سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(943) فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟

  • 5243
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2853

سوال

(943) فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟

کیا انسان کو جن چمٹ جاتا ہے؟ کیا وہ انسان کو تکلیف بھی پہنچا سکتا ہے ؟ کئی عامل مریض میں جنوں کو حاضر

2 قدوری،کتاب الاشربۃ،کنز الدقائق،کتاب الاشربۃ۔

کرتے ہیں پھر وہ جن گفتگو بھی کرتے ہیں کیا یہ حقیقت ہے؟

۳۔ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی برابر ہے ، کیا اگر صرف ایک عورت ہی روایت کرے تو وہ روایت قبول کر لی جائے گی؟       (محمد یونس شاکر ، نوشہرہ ورکاں)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فرض اور واجب میں فرق کتاب و سنت میں تو کہیں بیان نہیں ہوا البتہ کچھ فقہائے کرام نے اپنی اصطلاح میں فرق کیا ہے چنانچہ مسلم الثبوت میں ہے: اگر طلب جازم قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہو تو فرض اور اگر طلب جازم ظنی دلیل کے ساتھ ہو تو واجب ۔‘‘ بعض نے یہ بھی فرمایا ہے : ’’دلالت و ثبوت دونوں قطعی ہوں تو فرض اور دونوں سے کوئی ایک ظنی ہو تو واجب ۔‘‘

۲۔ یہ سب باتیں درست و حقیقت ہیں۔ کتاب و سنت میں ان کے دلائل موجود ہیں۔

۳۔ شہادت و گواہی اور روایت و خبر کچھ چیزوں میں برابر ہیں مثلاً عدالت و ضبط اور کچھ چیزوں میں برابر نہیں مثلاً عدد شہادت و گواہی میں بسیار اوقات تعدد ضروری ہے جبکہ روایت و خبر میں تعدد کسی وقت بھی ضروری نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {إِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ} [الحجرات:۶] [’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘]نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وََجَآئَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَی الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی قَالَ یَا مُوْسٰی إِنَّ الْمَلَأَ} [القصص:۲۰] [’’شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا موسیٰ یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں ، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواہ مان۔‘‘]نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {فَجَآئَ تْہُ إِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِیْ یَدْعُوْکَ} [القصص:۲۵] [’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا ء سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے ( جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اُجر ت دیں۔‘‘]

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 858

محدث فتویٰ

تبصرے