تقلید مطلق واجب ہے (کتاب معیار الحق ص:۴۱، تاریخ اہل حدیث ص:۱۲۵)
تقلید شخصی مباح ( جائز) ہے مقلد کسی ایک امام کو محقق سمجھ کر ہمیشہ اس کی بات مانتا رہے مگر اس تعین کو حکم شرعی نہ سمجھے ۔فتاویٰ ثنائیہ ج۱،ص:۲۵۲، معیار الحق ص:۴۱، تاریخ اہلحدیث ص:۱۲۵ داؤد غزنوی ص:۳۷۵۔ مذکورہ کتابیں اہل حدیث علماء مولانا نذیر حسین دہلوی ؒ ، مولانا ابراہیم سیالکوٹی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا داؤد غزنوی کی ہیں ۔ آپ کے ہاں تقلید مطلق واجب ہو گی جبکہ آپ تقلید کو شرک کہتے ہیں؟
۲۔ آپ کے عوام اپنے علماء سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرتے ہیں اور دلیل کی تحقیق نہیں کرتے وہ عوام ان علماء کے مقلد ہوئے یا نہیں؟
۳۔ اللہ کا فرمان : {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ… الخ} دین حضور کے زمانے میں مکمل ہو چکا تھا ، پھر صحاح ستہ کی کیوں ضرورت پڑی اور حضوؐر نے صحاح ستہ ، بخاری و مسلم وغیرہ کے بارے میں کہاں حکم دیا کہ ان ائمہ کی جمع کی ہوئی حدیث پر عمل کرنا؟
۴۔ اہل حدیث اپنا وجود بنارس شہر میں مولانا عبدالحق صاحب سے پہلے ،بھوپال میں نواب صدیق الحسن خانؒ سے پہلے ،دہلی میںنذیر حسین سے پہلے ،مدراس میں نظام الدین ؒ سے پہلے ،لاہور میں غلام نبی ؒ چکڑالوی سے پہلے ثابت کرکے دکھائیں۔ یعنی انگریز کے برصغیر میں آنے سے پہلے کوئی اہل حدیث یا نماز کی کتاب دکھائیں جو اس دور سے قبل لکھی گئی ہو؟ (طارق ندیم ، اوکاڑوی)
آپ کو علم ہے کہ ہم علماء کرام کے اقوال اور اعمال کو دین میں حجت و دلیل نہیں سمجھتے وہ علماء کرام خواہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہوں ، ہاں ان کی جو چیزیں کتاب و سنت کے موافق ہوں وہ لے لیتے ہیں۔ اس لیے آپ خود غور فرمائیں جن علماء کرام کے فتاوی و اقوال آپ نے پیش کیے ان کے پیش کرنے سے حاصل؟
رہا آپ کا فرمانا:’’جبکہ آپ تقلید کو شرک کہتے ہیں۔‘‘ ہم پر بہتان ہے کیونکہ ہم تو وہی بات کہتے ہیں جو نخبۃ الأصول میں لکھی ہے : ((وَالتَّقْلِیْدُ لَا یَجُوْزُ کُلُّہٗ مُفْضٍ إِلَی الشِّرْکِ بَعْضُہٗ)) ہمارے نزدیک تقلید کا مطلب مندرجہ ذیل ہے: ((قُبُوْلُ مَا یُنَا فِی الْکِتَابَ أَوِ السُّنَّۃَ)) اور یہ بعض تقلید کے شرک والی بات صرف ہم ہی نہیں کہتے بلکہ شیخ الحدیث مولانا محمد سر فراز خاں صاحب حنفی حفظہ اللہ تعالیٰ ’’الکلام المفید‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قارئین کرام سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مسئلہ تقلید کی نزاکت کے پیش نظر ٹھنڈے دل سے ساری کتاب کو پڑھ کر کوئی رائے قائم کریں ، چند حوالوں کو یا کسی ایک ہی بحث کو پلے نہ باندھ لیں کیونکہ تقلید کی بعض قسمیں خالص شرک و بدعت او ر ناجائز ہیں ، ان کو جائز کہنے والا اور ان پر عامل کب فلاح پا سکتا ہے۔‘‘(ص:۲۰)
۲۔ ہمارے عوام اپنے علماء سے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی سنت و حدیث پر پوچھ کر عمل کرتے ہیں اور قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی سنت و حدیث بذاتِ خود دلیل و حجت ہیں لہٰذا ہمارے عوام اپنے علماء کرام کے مقلد نہ ہوئے کیونکہ تقلید ((قُبُوْلُ مَا یُنَا فِی الْکِتَابَ أَوِ السُّنَّۃَ))کا نام ہے۔
اگر آپ کے نزدیک کسی سے قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنن و احادیث پوچھ کر عمل کرنے کا نام تقلید ہے تو لازم آئے گا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر ائمہ ، مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ بھی مقلد ہوں کیونکہ انہوں نے بھی قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنن و احادیث کو اپنے اساتذہ کرام رحمہم اللہ سے پوچھ ، پڑھ اور سن کر ہی عمل کیا ہے تو آپ کی اس صنیع عظیم سے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سمیت تمام ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ مجتہدین کی فہرست سے نکل کر مقلدین کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں تو تقلید کی وہ توصیف کیونکر صحیح و درست ہو سکتی ہے جو مسلمہ مجتہدین کو مجتہدین کی فہرست سے نکال کر مقلدین کی صف میں لا کھڑا کرے؟
۳۔ دینِ اسلام ، قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنن و احادیث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مکمل ہو چکے تھے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان:{اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ… الخ}[المائدۃ:۳] [’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘]برحق ہے اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَشَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا))1 [’’سب کاموں سے برے نئے کام ہیں۔‘‘]نیز فرمایا: ((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ))2 [’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس سے نہیں ہے تو پس وہ مردود ہے۔‘‘]پھر غور فرمائیں جس وقت دین اسلام ، قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنن و احادیث مکمل ہوئے اس وقت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کوئی ایک بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی ان کے فتاویٰ، اقوال اور اجتہادات اس وقت موجود تھے۔ صحاح ستہ کی بات تو آپ نے کہہ لی جبکہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی فقہیات بھی دین کی تکمیل اور آیت {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ… الخ}کے نزول کے بعد کی ہیں۔
نیز غور فرمائیں صحاحِ ستہ اور دیگر کتب حدیث میں جو صحیح یا حسن درجہ کی سنن و احادیث ہیں وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ کی ہیں جبکہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اقوال و فتاوی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے بعد کے زمانہ کے ہیں۔
باقی صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث و سنت کو دین اسلام کی تکمیل کرنے والی کتب کوئی بھی قرار نہیں دیتا ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ان کتب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے دین کی حفاظت کروائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} [الحجر:۹] [’’یہ ذکریقینا ہم نے ہی اُتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘]
پھر مقامِ غور ہے کہ اہل حدیث اگر صحاحِ ستہ اور دیگر کتب حدیث میں مذکور سنن و احادیث پر عمل کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی سنن و احادیث پر عمل کرتے ہیں ۔ جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں موجودتھیں ۔جبکہ اہل تقلید ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے اپنے اقوال پر عمل کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے زمانہ میں موجود نہیں تھے بھلا یہ اقوال اس وقت کیسے موجود ہو سکتے ہیں جب کہ ان کے قائل ہی اس وقت موجود نہیں تھے ، رہی یہ بات کہ ائمہ اربعہ
رحمہم اللہ تعالیٰ کے اقوال کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں تو محترم ان کے جو اقوال کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں وہ ان کے اپنے اقوال نہ رہے ان کے اپنے اقوال تو وہ بنیں گے جن پر کتاب و سنت کسی طرح بھی دلالت نہیں کریں گے۔
یہ درست ہے کہ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے صحاحِ ستہ بخاری و مسلم وغیرہ کتب کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا البتہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی سنن و احادیث کی اطاعت اور اتباع کا حکم تو اللہ تعالیٰ نے بھی او ررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھی دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ} [الاعراف:۳] [’’جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو۔‘‘] نیز فرمان ہے: {وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ} [الاعراف:۱۵۸] [’’ اور اسی کی اتباع کرو اُمید ہے کہ تم ہدایت پا لو گے۔‘‘] نیز قرآن مجید میں ہے: {قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْآ إِلَی اللّٰہِ} [یوسف:۱۵۸] [’’کہہ دیجئے کہ میرا راستہ یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘] نیز قرآن مجید میں ہے: {وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [الانعام:۱۵۳] [’’اور یہی میری سیدھی راہ ہے لہٰذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں کے پیچھے نہ جاؤ ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے ، شاید کہ تم بچ جاؤ۔‘‘]
تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنن و احادیث کی اطاعت و اتباع کا اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دونوں نے حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وہ سنن و احادیث صحاح ستہ میں آ جائیں خواہ صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب میں آ جائیں خواہ کسی کتاب میں بھی نہ آئیں ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو جائیں۔
رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے أو لو الأمر کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے؟ ٹھیک اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہی فرمایا ہے: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ} [النسآئ:۵۹] [’’پھر اگر کسی معاملہ پر تمہارے درمیان جھگڑا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘] اور معلوم ہے کہ أو لو الامر میں تنازع واقع ہو چکا ہے اور بوقت تنازع أو لو الامر کی اطاعت کا حکم نہیں ، اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی طرف رد کرنے کا حکم ہے۔
۴۔ یہ سوال بے بنیاد ہے کیونکہ ہر شخص کو علم ہے اہل حدیث کا وجود اس وقت سے ہے جس وقت سے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث ہے ۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ تمام لوگ اہل حدیث ہیں جو اپنے عقائد ، اپنے اقوال اور اپنے اعمال کو قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، خواہ وہ اہل اسلام کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ سب اہل حدیث ہیں خواہ وہ عوام ہوں خواہ خواص ، خواہ خاص الخواص۔
ہاں یہ بات بھی مسلم ہے کہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے مقلدین کا وجود ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے زمانہ سے پہلے کہیں بھی نہیں نہ برصغیر میں اور نہ ہی بر کبیر میں اور نہ ہی رب تعالیٰ کی تقدیر میں یا اللہ نہ فوت کرنا ہمیں کسی تقصیر میں فتوفنا مسلمین وألحقنا بالصالحین یا ربنا و رب العالمین۔ ۲۲،۳،۱۴۲۳ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ۔،باب تخفیف الصلاۃ
2 صحیح بخاری،کتاب الصلح،باب اذا اصطلحوا علی صلح جورٍ فالصُّلحُ مردُود۔