السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بندہ آپ کا بہت شکر گزار ہے کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر ہمارے سوالات کا جواب دیا جس سے ہماراسٹاف مطمئن ہو گیا صرف تیسرے سوال ’’کیا ترانہ کے وقت تعظیماً جہاں کہیں سن رہے ہوں کھڑا ہو جانا جائز ہے یا نہیں ؟‘‘ کے جواب سے بعض دوست مطمئن نہیں ہوئے ۔ اعتراض کرتے ہیں کہ ترانہ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جانا یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو قانون ہے اور قانون کا احترام کرنا ہم پر لازم ہے۔ اسی طرح پرچم کشائی کے وقت کھڑا ہونا یہ بھی قانون ہے ۔برائے مہربانی مذکورہ اعتراض کا تسلی بخش جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
محمد اکرم عربی ٹیچر ضلع اوکاڑہ
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام میں امیر اور خلیفہ کی اطاعت فرض ہے لیکن امیر یا خلیفہ کی اطاعت کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی معصیت ونافرمانی ہوتی ہو تو پھر امیریا خلیفہ کی ایسے امور میں اسلام کے اندر اطاعت نہیں صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں واقعہ موجود ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو فوج کے ایک دستہ کا امیر بنایا اس نے آگ جلا کر ماتحت لوگوں کو حکم دیا اس میں چھلانگیں لگائو بعض تو اطاعت امیر کے پیش نظر تیار ہو گئے اور بعض نے کہا آگ سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیونکر کودیں ؟ اتنے میں امیر صاحب کا غصہ کافور ہو گیا انہوں نے اپنا حکم واپس لے لیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: {لَوْ دَخَلُوْہَا مَا خَرَجُوْا مِنْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ}1 اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے نیز آپ نے فرمایا {لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ اﷲِ} اللہ کی نافرمانی کے کام میں کسی مخلوق کی کوئی طاعت نہیں۔
دیکھئے محترم ! اگر بالفرض حکومت قانون بنا دے کہ ترانہ کے وقت تمام سامعین اس کی تعظیم کی خاطر جھک جائیں یا ماتھا زمین پر رکھ دیں تو کیا اہل اسلام اس قانون کا احترام کرتے ہوئے یہ کام کرنے کو تیار ہیں ؟ نہیں ہر گز نہیں کیونکہ اسلام، دین اور اللہ تعالیٰ کا قانون مقدم ہے انسانوں کے بنے ہوئے قانون اللہ تعالیٰ کے بنے ہوئے قانون کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے مثال کے طور پر ربا اور سود ہی کو لے لیجئے شریعت اسلامیہ میں تو یہ قطعاً حرام ہے ملکی قانون کے لحاظ سے ملک میں چل رہا ہے تو اب احترام ہم قانون الٰہی کا کریں یا قانون ملکی کا ؟ ظاہر ہے ہر مسلمان یہی کہے گا کہ ہم تو ایسے ملکی قانون کا احترام کرنے سے رہے جس سے قانون الٰہی ہی کا دامن چھوٹ جائے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آپ کو کئی مثالیں ملیں گی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کئی ایک ملکی قوانین کی صرف اس لیے مخالفت کی کہ ان قوانین ملکیہ سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت ہوتی تھی مثلاً حج تمتع نہ کرنا، مرتدین کو جلانا اور خطبہ نماز عید سے پہلے دینا تو جب زمانہ خیر القرون میں انسانوں کا بنا ہوا قانون صرف اس لیے قابل احترام واتباع نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے بنے ہوئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے قانون کی مخالفت ہوتی ہے تو پھر موجودہ دور کی حکومتوں کے بنے ہوئے قانون کس باغ کی مولی ہیں؟ کہ ہم ان کے احترام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دیں ترمذی شریف میں موجود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول: {أَاَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعُ اَمْ اَمْرُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم} 2 [کیا میرے باپ کے امر کی پیروی ہو گی یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے امر کی] سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کا صحیح فہم اور ان پر صحیح معنوں میں خالصۃً لوجہ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1[بخاری ۔ کتاب المغازی ۔ باب سریة عبد اﷲ بن حذافۃ السہمی وکتاب اخبار الآحاد ۔ باب ما جاء فی إجازۃ خبر الواحد الصدوق فی الاذان والصلاۃ والصوم والفرائض والاحکام ] 2[ترمذی ابواب الحج ۔ باب ما جاء فی التمتع ]