السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
۱)بات کیسے ثابت کی جا سکتی ہے کہ جس حدیث کو امام ترمذی حسن کہیں وہ نفس الامر بلکہ خود امام موصوف کے ہاں بھی قابل استدلال نہ ہو ؟(۲) قابل استدلال ۔ قابل استشہاد ۔ قابل اعتبار ۔ اصطلاحات کی وضاحت کریں؟
اللہ دتہ اٹک
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
( ۱) جامع ترمذی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں قلت فرصت کے باعث صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ سورہ انفال کی تفسیر کے آخر میں ایک حدیث نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ عَبْدِ اﷲِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیْہِ‘‘
دیکھئے امام صاحب موصوف رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کو حسن بھی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے منقطع ہونے کی بھی تصریح فرماتے ہیں اور معلوم ہے کہ مرسل ومنقطع محدثین کے ہاں قابل احتجاج واستدلال نہیں جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے مقدمہ صحیح میں لکھا ہے ۔
(۲) اصطلاح میں قابل احتجاج یا قابل استدلال اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو صحیح یا حسن ہو۔
قابل استشہاد اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو شواہد میں ذکر کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو اور قابل اعتبار اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو شواہد ومتابعات میں ذکر کیے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب