلک نہیں اس چوتھی تحریر کو بھی واپسی کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔ فقط والسلام    ابن عبدالحق بقلم۱۵محرم۱۴۰۲ہـ

مکرمی حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی                             السلام علیکم ورحمۃ اللہ

گزارش ہے کہ بندہ نے جو مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے کوشش کی کافی حد تک اس میں ناکامی نظر آ رہی ہے اور بات کو حل کرنے کی بجائے طول دیا جا رہا ہے البتہ اس دفعہ آپ نے لکھا ہے کہ بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی مکرمی اب بات کو مزید طول نہ دیں اور اپنا نظریہ اور معنی تقلید مع مدلل حکم تحریر فرما دیں آپ سے تقلید کا معنی اسی لیے متعین کروایا ہے کہ یہ لفظ آپ کے مسلک کی کتب میں بھی موجود ہے چنانچہ فتاوی نذیریہ ص۱۷۹ ج۱ میں ہے کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کی تقلید جائز ہے اور ہدیۃ المہدی ص۱۱۰ میں ہے کہ عامی کے لیے تقلید علماء ضروری ہے اور کتاب سیدی والی ص۳۷۵ میں ہے ائمہ اہل سنت میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو جو بغیر کسی تعین کے ہو واجب قرار دیتے ہیں اور مولانا ثناء اللہ صاحب فرماتے ہیں اور ان کو (یعنی عوام الناس) تقلید سے چارہ بھی نہیں اجتہاد  وتقلید ص۵۶ علماء اہلحدیث کی ان تصریحات کے پیش نظر اب ـآپ اپنا نظریہ بیان فرما دیں تاکہ مجھے سمجھنے میں آسانی رہے اور تقلید کا ایسا معنی فرما دیں جس کو فریقین تسلیم کرتے ہوں آگے تفصیل میں گرچہ اختلاف ہو اور یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کا نظریہ ان علماء اہلحدیث سے ہٹ کر ہو یعنی تقلید کسی صورت بھی جائز نہیں حرام ہے اور تقلید کا میرے نزدیک یہ معنی ہے جس کی وجہ سے یہ ہر حالت میں حرام ہے اب ادھر ادھر مجھے نہ بھیجیں اس دفعہ ضرور تکلیف فرما کر اس عقدہ کو حل فرما دیں تاکہ حق بات کھل کر سامنے آ جائے شاید اس میں دین کی بہتری ہو اور مجھ جیسے ناکارہ کو بات سمجھ آ جائے ۔

                             والسلام : محمد عبداللہ راشدؔ دارالتوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ21/11/81

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۲۵ محرم ۱۴۰۲ہـ  بعد از نماز  ظہر آپ کا پانچواں گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ لکھتے ہیں ’’اب ادھر ادھر مجھے نہ بھیجیں‘‘ محترم اپنی کسی سابقہ تحریر کا حوالہ دینا ادھر ادھر بھیجنا نہیں چنانچہ میری چوتھی تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں اس میں آپ کو ادھر ادھر نہیں بھیجا گیا صرف اپنی سابقہ تحریروں کا حوالہ دیا گیا ہے آپ کی سہولت کے پیش نظر اپنی چوتھی تحریر کو نیچے درج کر رہا ہوں :

’’آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ’’ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّۃٍ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت - بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱) اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے  یا نہیں ؟   اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے‘‘

نیز بندہ ہی نے لکھا ’’حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ‘‘

اب آپ فرمائیں آیا آپ کے معنی تقلید اور حکم تقلید سے متعلق سوال کا جواب اس بندہ کی طرف سے آپ کے پاس پہنچ چکا ہے یا نہیں ؟ اگر پہنچ چکا ہے تو یہ بندہ اپنی ذمہ داری (پہنچانے اور بتانے) سے فارغ ہو چکا ہے والحمد ﷲ علی ذالک باقی بات کو دل میں اتارنا اللہ تعالیٰ جل وعلا کا کام ہے بصورت دیگر آپ لکھیں کہ تو نے معنی تقلید بیان کیا ہے نہ حکم تقلید تاکہ یہ دونوں چیزیں لکھ کر رقعہ آپ کو بھیج دیا جائے ۔‘‘اس پانچویں تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔ فقط والسلام            ابن عبدالحق بقلم۲۶محرم۱۴۰۲ہـ

[مولانا عبداللہ صاحب راشد اور حافظ عبدالمنان صاحب نور پوری کے درمیان تحریری گفتگو میں قاضی شمس الدین صاحب اور حافظ صاحب کی تحریری گفتگو کا حوالہ ہے اس لیے اس تحریر کو یہاں درج کیا جاتا ہے]

  بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب قاضی صاحب !                 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بندہ کا سوال ہے امید ہے جناب جواب دے کر اس کی تسلی کریں گے سوال یہ ہے حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید قرآن وحدیث کی رو سے فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ؟

نیز جو شخص حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید نہیں کرتا وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسا ہے ؟

                             ماسٹر محمد خالد ۲۱ شوال ۱۴۰۱ہـ  سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ

حضرت القاضی(۱)

۲۲ شوال ۱۴۰۱ہـ

ایک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کوئی واجب نہیں کہتا اور نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ} خلاصہ یہ کہ مثالوں پر عمل کرنا تو سب لوگوں پر واجب ہے اور ان کو سمجھنا صرف علم والوں کا کام ہے ۔ تو دوسروں پر واجب ہے کہ ان سے پوچھ کر ان پر عمل ۔        شمس الدین

حضرت الحافظ (۱)

                                                بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۲ شوال ۱۴۰۱ہـ کی بات ہے کہ جناب محمد خالد صاحب نے وجوب تقلید کے اثبات میں حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کا ایک فتویٰ بندہ کو دکھایا اور اس پر کچھ لکھنے کا مطالبہ کیا جسے اس نے قبول کر لیا۔

تو حضرت قاضی صاحب اپنے اس فتویٰ میں لکھتے ہیں ’’نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت 1 {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ}2  الخ [اور یہ مثالیں بیان کرتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے]

اہل علم کو معلوم ہے کہ جب تک دعویٰ میں مذکور الفاظ کے معانی متعین نہ ہوں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ دعویٰ مدعی کی پیش کردہ دلیل سے ثابت ہو بھی رہا ہے یہ نہیں اور الفاظ دعویٰ کے معانی مدعی ہی متعین کیا کرتا ہے یا پھر اس کا کوئی وکیل۔

لہٰذا جناب ماسٹر صاحب سے اپیل ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب سے ان کے اپنے ہی دعوے میں مذکور الفاظ تقلید ، نفس تقلید اور وجوب کے معانی متعین کروائیں کہ وہ اس مقام پر تقلید ، نفس تقلید اور وجوب سے کیا کیا معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب ‘‘ اللہ تعالیٰ کے قول {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ} سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟

                                      ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ۲۳شوال۱۴۰۱ہـ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

حضرت القاضی (۲)

جناب راشد صاحب!        بسم اللہ الرحمن الرحیم                            وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۷ ذوالحجہ ۱۴۰۱ہـ  نماز عصر کے بعد آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ نے تقلید سے متعلق سوال کیا ہے تو جواباً گزارش ہے کہ پچھلے دو ماہ شوال اور ذوالقعدہ میں بندہ اور حضرت القاضی شمس الدین صاحب (زادہ اللہ تعالیٰ مجد اوشرفا) کے درمیان اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہی مناسب معلوم ہوا کہ اس بات چیت کی ایک نقل آپ کو ارسال کر دی جائے کہ آپ بھی اس کا مطالعہ فرما لیں تاکہ مسئلہ کے دونوں پہلو آپ کے سامنے آ جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کے اشکال بھی دور ہو جائیں اللہ تعالیٰ ہم سب کے اشکال دور فرمائے ۔

آپ کا ارسال کیا ہوا جوابی لفافہ اور حضرت قاضی صاحب مدظلہ اور بندہ کے مابین بات چیت کی ایک نقل حاضر خدمت ہے چنانچہ اسے واپسی رسید لگا کر آپ کی طرف رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔فقط والسلام

                                                                   ابن عبدالحق بقلمہ۸ذوالحجہ۱۴۰۱ہـ

                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی ومحترمی جناب مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی              السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ بندہ نے مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے عریضہ لکھا تھا آپ نے احسان فرمایا کہ کاغذات متعلقہ بامسئلہ تقلید بندہ کو رجسٹری کر دئیے ان سے کافی فائدہ ہوا مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان کاغذات سے خالی الذہن آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا یعنی کہ آپ تقلید کو کیا سمجھتے ہیں اور اس کے دلائل کتاب وسنت سے کیا ہیں تاکہ مسئلہ پوری وضاحت سے سامنے آ جائے اور مجھ جیسے کم مایہ کو حقیقت کے سمجھنے میں آسانی ہو سکے بندہ صرف مسئلہ سمجھنا چاہتا ہے تاکہ ذہنی الجھن سے نجات مل جائے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ بندہ کو بعض دوستوں سے پتہ چلا ہے کہ آپ بات سمجھانے میں پوری کوشش فرماتے ہیں بندہ کے بعض قریبی رشتہ دار جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا دوبارہ یہی گزارش ہے کہ تقلید ائمہ کا حکم بلکہ اگر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق تقلید کے اقسام کئی ہوں تو ہر ایک کا حکم قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں تاکہ بندہ پوری طرح مطمئن ہو سکے اور یہ کہ تقلید کی وہ کون سی صورت ہو گی جو درجہ حرام تک پہنچے گی یا ہر طرح کی تقلید ایک حکم رکھتی ہیں ۔ بندہ کل بروز جمعہ گھر سے واپس آیا تو جناب والا کی طرف سے رجسٹری پہنچی ہوئی تھی دیکھ کر خوشی ہوئی مگر جب پڑھی تو بات ادھوری معلوم ہوئی جس کی وجہ سے دوبارہ گزارش پیش کر دی ۔            والسلام : السائل : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب!زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امابعد ! ۲۱ ذوالحجہ ۱۴۰۱ہـ قبل از نماز ظہر آپ کا دوسرا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ لکھتے ہیں ’’بندہ کے بعض قریبی رشتہ دار جماعت اہلحدیث سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا دوبارہ یہی گزارش ہے کہ تقلید ائمہ کا حکم بلکہ اگر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق تقلید کے اقسام کئی ہوں تو ہر ایک کا حکم قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں‘‘۔

جواباً گزارش ہے کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں تقلید کے دو معنی آپ کے سامنے آ چکے ہیں جن سے ایک تو حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کا بیان فرمودہ ہے جبکہ دوسرا ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان فرمودہ پھر حضرت قاضی صاحب زید مجدہ کے بیان فرمودہ معنی تقلید پر بندہ کے اعتراضات بھی آپ  کے پاس پہنچ چکے ہیں تو اب مسئلہ کو سمجھنے کی صورت یہ ہے کہ آپ تقلید کے ان دونوں معنوں اور بندہ کی طرف سے حضرت قاضی صاحب طول عمرہ کے بیان فرمودہ معنی تقلید پر وارد کردہ سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اگر آپ بذات خود ان دونوں معنوں سے درست معنی کا فیصلہ نہ کر پائیں تو ماشاء اللہ حضرت قاضی صاحب مدظلہ ابھی بحیات ہیں آپ ان سے دریافت فرمائیں ان دونوں معنوں سے کون سا معنی درست اور کون سا نادرست ہے ؟ کیونکہ اس طرح خالی الذہن آدمی کے لیے تقلید کے حکم کو سمجھنے تک بسہولت رسائی حاصل ہو جاتی ہے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اس نہج پر چلیں گے اور ضرور بالضرور تقلید کے ان دونوں معنوں پر گہرے غوروفکر کے بعد بندہ کو اپنی رائے گرامی سے مطلع فرمائیں گے تاکہ ہم تقلید کے حکم کو سمجھنے کی طرف قدم آگے بڑھا سکیں ۔ فقط والسلام :     اس دوسری تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔                           ابن عبدالحق۲۲ذوالحجہ۱۴۰۱ہـ

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی ومحترمی جناب مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی              السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ آج بروز سوموار ۲۷ ذوالحجہ ۱۴۰۱ مطابق ۲۶ اکتوبر 1981 بوقت دوپہر جناب کی طرف سے نوازش نامہ بندہ تک پہنچا مگر پڑھنے کے بعد دل نے یہی کہا اے بسا آرزو کہ خاک شدہ مکرمی بندہ کا مقصد سوال کرنے سے صرف حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے لہٰذا سائل کو اور حضرات کے بیان کی طرف بھیجنے کی بجائے خود آپ اپنے پاس سے تسلی بخش معنی اور حکم مدلل بیان فرما دیں جب ان سے سوال کروں گا تو ان کے بیان فرمودہ معنی اور حکم کو دیکھ لیا جائے گا زیادہ مفید صورت یہی ہے کہ آپ بیان فرما دیں کیونکہ اگر اس طرح دیگر حضرات علماء عظام کے بیان کردہ معنوں کو دیکھنے لگیں تو بات بلاوجہ طول پکڑتی ہے کہ پہلے ان کے معنی دیکھو پھر ان کی تشریحات الخ بندہ نے یہ لفظ دونوں مسلک (حنفی اہل سنت اور اہلحدیث)  کے علماء کی کتب میں دیکھا ہے دونوں ہی اس کی بعض صورتوں کو جائز اور بعض کو ناجائز وغیرہ لکھتے ہیں مثلاً فتاویٰ نذیریہ ص۱۷۹ ج۱ یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل الخ تو اس سے معلوم ہوا کہ تقلید کاکوئی معہود معنی مسلک اہلحدیث میں بھی جائز ہے اسی قسم کے اشکالات کی وجہ سے بندہ نے سوال کیا تھا کہ اس تقلید ائمہ کی مکمل تشریح سامنے فرما دیں جس میں لازماً تقلید کا معنی اور مکمل تفصیلی حکم داخل ہے اور آپ نے جو پہلے کاغذات بھیجے تھے ان میں آپ کی طرف سے تقلید کا معنی نظر سے نہیں گزرا بندہ کو مخالف نہ سمجھیں حقیقت سمجھانے کی پوری کوشش فرمائیں شاید اس سے دین کا فائدہ ہو ۔    والسلام : محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دار التوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب !زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۳۰ ذوالحجہ ۱۴۰۱ قبل از نماز ظہر آپ کا تیسرا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ میری دوسری تحریر پڑھ کر لکھتے ہیں ’’مکرمی بندہ کا  مقصد سوال کرنے سے صرف مسئلہ کی حقیقت معلوم کرنا ہے مگر آپ لکھتے ہیں کہ تقلید کا حکم اس وقت تک نہ واضح ہو سکتا ہے نہ ہی واضح کیا جا سکتا ہے جس وقت تک تقلید کا معنی معلوم نہ ہو جائے اور آگے دو معنوں کی طرف اشارہ فرمایا پھر سوال وجواب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس سے بہتر یہی نہ تھا کہ سائل کو لمبے چکر میں ڈالنے کی بجائے آپ خود اپنا معہود فی الذہن تقلید کا معنی لکھ دیتے اور ساتھ حکم مدلل لکھ دیتے‘‘ الخ

جواباً گزارش ہے کہ بندہ نے یہ طریق سائل کو ’’لمبے چکر‘‘ میں ڈالنے کے لیے نہیں صرف اسے مسئلہ کی حقیقت معلوم کروانے کی خاطر اختیار کیا ہے چنانچہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ۔ ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی رحمہ اﷲ ص ۲۶۵ لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّةِ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلادلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت ۔ بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱)  اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے یا نہیں ؟ اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے ۔

یہ انداز صرف اور صرف آپ کو سمجھانے کی خاطر اختیار کر رہا ہوں ورنہ آپ کے سوال کے جواب میں تو صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ۔ اس تیسری تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔                         فقط والسلام ابن عبدالحق یکم محرم ۱۴۰۲ہـ

 محترمی ومکرمی حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ بندہ نے صرف مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے جناب محترم کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ تقلید کس کو کہتے ہیں اور آپ نے نوازش فرمائی کہ سابقہ گفتگو کے کاغذات  روانہ فرمائے ان سے کچھ حاصل نہ ہوتا تھا بندہ نے دوبارہ لکھا آپ نے پھر اسی تحریر کی طرف اشارہ فرمایا بلکہ تیسری بار بھی اسی گفتگو کے کاغذات سے کچھ عبارات نقل فرما دیں مگر آپ میری گزارش پہ خدا جانے کیوں توجہ نہیں فرماتے شاید مجھ سے لکھنے میں غلطی ہو جاتی ہے جس سے مطلب بگڑ جاتا ہے مکرمی ! میں نے یہی لکھا تھا کہ تقلید کا لفظ مسلک اہل حدیث اور مسلک حنفی دونوں بزرگوں کی کتب میں موجود ہے بلکہ فتاوی نذیریہ سے یہ عبارت بھی لکھی تھی ’’یَجُوْزُ تَقْلِیْدُ الْمَفْضُوْلِ مَعَ وُجُوْدِ الْاَفْضَل‘‘ جب یہ لفظ دونوں مسلکوں میں موجود ہے تو آپ سے اسی لفظ کی تعریف آپ کے اپنے مسلک کے مطابق پوچھی تھی مزید گزارش ہے کہ ہدیہ المہدی ص۱۱۰ میں ہے ’’لاَ بُدَّ لِلْعَامِیْ مِنْ تَقْلِیْدِ الْعُلَمَائِ‘‘ نیز کتاب سیدی والی ص ۳۷۵ میں اسی سے ملتے جلتے تقریباً الفاظ ہیں تو اب میں یہی گزارش کرتا ہوں کہ ان جماعت اہلحدیث کے بزرگوں کی تصریحات کی روشنی میں تقلید کی تعریف اور اقسام مفصل بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں تاکہ سائل کے اشکالات رفع ہو جائیں اور حقیقت حال اجاگر ہو جائے بندہ کو ادھر ادھر بھیجنے کی بجائے خود ہی مطمئن فرما دیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے۔             السائل محمد عبداللہ راشدؔ مدرسہ دارالتوحید والسنہ منڈیالہ ضلع گوجرانوالہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب !زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۱۴ محرم ۱۴۰۲ہـ  بعد از  نماز عصر آپ کا چوتھا گرامی نامہ موصول ہوا ۔ آپ نے اپنی تیسری تحریر میں لکھا : ’’آپ اپنے پاس سے تسلی بخش معنی اور حکم مدلل بیان فرما دیں‘‘ تو بندہ نے اس کے جواب میں لکھا۔ ’’آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ’’ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّۃٍ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت - بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱) اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے  یا نہیں ؟   اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے‘‘

نیز بندہ ہی نے لکھا ’’حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ‘‘

اب آپ فرمائیں آیا آپ کے معنی تقلید اور حکم تقلید سے متعلق سوال کا جواب اس بندہ کی طرف سے آپ کے پاس پہنچ چکا ہے یا نہیں ؟ اگر پہنچ چکا ہے تو یہ بندہ اپنی ذمہ داری (پہنچانے اور بتانے) سے فارغ ہو چکا ہے والحمد ﷲ علی ذالک باقی بات کو دل میں اتارنا اللہ تعالیٰ جل وعلا کا کام ہے بصورت دیگر آپ لکھیں کہ تو نے معنی تقلید بیان کیا ہے نہ حکم تقلید تاکہ یہ دونوں چیزیں لکھ کر رقعہ آپ کو بھیج دیا جائے ۔

حضرت الامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ اور عقیدہ علم غیب سے متعلق جو کچھ آپ نے کسی بزرگ سے سنا وہ ہمارا مسلک نہیں اس چوتھی تحریر کو بھی واپسی کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔ فقط والسلام    ابن عبدالحق بقلم۱۵محرم۱۴۰۲ہـ

مکرمی حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی                             السلام علیکم ورحمۃ اللہ

گزارش ہے کہ بندہ نے جو مسئلہ تقلید سمجھنے کے لیے کوشش کی کافی حد تک اس میں ناکامی نظر آ رہی ہے اور بات کو حل کرنے کی بجائے طول دیا جا رہا ہے البتہ اس دفعہ آپ نے لکھا ہے کہ بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی مکرمی اب بات کو مزید طول نہ دیں اور اپنا نظریہ اور معنی تقلید مع مدلل حکم تحریر فرما دیں آپ سے تقلید کا معنی اسی لیے متعین کروایا ہے کہ یہ لفظ آپ کے مسلک کی کتب میں بھی موجود ہے چنانچہ فتاوی نذیریہ ص۱۷۹ ج۱ میں ہے کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کی تقلید جائز ہے اور ہدیۃ المہدی ص۱۱۰ میں ہے کہ عامی کے لیے تقلید علماء ضروری ہے اور کتاب سیدی والی ص۳۷۵ میں ہے ائمہ اہل سنت میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو جو بغیر کسی تعین کے ہو واجب قرار دیتے ہیں اور مولانا ثناء اللہ صاحب فرماتے ہیں اور ان کو (یعنی عوام الناس) تقلید سے چارہ بھی نہیں اجتہاد  وتقلید ص۵۶ علماء اہلحدیث کی ان تصریحات کے پیش نظر اب ـآپ اپنا نظریہ بیان فرما دیں تاکہ مجھے سمجھنے میں آسانی رہے اور تقلید کا ایسا معنی فرما دیں جس کو فریقین تسلیم کرتے ہوں آگے تفصیل میں گرچہ اختلاف ہو اور یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کا نظریہ ان علماء اہلحدیث سے ہٹ کر ہو یعنی تقلید کسی صورت بھی جائز نہیں حرام ہے اور تقلید کا میرے نزدیک یہ معنی ہے جس کی وجہ سے یہ ہر حالت میں حرام ہے اب ادھر ادھر مجھے نہ بھیجیں اس دفعہ ضرور تکلیف فرما کر اس عقدہ کو حل فرما دیں تاکہ حق بات کھل کر سامنے آ جائے شاید اس میں دین کی بہتری ہو اور مجھ جیسے ناکارہ کو بات سمجھ آ جائے ۔

                             والسلام : محمد عبداللہ راشدؔ دارالتوحید والسنہ منڈیالہ تیگہ ضلع گوجرانوالہ21/11/81

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب راشد صاحب زادنی اﷲ تعالی وایاک علما نافعا وعملا صالحا  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد ! ۲۵ محرم ۱۴۰۲ہـ  بعد از نماز  ظہر آپ کا پانچواں گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ لکھتے ہیں ’’اب ادھر ادھر مجھے نہ بھیجیں‘‘ محترم اپنی کسی سابقہ تحریر کا حوالہ دینا ادھر ادھر بھیجنا نہیں چنانچہ میری چوتھی تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں اس میں آپ کو ادھر ادھر نہیں بھیجا گیا صرف اپنی سابقہ تحریروں کا حوالہ دیا گیا ہے آپ کی سہولت کے پیش نظر اپنی چوتھی تحریر کو نیچے درج کر رہا ہوں :

’’آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں موجود ہے ’’ارشاد الفحول میں بحوالہ تحریر ابن ہمام حنفی لکھا ہے ’’اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُہُ اِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَ حُجَّۃٍ‘‘ یعنی ’’تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنے کا نام ہے جس شخص کا قول حجتوں میں سے کوئی سی حجت نہ ہو‘‘ (تحریری بات چیت - بندہ کی تحریر نمبر۴ ص۱) اب آپ فرمائیں تقلید کا یہ معنی آپ کے نزدیک درست ہے  یا نہیں ؟   اگر آپ اس معنی کو درست نہ سمجھتے ہوں تو پھر تقلید کا وہ معنی تحریر فرما دیں جس کو آپ درست سمجھتے ہوں کیونکہ تقلید کا معنی متعین کیے بغیر حکم تقلید کو سمجھنا سمجھانا کوئی نتیجہ خیز چیز نہیں امید ہے جناب اس طرف توجہ فرمائیں گے‘‘

نیز بندہ ہی نے لکھا ’’حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کے پاس پہنچی ہوئی تحریری بات چیت میں دلیل سمیت بالفاظ واضحہ درج ہے آپ اسے ہی ملاحظہ فرما لیں اگر حکم تقلید سے متعلق بندہ کا نظریہ آپ کو تحریری بات چیت میں نہ ملے تو مجھے لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ نشاندہی کر دی جائے گی ‘‘

اب آپ فرمائیں آیا آپ کے معنی تقلید اور حکم تقلید سے متعلق سوال کا جواب اس بندہ کی طرف سے آپ کے پاس پہنچ چکا ہے یا نہیں ؟ اگر پہنچ چکا ہے تو یہ بندہ اپنی ذمہ داری (پہنچانے اور بتانے) سے فارغ ہو چکا ہے والحمد ﷲ علی ذالک باقی بات کو دل میں اتارنا اللہ تعالیٰ جل وعلا کا کام ہے بصورت دیگر آپ لکھیں کہ تو نے معنی تقلید بیان کیا ہے نہ حکم تقلید تاکہ یہ دونوں چیزیں لکھ کر رقعہ آپ کو بھیج دیا جائے ۔‘‘اس پانچویں تحریر کو بھی واپسی رسید کے ساتھ رجسٹری کیا جا رہا ہے ۔ فقط والسلام            ابن عبدالحق بقلم۲۶محرم۱۴۰۲ہـ

[مولانا عبداللہ صاحب راشد اور حافظ عبدالمنان صاحب نور پوری کے درمیان تحریری گفتگو میں قاضی شمس الدین صاحب اور حافظ صاحب کی تحریری گفتگو کا حوالہ ہے اس لیے اس تحریر کو یہاں درج کیا جاتا ہے]

  بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب قاضی صاحب !                 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بندہ کا سوال ہے امید ہے جناب جواب دے کر اس کی تسلی کریں گے سوال یہ ہے حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید قرآن وحدیث کی رو سے فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ؟

نیز جو شخص حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید نہیں کرتا وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسا ہے ؟

                             ماسٹر محمد خالد ۲۱ شوال ۱۴۰۱ہـ  سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ

حضرت القاضی(۱)

۲۲ شوال ۱۴۰۱ہـ

ایک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کوئی واجب نہیں کہتا اور نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ} خلاصہ یہ کہ مثالوں پر عمل کرنا تو سب لوگوں پر واجب ہے اور ان کو سمجھنا صرف علم والوں کا کام ہے ۔ تو دوسروں پر واجب ہے کہ ان سے پوچھ کر ان پر عمل ۔        شمس الدین

حضرت الحافظ (۱)

                                                بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۲ شوال ۱۴۰۱ہـ کی بات ہے کہ جناب محمد خالد صاحب نے وجوب تقلید کے اثبات میں حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کا ایک فتویٰ بندہ کو دکھایا اور اس پر کچھ لکھنے کا مطالبہ کیا جسے اس نے قبول کر لیا۔

تو حضرت قاضی صاحب اپنے اس فتویٰ میں لکھتے ہیں ’’نفس تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت 1 {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ}2  الخ [اور یہ مثالیں بیان کرتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے]

اہل علم کو معلوم ہے کہ جب تک دعویٰ میں مذکور الفاظ کے معانی متعین نہ ہوں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ دعویٰ مدعی کی پیش کردہ دلیل سے ثابت ہو بھی رہا ہے یہ نہیں اور الفاظ دعویٰ کے معانی مدعی ہی متعین کیا کرتا ہے یا پھر اس کا کوئی وکیل۔

لہٰذا جناب ماسٹر صاحب سے اپیل ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب سے ان کے اپنے ہی دعوے میں مذکور الفاظ تقلید ، نفس تقلید اور وجوب کے معانی متعین کروائیں کہ وہ اس مقام پر تقلید ، نفس تقلید اور وجوب سے کیا کیا معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب ‘‘ اللہ تعالیٰ کے قول {وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ} سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟

                                      ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ۲۳شوال۱۴۰۱ہـ

 

1اس مقام پر ’’ہے‘‘ کا لفظ حضرت قاضی صاحب کی تحریر میں نہیں نیز ان کی تحریر کے آغاز میں تسمیہ نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2العنکبوت ۴۳ پ۲۰

حضرت القاضی (۲)

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 ص 575-595

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ