ایک آدمی نے مجھے کہا ہے کہ ایک حدیث کو تین آدمی بیان کرتے ہیں ، ان میں سے ایک آدمی نے جو اثبت ہے روایت کو ایک طریقے سے بیان کیا ہے ، جو اس سے کم درجے کا راوی ہے اس نے روایت کو برعکس بیان کیا ہے ، لیکن کم درجے کے راوی کا بیان حقیقت کے مطابق ہے۔ اور زیادہ مضبوط راوی کا بیان واقع کے خلاف ہے۔ اصول کے لحاظ سے اثبت راوی کی روایت قابل قبول ہو گی اور کمزور راوی کی حدیث اگرچہ وہ حقیقت کے مطابق ہے قابل ترجیح نہ ہو گی۔ حنفیوں کے مطابق کمزور راوی کی حدیث چونکہ واقعہ کے مطابق ہے ہم کمزور راوی کی حدیث کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ وہ مبنی برحقیقت ہے۔
امام ترمذی کی حسن روایت کی تعریف کیا ہے ، اس پر کونسے اعتراضات ہو سکتے ہیں؟
کیا ایسی دو مثالیں آپ نوٹ کر سکتے ہیں کہ جس کو امام ترمذی نے حسن کہا ہو اور پھر انہی دو حدیثوں کو وہ بنفس نفیس ناقابل احتجاج گردانتے ہوں؟ (اللہ دتہ )
آپ لکھتے ہیں:’’ حنفیوں کے مطابق کمزور راوی کی حدیث چونکہ واقعے کے مطابق ہے ہم کمزور راوی کی حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ مبنی برحقیقت ہے۔‘‘
آپ نے اس کی کوئی مثال پیش نہیں فرمائی ، اس کی کوئی ایک مثال پیش فرمائیں پھر اس پر غور کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ بات مبنی برحقیقت نہیں۔ ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔
۲۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’العلل الصغیر‘‘ میں لکھتے ہیں:
(( وَمَا ذَکَرنَا فِیْ ھٰذَا الْکِتَابِ حَدِیْثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِہٖ حُسْنَ إِسْنَادِہٖ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیْثٍ یُرْوٰی لَا یَکُوْنُ فِیْ إِسْنَادِہٖ مَنْ یُّتَّھَمُ بِالْکَذِبِ وَلَا یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ شَاذًا وَیُرْوٰی مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذٰلِکَ فَھُوَ عِنْدَنَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ)) (کتاب العلل مع التحفۃ:۴، ۴۰۰)
امام صاحب کی تعریف سے واضح ہے کہ مرسل و منقطع ، معلل اور کثیر الغلط سي ٔ الحفظ کی روایت ان کے نزدیک حسن کے زمرہ میں شامل ہے جبکہ محدثین اور امام صاحب کے نزدیک ایسی روایات ناقابل احتجاج اور ضعیف ہوتی ہیں۔
۳۔آپ نے دو مثالوں کا مطالبہ کیا ہے تو محترم آپ کی مطلوبہ دو مثالیں پیش خدمت ہیں بتوفیق اللہ سبحانہ و تعالیٰ و عونہ۔
1…امام ترمذی اپنی کتاب ’’جامع و سنن ترمذی‘‘ میں لکھتے ہیں:
(( بَابُ مَا جآئَ فِیْ وَضْعِ الرُّکْبَتیْنِ قَبْلَ الْیَدَیْنِ فِی السُّجُوْدِ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ شَبِیْبٍ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُنِیْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاھِیْمَ الدَّوْرَقِیُّ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحِلَوانِیُّ ، وغَیْرُوَاحِدٍ قَالُوْا نَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ نَاشَرِیْکٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ وَإِذَا نَھَضَ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ۔ وَزَادَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ فِیْ حَدِیْثِہٖ : قَال: یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ : وَلَمْ یَرْوِ شَرِیْکٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ إِلاَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ ، قَال: ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاہُ غَیْرَ شَرِیْکٍ)) (۱، ۲۲۸مع التحفۃ)1
آپ نے دیکھ لیا کہ امام صاحب نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور تصریح فرمائی کہ ہمارے علم میں اس کو شریک کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا تو شریک صاحب امام صاحب کے نزدیک اس حدیث کو روایت کرنے میں متفرد ہیں اور امام صاحب شریک صاحب کو کثیر الغلط قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ باب جاء فی الوضوء مرۃ و مرتین و ثلاثا میں امام صاحب لکھتے ہیں :((وَشَرِیْکٌ کَثِیْرُ الْغَلَطِ))2 (۱، ۵۳مع التحفۃ) اور اہل علم جانتے ہیں کہ کثیر الغلط کی حدیث ناقابل احتجاج اور ضعیف ہوتی ہے۔
2… امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’جامع و سنن ‘‘میں لکھتے ہیں:
(( بَابُ مَا جَائَ فِیْ مِقْدَارِ القُعُوْدِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ حَدَّثَنَا مَحْمُوْدُ بْنُ غَیْلَانَ نَا اَبُوْدَاوُدَ ھُوَ الطَّیَالِسِیُّ نَاشُعْبَۃُ أَنَا سَعْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم إِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ ، قَالَ شُعْبَۃُ : ثُمَّ حَرَّکَ سَعْدٌ شَفَتَیْہِ بِشَیْئٍ فَأَقُوْلُ : حَتّٰی یَقُوْمَ : فَیَقُوْلُ : حَتّٰی یَقُوْمَ ، قَالَ أَبُوْ عِیْسٰی: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ إِلاَّ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَع مِنْ أَبِیْہِ))3 (۱، ۲۹۱مع التحفۃ)
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کو حسن بھی قرار دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ابو عبیدہ کے ان کے والد گرامی سے سماع کی نفی فرما کر اسے ناقابل احتجاج ، منقطع اور ضعیف بھی بنا رہے ہیں ۔ واللہ اعلم ۲، ۸، ۱۴۲۱ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود
2 ترمذی،کتاب الطہارۃ،باب ما جاء فی الوضوء مرۃ و مرتین و ثلاثا۔
3 ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی مقدار القعود فی الرکعتین الاولیین۔