السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سر منڈانا منع ہے اور خارجیوں سے مشابہت ہے حدیث شریف کی وضاحت فرمادیں {قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله علیہ وسلم سِیْمَاہُمْ (ای الْخَوَارِج) اَلتَّحْلِیْقُ}1 ان کی علامت (یعنی خارجیوں کی) سر منڈانا ہے۔
1بخاری
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سر منڈانا درست ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا {اِحْلِقُوْہُ کُلَّہُ أَوِ اتْرُکُوْہُ کُلَّہُ}2 [سارے سر کا حلق کرو یا سارے کو چھوڑ دو] نیز قرآن مجید میں ہے: {لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَآئَ اﷲُ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لاَ تَخَافُوْنَ}3 الآیۃ[تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوئے ہو گے کسی کا خوف تم کو نہ ہو گا] رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے احرام کھولنے پر سر منڈایا تھا نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمادی {اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِیْنَ قَالُوْا وَالْمُقَصِّرِیْنَ}4 الحدیث [اے اللہ رحمت کر سر منڈانے والوں پر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کی اور بال ترشوانے والوں پر] ہاں افضل وسنت یہی ہے کہ وفرہ ، جمہ اورلمہ بال رکھے جائیں کیونکہ احرام کھولنے کی حالت کے علاوہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی یہی کیفیت احادیث میں بیان ہوئی ہے تو افضل یہی ہے کہ احرام کھولتے وقت سر منڈایا جائے اور آگے پیچھے وفرہ ، جمہ اور لمہ بال رکھے جائیں رہی حدیث ’’سِیْمَاہُمْ اَلتَّحْلِیْقُ‘‘ تو اس کا مقصود یہ ہے کہ جو خارجی ہے وہ سر منڈاتا ہے یہ مقصود نہیں کہ جو سر منڈاتا ہے وہ خارجی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
2[ابوداود المجلد الثانی کتاب الترجل باب فی الصبی لہ ذوابۃ ]3[الفتح ۲۷ پ۲۶ ] 4[بخاری شریف کتاب الحج باب الحلق والتقصیر عند الحلال ]