کیا کسی شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی نسبت کسی مذہب معین کے ساتھ کرے جیسے: حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیرہ۔
۲۔ کہا گیا ہے کہ آپ اجماع کے قائل ہیں۔ اگر آپ اجماع کے قائل نہیں تو ’’ علی فھم السلف الصالح‘‘ قرآن و حدیث کو سمجھنا ، آپ کے یہاں کیسا ہے؟
۳۔ کچھ دنوں پہلے کچھ طلاب سے گفتگو ہوئی ،مذاہب أربعہ کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ دین اسلام کو سمجھنے کے لیے کوئی بھی شخص ان چاروں مذاہب سے مستغنی نہیں ہو سکتا لازمًا ان کے واسطے سے ہی وہ اُمور اور دین اسلام سمجھ سکتا ہے؟ اور یہ لازم وملزوم کی طرح ہیں؟
۴۔ کیا دیو بندی کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے؟ (ذوالفقار بن ابراہیم الاثری مدینہ منورہ)
قرآن و سنت میں اس کے اثبات میں مجھے تو کوئی نص نہیں ملی ۔
۲ ۔ اس سلسلہ میں آپ کتاب ارشاد الفحول سے اجماع والے مقصد کا مطالعہ فرمائیں ، اجماع کے بارے میں صحیح صورتِ حال آپ پر واضح ہو جائے گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول : ((مَنِ ادَّعٰی وُجُوْدَ الْاِجْمَاعِ فَقَدْ کَذَبَ))[’’جس نے اجماع کے موجود ہونے کا دعویٰ کیا اس نے جھوٹ بولا۔‘‘]پر بھی غور فرمائیں۔
۳۔ طلاب کے اس موقف کے اثبات میں نہ تو کوئی آیت کریمہ ہے اور نہ ہی کوئی صحیح حدیث و سنت۔ پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے لے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فقیہ و مجتہد بننے تک بھی کوئی دین اسلام کو سمجھنے والا آیا یا نہیں؟ مدینہ منورہ کے مشہور و معروف فقہاء سبعہ رحمہم اللہ تعالیٰ ائمہ اربعہ سے پہلے ہوئے ہیں یا بعد؟ پھر غور فرمائیں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالی بھی دین اسلام کو سمجھتے تھے یا نہیں؟ ان کے وقت میں بھی تو مذاہب اربعہ موجود نہیں تھے لہٰذا یہ لازم و ملزوم والی بات محض مخروص و موہوم ہے۔
۴۔ امام مؤمن و مسلم ہے ، کافر یا مشرک نہیں اس کی اقتداء میں نماز درست ہے خواہ وہ دیو بندی ہو خواہ بریلوی۔ امام مؤمن و مسلم نہیں کافر یا مشرک ہے اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث و اہل سنت کہے یا کہلائے۔ واللہ اعلم ۱،۲،۱۴۲۴ھ