1-محدیثین جب اپنی حدیث کی کتاب میں کسی راوی کے اوپر جرح کرتے ہے۔ جب ہم ان کی کتب ضعفاء دیکھتے ہے۔ تو وہ اس راوی کا نام نہیں رہتا ہے-مثال مصعب بن شیبہ جو صحیح مسلم کے راوی ہے امام دارقطنی نے اپنی سنن میں جرح کی ہے۔ مگر جب امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء کو دیکھتے ہے تو مصعب بن شیبہ کا نام نہیں ہے۔ تو ایسی صورت حال میں محدث کی کس بات کا اعتبار ہوگا۔
2-لا يحمدونه کے اصطلاحی معنی کیا ہے کیا اسکو جرح میں شمار کیا جائے یا تعدیل میں؟ ازراہ کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
1۔ مصعب بن شیبہ صحیح مسلم کا راوی ہے اور امام ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک اس کا خلاصہ ’لَیِّنُ الْحَدِیْث‘ اور امام ذھبی کے نزدیک فیہ ضعف ہے۔
آئمہ جرح وتعدیل کی ایک جماعت نے اس راوی پر ان الفاظ میں جرح کی ہے:
امام احمد رحمہ اللہ نے حدیث
’الوضوء من الحجامۃ‘کے تحت رقمطراز ہیں:
’’ذاك حديث منكر رواه مصعب بن شيبة، أحاديثه مناكير‘‘(الضعفاء الكبير 1775، الجرح والتعديل 1409)
’’یہ حدیث منکر ہے، اس کو مصعب بن شیبہ نے روایت کیا ہے۔ جس کی روایت کردہ احادیث منکرہیں۔‘‘
ابو زرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مصعب بن شیبہ قوی نہیں ہے۔ (علل ابن أبي حاتم 113)
امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے نزدیک
’’ لا يحمدونه، وليس بالقوي‘‘(الجرح والتعديل 1409)
’’کسی نے مصعب بن شیبہ کی تعریف نہیں کی اور وہ قوی نہیں ہے۔‘‘
نسائی رحمہ اللہ کےنزدیک بھی مصعب منکر الحدیث ہے۔ (الكبرى 9243)
امام طحاوی رحمہ اللہ کے نزدیک مصعب بن شیبہ کی حدیث قوی نہیں ہے۔(شرح مشكل الآثار 7/88)
امام دارقطنی کہتے ہیں کہ مصعب بن شیبہ نہ قوی ہے اور نہ ہی حافظ۔ (السنن 399)
ایک مقام پر رقمطراز ہیں:
’’مصعب بن شیبہ ضعیف ہے۔‘‘(السنن 482)
ابو نعیم اصبہانی کے نزدیک مصعب بن شیبہ لیّن الحدیث ہے۔ (المستخرج على صحيح مسلم 604)
یحی بن معین اور عجلونی نے مصعب بن شیبہ کو ثقہ کہا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اس سے روایت نقل کی ہے مثلاً
حدثنا قتيبة بن سعيد وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب. قالوا: حدثنا وكيع عن زكرياء بن أبي زائدة، عن مصعب بن شيبة ، عن طلق بن حبيب ، عن عبدالله بن الزبير ،عن عائشة؛ قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء".امام زکریا رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مصعب بن شیبہ نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا ہوں ہو سکتا ہے وہ مضمضہ (کلی کرنا) ہو۔
جہاں تک امام دار قطنی کا معاملہ ہے تو انھوں نے اپنی کتاب میں اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ’الضعفا والمتروکین ‘میں امام دار قطنی نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ہمارے خیال میں پہلی بات کو دوسری پر ترجیح حاصل ہو گی کہ اس راوی کو امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہی شمار کیا جائے کیونکہ ضعیف کا قول واضح ہے جبکہ عدم ذکر والی بات غیر واضح ہے لہذا واضح قول کو غیر واضح پر ترجیح حاصل ہو گی۔ واللہ اعلم بالصواب
2۔ لا یحمدونہ کے الفاظ جرح ہیں لیکن جرح غیر مفسر ہے۔ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اسے جرح کے چھ مراتب میں سے سب سے نچلے یا چھٹے یا ادنی درجہ کی جرح میں شمار کیا ہے۔