اگر والدین اپنی اولاد پر ناراض ہوں اور ان کی خوشنودی کے لیے مکمل کوشش کی جائے لیکن وہ راضی نہ ہوں تو کیا آدمی اپنے جسم کا کوئی عضو آنکھ یا ہاتھ ضائع کر سکتا ہے کہ شاید اس طرح والدین کا دل نرم ہو جائے اور وہ راضی ہو جائیں ، ایک حکایت بیان کی جاتی ہے ، مالک بن دینار کے حوالہ سے عبدالرحمن بلخی نے ایسا کیا تھا اور حوالہ دیتے ہیں ، المقاصد السنیۃ فی احادیث الالٰھیۃ کا ۔ کیا یہ نام درست ہے اور یہ کیسی کتاب ہے؟
(عنایت اللہ امین ، ضلع قصور)
آپ جانتے ہیں خود کشی جرم و گناہ ہے بلاشبہ اپنے جسم کا کوئی عضو کاٹ ڈالنا یا ضائع کر دینا بھی جرم و گناہ ہے، یقیناوالدین کا انسان کے ذمہ بہت زیادہ حق ہے لیکن وہ حق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حق سے تو مقدم نہیں ہے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکا فرمان ہے: ((اَلْسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ حَقٌّ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَإِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ)) [’’ بات کو سننا اور ماننا ضروری ہے تا وقتیکہ وہ کسی گناہ کا حکم نہ دے اگر کسی گناہ کا حکم دیا جائے تو بات سننا اور ماننا ضروری نہیں ہے۔‘‘]
پھر صورت مسئولہ میں والدین اپنی اولاد کو جسم کے کسی عضو کو ضائع کرنے کا حکم بھی نہیں دے رہے۔ باقی رہا عبدالرحمن بلخی کا ایسا کرنا تو وہ شریعت میں حجت و دلیل نہیں ۔ یہ عبدالرحمن بلخی صاحب تو عبدالرحمن بلخی ہیں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل بھی شریعت میں حجت و دلیل نہیں۔ رہی کتاب المقاصد السنیۃ فی الأحادیث الالٰھیۃ ، تو وہ کتاب ہے جس میں احادیث قدسیہ کو جمع کیا گیا ہے۔ ۱۳،۵،۱۴۲۱ھ