السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ حدیث سنن ابن ماجہ باب اسماء اللہ تعالیٰ میں ہے اس کی سند کی وضاحت فرما دیں ؟
{عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْأَلُکَ بِاِسْمِکَ الطَّاہِرِ الطَّیِّبِ الْمُبَارَکِ الْاَحَبِّ اِلَیْکَ الَّذِیْ اِذَا دُعِیْتَ بِہِ اَجَبْتَ وَاِذَا سُئِلْتَ بِہٖ اَعْطَیْتَ وَاِذَا اسْتُرْحِمْتَ بِہٖ رَحِمْتَ وَاِذَا اسْتُفْرِجْتَ بِہٖ فَرَّجْتَ قَالَتْ وَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ یَا عَائِشَۃُ ہَلْ عَلِمْتِ اَنَّ اﷲَ قَدْ دَلَّنِیْ عَلَی الْاِسْمِ الَّذِیْ اِذَا دُعِیَ بِہٖ اَجَابَ قَالَتْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ فَعَلِّمْنِیْہِ قَالَ اِنَّہٗ لاَ یَنْبَغِیْ لَکِ یَا عَائِشَۃُ قَالَتْ فَتَنحَّیْتُ وَجَلَسْتُ سَاعَۃً ثُمَّ قُمْتُ فَقَبَّلْتُ رَاْسَہٗ ثُمَّ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ عَلِّمْنِیْہِ قَالَ اِنَّہٗ لاَ یَنْبَغِیْ لَکِ یَا عَائِشَۃُ اَنْ اُعَلِّمَکِ اِنَّہٗ لاَ یَنْبَغِیْ لَکِ اَنْ تَسْاَلِیْنَ بِہٖ شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا قَالَتْ فَقُمْتُ فَتَوَضَّأتُ ثُمَّ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قُلْتُ (اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَدْعُوْکَ اﷲَ وَاَدْعُوْکَ الرَّحْمٰنَ وَاَدْعُوْکَ الْبَرَّ الرَّحِیْمَ وَاَدْعُوْکَ بِاَسْمَآئِکَ الْحُسْنٰی کُلِّہَا مَا عَلِمْتُ مِنْہَا وَمَا لَمْ اَعْلَمْ اَنْ تَغْفِرَ لِیْ وَتَرْحَمَنِیْ) قَالَتْ فَاسْتَضْحَکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم ثُمَّ قَالَ اِنَّہٗ لَفِیْ الْاَسْمَآئِ الَّتِیْ دَعَوْتِ بِہَا}
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے اللہم انی اسالک باسمک الطاہر الطیب المبارک الاحب الیک اذا دعیت بہ اجبت واذا سئلت بہ اعطیت واذا استرحمت بہ رحمت واذا استفرجت بہ فرجت اور ایک روز آپ نے فرمایا اے عائشہ تم جانتی ہو بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنا وہ نام بتلا دیا کہ جب وہ نام لے کر دعا کی جاوے تو اللہ تعالیٰ قبول کرے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ وہ نام مجھ کو بتلا دیجئے آپ نے فرمایا تیرے لائق نہیں اے عائشہ (یعنی اسم اعظم تجھ کو بتلانا مصلحت نہیں معلوم نہیں تو کیا دعا مانگے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ سن کر میں ہٹ گئی اور ایک ساعت خاموش بیٹھی پھر میں اٹھی اور میں نے آپ کا سر چوما اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وہ اسم مجھ کو بتلا دیجئے آپ نے فرمایا یہ تیرے لائق نہیں اے عائشہ یعنی اس کا بتلانا تجھ کو مناسب نہیں اور تجھے مناسب نہیں دنیا کی کوئی چیز اس اسم کے وسیلے سے مانگنا حضرت عائشہ نے کہا یہ سن کر میں اٹھی اور میں نے وضو کیا پھر میں نے دو رکعتیں پڑھیں بعد اس کے میں نے دعا کی ’’اللہم انی ادعوک اﷲ وادعوک الرحمان وادعوک البر الرحیم وادعوک باسمآء ک الحسنی کلہا ما علمت منہا وما لم اعلم ان تغفرلی وترحمنی‘‘ یہ سن کر آپ ہنسے اور فرمایا اسم اعظم انہی ناموں میں سے ہے جن سے تو نے دعا مانگی ۔ محمد یعقوب احمد
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنن ابن ماجہ سے جو حدیث آپ نے نقل فرمائی اس کی سند میں ابو شیبہ نامی ایک راوی ہے جو مہمل ہے اور اصول حدیث کی رو سے مہمل راوی مجہول ہوتا ہے تا وقتیکہ کسی ثقہ کے ساتھ اس کی تعیین ثابت نہ ہو ۔ شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس حدیث کو ضعیف ابن ماجہ میں شامل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۱۴/۲/۱۴۱۴ہـ