سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(834) نذر اطلاقاً منع ہے؟

  • 5202
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1685

سوال

(834) نذر اطلاقاً منع ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ فرماتے ہیں کہ نذر اطلاقاً منع ہے اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے۔ اس سلسلے میں یہ عرض تھی کہ درج ذیل حدیث کی روشنی میں وضاحت طلب ہے:

(( حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدَۃَ الضَّبِیُّ حَدَّثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ لَا نَذَرَ اِلاَّ فِیْمَا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ))

[’’نذر صرف ان چیزوں میں ہے جن سے اللہ کی رضا مطلوب ہو۔‘‘]

اور دوسری روایت اس طرح تھی:

(( اِنَّمَا النَّذَرُ فِیْمَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ))1(مسند أحمد،ح:۶۷۱۴،۲۷۳۳)

پہلی روایت ابو داؤد/کتاب الایمان والنذور /باب الیمین فی قطیعۃ الرحممیں ہے۔

شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ان کی اسناد کو حسن کہا ہے۔

التعلیقات الرضیۃ علی الروصۃ الندیۃ /کتاب النذر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر اللہ کی اطاعت میں ماننی جائز ہے۔       (شاہد محمود ، مدینہ منورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب لکھتے ہیں کہ’’آپ فرماتے ہیں کہ نذر اطلاقاً ممنوع ہے اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے۔‘‘

تو محترم ’’نذر کا اطلاقاً ممنوع ہونا ‘‘ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

(( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَھَی النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم عَنِ النَّذْرِ ، وَقَالَ: إِنَّہٗ لَا یَرُدُّ شَیْئًا،  وَّ لٰکِنَّہٗ یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ))1

[رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے نذر سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی البتہ اس کے ذریعے بخیل کا مال نکالا جا سکتا ہے۔‘‘]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فتح الباری میں لکھتے ہیں:

(( وفی قول ابن عمر فی ھذہ الروایۃ: أَوَلَمْ تُنْھَوْا عَنِ النَّذْرِ ، نظر لأن المرفوع الذی ذکرہ لیس فیہ تصریح بالنھی ، لکن جاء عن ابن عمر التصریح ففی الروایۃ التی بعدھا من طریق عبداللہ بن مرۃ وھو الھمدانی بسکون المیم عن ابن عمر قال: نھی النبی صلی الله علیہ وسلم عن النذر ۔ وفی لفظ لمسلم من ھذا الوجہ: أخَذ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ینھی عن النذر۔ وجاء بصیغۃ النھی الصریحۃ فی روایۃ العلاء بن عبدالرحمن عن أبیہ عن أبی ھریرۃ عند مسلم بلفظ: لا تنذروا)) ۱ھ (۱۱/۵۷۷)

(( وقال الحافظ فی الفتح: وقال الترمذی بعد أن ترجم کراھۃ النذر وأورد حدیث أبی ھریرۃ ، ثم قال: وفی الباب عن ابن عمر: والعمل علی ھذا عند بعض اھل العلم من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم وغیرھم کرھوا النذر ، وقال ابن المبارک : معنی الکراھۃ فی النذر فی الطاعۃ و فی المعصیۃ ، فإن نذر الرجل فی الطاعۃ فوفی بہ فلہ فیہ أجر ، ویکرہ لہ النذر۔ ۱ھ(۱۱/۵۷۸) وانظر لمعنی الکراھۃ عند السلف مقدمۃ تحفۃ الاحوذی))

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری/کتاب الایمان والنذور/باب الوفاء بالنذر۔

تو آپ کا لکھنا ’’اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے ‘‘ علی الاطلاق درست نہیں خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نذر ممنوع ہے خواہ نذرِ اطاعت ہو خواہ نذرِ معصیت ہو ، البتہ نذرِ اطاعت کو پورا کرنا فرض وضروری ہے جبکہ نذرِ معصیت کو پورا کرنا حرام ہے اور ممنوع ہے۔1

رہی آپ کی پیش کردہ روایت تو اس کی سند میں مغیرہ اور عبدالرحمن دو راوی ہیں جن پر بعض محدثین نے کلا م کیا ہے اگر اس کلام کو در خور اعتناء سمجھا جائے تو روایت کمزور قرار پاتی ہے لہٰذا کوئی اشکال وارد ہی نہیں ہوتا کیونکہ کمزور رو ایت کو لے کر صحیح متفق علیہ حدیث پر اعتراض نہیں کیا جا سکتااور نہ ہی کمزور اور صحیح میں معارضہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ اور اگر اس کلام کو در خو راعتنا ء نہ سمجھا جائے تو اس کی اسناد کو حسن سمجھا جائے گا جیسا کہ آپ نے شیخ البانی رحمہ اللہ سے نقل فرمایا انہوں نے اسناد کو حسن کہا ، حدیث کو حسن نہیں کہا۔ وفرق مابینہما لا یخفی علی أہل العلم و المعرفۃ بالحدیث و مصطلحہ۔

اس حدیث کو حسن تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ نہی عن النذر والی احادیث سے متعارض نہیں کیونکہ اس کا معنی و مفہوم وہی ہے جو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث: ((مَنْ نَذَر أَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہٖ ))2 [’’نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہیے لیکن جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہیے۔‘‘]کا معنی و مفہوم ہے۔

غور فرمائیں: ((اِلاَّ فِیْمَا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ )) اور  (( اِنَّمَا النَّذَرُ فِیْمَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ)) دونوں جملے خبریے ہیں اور حصر و قصر پر مشتمل ہیں تو ابو اسرائیل کی نذر((أَنْ یَقُوْمَ ، وَلَا یَقْعُدَ ، وَلَا یَسْتَظِلَّ وَلَا یَتَکَلَّمَ))3[’’رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ایک آدمی کو کھڑے دیکھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے ۔ اس نے نذر مانی ہے کہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں ، نہ سائے میں بیٹھے گا ، نہ کسی سے بات کرے گا اور روزہ رکھے گا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہو بات کرے ، سایہ کے نیچے بیٹھے اور روزہ پورا کرے۔‘‘]کہاں سے آگئی؟

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی مندرجہ بالا حدیث: ((من نذر أن یطیع اللّہ فلیطعہ ، ومن نذر أن یعصیہ فلا یعصہ)) کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ((والخبر صریح فی الأمر بوفاء النذر إذا کان فی طاعۃ ، وفی النھی عن ترک الوفاء بہ إذا کان فی معصیۃ))۱ھ (۱۱/۵۸۲) قولہ: وفی النھی عن ترک الوفائ… الخ کذا فی النسخۃ التی بیدی، والصواب: وفی النھی عن الوفاء بہ إذا کان فی معصیۃ۔ فترک الترک ھنا ھو الصحیح۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری،کتاب الایمان، والنذور،باب النذر فی الطاعۃ۔

2 صحیح بخاری/کتاب الایمان والنذور/باب النذر فی الطاعۃ۔

3  صحیح بخاری/کتاب الایمان والنذور/باب النذر فیما لا یملک و فی معصیۃ۔

قال النواب رحمہ اللہ تعالیٰ فی الروضۃ الندیۃ: قد ورد النھی عن النذر کما فی الصحیحین و غیرھما من حدیث ابن عمر قال: نھی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم عن النذر ، وقال: إنہ لا یرد شیئا وإنما یستخرج بہ من مال البخیل ، وفیہما أیضا من حدیث أبی ھریرۃ نحوہ ، ثم ورد الا ذن بالنذر فی الطاعۃ ، والنھی عنہ فی المعصیۃ کما فی الصحیحین وغیرھما من حدیث عائشۃ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من نذر أن یطیع اللہ فلیطعہ… الخ (۲/۱۷۵)

أقول: إِن الأحادیث التی ذکرھا النواب لاِثبات الاذن بالنذر فی الطاعۃ لا تدل علی الاذن ولا تثبتہ ، ثم لم یأت بدلیل ما علی تأخر أحادیث عائشۃ و عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ ، وغیرھما عن أحادیث ابن عمرو أبی ھریرۃ وغیرھما فی النھی عن النذر ، واللہ أعلم۔))                                                                             ۱۹/۱۲/۱۴۲۲ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 793

محدث فتویٰ

تبصرے