السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سنت کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان فرمائیں ؟ ابو الاحسان امان اللہ بہاولپور
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لفظ سنت کے چار اطلاق واستعمال ہیں ایک لغوی اور تین اصطلاحی ۔ لغت میں سنت کا معنی لیا جاتا ہے ’’الطریقة المسلوکةَ‘‘ بعض کہتے ہیں ’’الطریقة المعتادۃ‘‘ اور بعض نے لکھا ہے ’’الطریقةَ المحمودۃ‘‘ پہلے دونوں معانی تیسرے معنی سے اعم اخص من وجہ ہیں اب اصطلاحی تین معانی سماعت فرمائیں ۔
(۱) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقاریر سنت ہیں سنت کا لفظ جب دلائل کے بیان میں بولا جائے تو اس وقت اس کا یہی معنی لیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ’’ہٰذَا الْحُکْمُ ثَابِتٌ اَوْ ثَبَتَ بِالسنةَ‘‘
(۲) مندوب کو سنت کہا جاتا ہے یہ معنی عموماً اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب سنت کا لفظ احکام میں استعمال کیا جائے مثلاً ’’اَلاَمْرُ الْفُلاَنِی سُنَّةَ ٌ‘‘ بولا جائے تو مقصود یہ معنی ہو گا کہ وہ مندوب ہے نہ واجب وفرض ہے نہ مباح نہ ہی مکروہ ہے اور نہ ہی مخطور وحرام ۔
(۳) وہ چیز جو بدعت نہ ہو اس کو بھی سنت کہہ دیا جاتا ہے خواہ وہ فرض وواجب ہی کیوں نہ ہو۔ تو اس معنی میں سنت بدعت کا مقابل ہے جیسے پہلے معنی میں قرآن سے اور دوسرے معنی میں فرض ، مباح ، مکروہ اور حرام سے متقابل ہے۔
اب ان تین اصطلاحی معانی سے کسی ایک کا تعین عبارت وکلام کے سیاق ، سباق ، لحاق اور قرائن کو دیکھ کر کیا جائے گا جیسا کہ مشترک الفاظ کا وطیرہ ہے شریعت کتاب وسنت میں ان اصطلاحی تخصیصات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اس لیے قرآن وحدیث کے الفاظ کو مصطلحات علوم وفنون پر محمول کرنا درست نہیں اور اصطلاحی معانی کے اثبات کے لیے اہل اصطلاح سے نقل کافی ہوتی ہے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی مزید معلومات کی خاطر ارشاد الفحول سے سنت کی بحث کا مطالعہ فرما لیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب