ان عبارتوں کا ترجمہ فرما دیں:
(( عن ابی قیس عن ھزیل بن شرحبیل عن المغیرۃ انہ علیہ السلام مسح علی جوربیہ و نعلیہ ثم ذکر عن مسلم انہ ضعف الخبر و قال ابو قیس الاودی و ھزیل لا یحتملان مع مخالفتھما الا جلۃ الذین رووا ھذا الخبر عن المغیرۃ فقالوا مسح علی الخفین و ذکر ایضا تضعیف الخبر عن جماعۃ وان الاعتماد فی ذلک علی مخالفۃ الناس قلت ھذا الخبر اخرجہ ابو داؤد وسکت عنہ و صححہ ابن حبان و قال الترمذی حسن صحیح و ابو قیس عبدالرحمن بن ثروان و ثقہ ابن معین و قال العجلی ثقۃثبت و ھزیل و ثقہ العجلی و اخرج لھما معا البخاری فی صحیحہ ثم انہما لم یخالفا الناس مخالفۃ معارضۃ بل رویا امرا زائدا علی مارووہ بطریق مستقل غیر معارض فیحمل علی انہما حدیثان ولھذا صحح الحدیث کما مر)) (سنن الکبری الجلد الاوّل : ۲۸۴)
۲۔ (( اخرجہ احمد و ابو یعلی و الحاکم من حدیث شعبۃ عن سلمۃ بن کہیل عن حجر ابی العنبس عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ ان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لما بلغ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین واخفی صوتہ و لفظ الحاکم خفض صوتہ لکن قد اجمع الحفاظ منہم البخاری وغیرہ۔ ان شعبۃ وھم فی قولہ خفض صوتہ وانما ہو مدصوتہ لان سفیان کان احفظ من شعبۃ و محمد بن سلمۃ وغیرھما رووا عن سلمۃ بن کہیل ہکذا و قد بسط الکلام فی اثبات علل ہذہ الروایۃ الزیلعی فی تخریج احادیث الہدایۃ و ابن الہمام فی فتح القدیر وغیرھما من محدثی اصحابنا والا نصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل و قد اشار الیہ ابن امیر الحاج)) (تعلیق الممجد :۱۰۵)
۳۔ (( ثم ان احمد والشافعی یحتجان فی جواز غسل الرجل زوجتہ بان علیا غسل فاطمۃ رضی اللہ عنہما ردا علی ابی حنیفۃ)) (نصب الرایہ:۲، ۲۵۱) (طاہر ندیم)
ابو قیس سے ہزیل بن شرحبیل سے مغیرہ سے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جورابوں اور اپنے جوتوں پر مسح کیا ، پھر انہوں نے مسلم سے ذکر کیا کہ انہوں نے اس خبر کو ضعیف قرار دیا اور فرمایا کہ ابو قیس اودی اور ہزیل دونوں ہی برداشت نہیں کیے جا سکتے ، ان اجلہ کی مخالفت کرنے کے ساتھ جن اجلہ نے اس خبر کو مغیرہ سے روایت کیا تو کہا آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسح کیا موزوں پر اور نیز اس خبر کی تضعیف کو ایک جماعت سے نقل کیا اور اعتماد لوگوں کی مخالفت پر ہے۔ میں کہتا ہوں اس خبر کو ابو داؤد نے نکالا اور اس پر خاموشی اختیار کی اور اس کو ابن حبان نے صحیح کہا اور ترمذی نے کہا: حسن صحیح ہے اور ابو قیس عبدالرحمن بن ثروان کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے اور عجلی نے کہا ثقہ ثبت ہے اور ہزیل کو عجلی نے ثقہ کہا اور ان دونوں کی حدیث کو امام بخاری نے صحیح میں معاً نکالاپھر ان دونوں نے دوسرے لوگوں کی معارض مخالفت نہیں کی بلکہ ان دونوں نے تو دوسروں کی روایت کردہ چیز پر ایک زائد امر کو بطریقِ مستقل روایت کیا ہے جو معارض و منافی بھی نہیں تو محمول کیا جائے گا کہ وہ دو مستقل حدیثیں ہیں ، اسی لیے حدیث کو صحیح کہا گیاہے جیسا کہ پہلے گزرا۔
۲۔اس کو احمد ، ابو یعلیٰ اور حاکم نے نکالا ، شعبہ کی حدیث سے سلمہ بن کہیل سے حجر ابو العنبس سے علقمہ بن وائل سے وہ اپنے باپ سے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالّین پر پہنچے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے آمین کہا اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو مخفی رکھا اور حاکم کے لفظ ہیں اپنی آواز کو پست کیا لیکن بلا شبہ حفاظ جن سے بخاری وغیرہ ہیں نے اجماع کیا ہے کہ شعبہ نے اپنی آواز کو پست کیا ، کہنے میں وہم کیا ہے لفظ تو صرف یہ ہیں کہ اپنی آواز کو لمبا کیا کیونکہ سفیان جو شعبہ سے زیادہ حفظ والے تھے اور محمد بن سلمہ وغیرھما نے سلمہ بن کہیل سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اس روایت کی علتوں کے اثبات میں زیلعی نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور ان دونوں کے علاوہ ہمارے اصحاب سے محدثین نے بسط و تفصیل سے کلام کیاہے۔ اور انصاف یہی ہے کہ جہراً آمین کہنا قوی ہے دلیل کے اعتبار سے اور اس کی طرف ابن امیر الحاج نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔
۳۔پھر احمد اور شافعی مرد کے اپنی بیوی کو غسل دینے کے جواز میں حجت پکڑتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہما کو غسل دیا ۔ امام ابو حنیفہ کے رد میں۔ ۱۳، ۷، ۱۴۲۲ھ