السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل اسلامی بنک کار اجارہ پر دیتے ھیں!! کیا ان سے لینا درست ھے؟ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
لیزنگ:
مروجہ جدید مالی معاملات میں سے ایک لیزنگ بھی ہے ، لیز اصل عربی کے لفظ ’الاجارۃ‘ کا ترجمہ ہے جو شرعی اصطلاح ہے لیکن مروجہ لیزنگ شرعی اجارہ سے مختلف ہے۔ شرعی اجارہ کا مفہوم تو صرف اتنا ہے:
"بيع منفعة معلومة باجر معلوم"’’طے شدہ اجرت کے بدلے طے شدہ منفعت فروخت کرنا۔‘‘(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 18/251)
اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔معاوضے کے بدلے کسی شخص ( انجنیئر وغیرہ) کی خدمات حاصل کرناٰ۔
2۔اپنی ذاتی چیز جیسے گاڑی یا مکان کا حق استعمال کسی دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس کے عوض کرایہ وصول کرنا۔
جب لیزنگ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اقتصادی ماہرین کے نزدیک اس سے عموما اجارہ کی یہ آخری قسم ہی مراد ہوتی ہے۔
صحیح بخاری میں اجارہ کے عنوان کے تحت دونوں قسموں کا بیان ہے ، اجارہ کی اس قسم میں چوں کہ اصل مالک کی ملکیت ہی ہوتی ہے ، مستاجر کرایہ کے عوض صرف اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لیے ملکیتی اخراجات مستاجر کے ذمے ہوں گے۔ مثلاً مکان کرائے پر دیا گیا ہے تو اس کی پراپر ٹی ٹیکس مالک ادا کرے گا لیکن بجلی، گیس اور پانی کا بل مستاجر کے ذمہ ہو گا۔ اسی طرح اگر کرایہ پر دی گئی چیز کا ایسا نقصان ہو جائے جس میں مستاجر کی غلطی، غفلت یا کوتاہی کا عمل دخل نہ ہو تو وہ نقصان بھی مالک ہی برداشت کرے گا۔
لیزنگ کا جدید مفہوم:
اس کے برعکس انیسویں صدی عیسوی سے لیزنگ کی ایک نئی قسم متعارف ہوئی جس کو عربی میں ’ البیع الایجاری‘ ’’یعنی وہ اجارہ داری جس کی انتہا بیع پر ہوتی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بینک کسی کو کچھ سالوں کے لئے گاڑی خرید کر لیز پر دیتا ہے اس کا کرایہ اقساط میں وصول کیا جاتا ہے۔ بینک کرایہ طے کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اس عرصے میں گاڑی کی قیمت مع اتنے نفع کے جو اس عرصے میں بینک کو اس رقم پر سود کی شکل میں حاصل ہونا تھا، وصول ہو جاتے ہیں جب گاہک مکمل اقساط ادا کر دیتا ہے تو گاڑی اس کی ملکیت ہو جاتی ہے اس طرح ابتدا میں یہ اجارہ ہوتا ہے جو آخر میں بیع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس عرصے میں گاڑی کے ہر طرح کے نقصانات کی ذمہ داری گاہک کی ہوتی ہے بعض اہل علم کی رائے میں یہ ایک جدید صورت ہے۔ دین میں اس کے متعلق کوئی ممانعت نہیں ہے اس لیے جائز ہے۔ جب کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ ایک عقد میں دو عقد جمع ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ ہمارا خیال میں اس میں زیادہ قابل اعتراض پہلو سود کی آمیزش کا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ گاہک جب بینک کے پاس گاڑی لینے جاتا ہے تو وہ اس کی قیمت کا کچھ حصہ ڈاؤن پے منٹ (Down Payment) کے نام سے پہلے ادا کرتا ہے جو زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی ، لیکن ایک خاص شرح (گاڑی کی قیمت کا دس فیصد) سے کم نہیں ہوتا، اب بینک نے کرائے کے نام پر جو اضافی رقم صول کرنا ہوتی ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ڈاؤن پے منٹ کی رقم کتنی ہے؟ اگر وہ زیادہ ہے تو اضافی رقم زیادیہ وصول کی جائے گی۔ اس بارے میں ہم نے مسلم کمرشل بینک کے ایک ذمہ دار سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق اگر آپ بینک سے Baleno گاڑی لیتے ہیں اور ڈاؤن پے منٹ پانچ لاکھ ادا کرتے ہیں تو آپ کے پانچ سال کے لئے 9738 روپے ماہانہ قسط جمع کروانا ہو گی جو 584280 روپے بنتے ہیں۔ اس میں پانچ لاکھ ڈاؤن پے منٹ جمع کر لیں تو مکمل 1084260 روپے کی ماہانہ قسط جمع کروائیں گے جو 984480 روپے بنتے ہیں۔ دو لاکھ ڈاؤن پے منٹ کے نام سے پہلے ادا کیا جا چکا ہے اس طرح کل رقم 1184480 روپے ہو گی۔ پہلی صورت میں ایک لاکھ دو سو روپے کم اور دوسری صورت میں زیادہ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ سودی معاملہ ہے پہلی صورت میں بینک کو چونکہ کم پیسے دینے پڑے اس لیے اس کا سود کم اور دوسری صورت میں زیادہ رقم دینا پڑی اس لیے سود بھی زیادہ بنا۔ اگر یہ حقیقی اجارہ ہوتا تو یہ فرق اتنا نہ ہوتا!! کیونکہ اجار ہ میں کرائے کا تعلق حق استعمال سے ہوتا ہے جو دونوں صورتوں میں برابر ہے نہ کہ اس بات سے کہ اس میں بینک کے کتنے پیسے استعمال ہوتے ہیں نیز اگر یہ حقیقی اجارہ ہوتا تو بینک اس کے نقصان کا بھی ذمہ دار ہوتا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں یہ سودی معاملہ ہے جسے اجارہ کا نام دیا گیا ہے۔ حقیقی اجارہ سے اس کا کو ئی تعلق نہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بظاہر یہ بیع قسط کے مشابہ ہے اس لیے بعض حضرات اسے بیع قسط قرار دے کر اس کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درج ذیل وجوہ کے باعث یہ درست نہیں:
٭ سطور بالا میں ہم نے اس کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق اسے بیع قسط قرار دینے کی قطعاً گنجائش نہیں۔
٭ یہ در اصل دو عقد پر مشتمل ہے۔
1۔ عقد اجارہ 2۔ عقد بیع
جب کہ بیع قسط میں صرف ایک عقد ہوتا ہے بیع اور اجارہ الگ الگ اصطلاحات ہیں اور ہر ایک کے احکام بھی مختلف ہیں۔
٭ بیع قسط میں قیمت تو ادھار ہوتی ہے مگر ملکیت فوراً خریدار کے نام منتقل ہو جاتی ہے لیکن یہاں ملکیت تمام اقساط کی ادائیگی کےساتھ مشروط ہے یہ عقد بیع کے منافی ہے کیونکہ بیع اصل مقصد ہی یہی ہے کہ چیز کی مکمل طور پر فروخت کنندہ کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں آجائے۔
لیزنگ کا متبادل:
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے اجلاس جو 10 تا 15 دسمبر 1988 کو کویت میں منعقد ہوا اس میں مروجہ لیزنگ کے درج ذیل دو متبادل تجویز کیے تھے۔
مدت ختم ہونے کے بعد مستاجر کے پاس تین اختیار ہوں:
1۔گاڑی مالک کے حوالے کر کے عقد اجارہ ختم کر دے۔
2۔نئے سرے سے عقد اجارہ کر لے۔
3۔گاڑی خرید لے۔ (بحوالہ بحوث فی الاقتصاد الاسلامی للدکتور علی القراہ الداغی)
اگرچہ اس پر بھی بعض علماء کے تحفظات ہیں مثلاً مدت اجارہ پوری ہونے پر مستاجر تو آزاد ہے مگر مؤجر مستاجر کی پسند کا پابند ہے لیکن یہ اعتراض کوئی زیادہ وزنی نہیں اس لیے یہ صورت شرعی طور پر جائز ہے۔ بشرطیکہ اس کی عملی تطبیق میں کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔
مروجہ لیزنگ کا دوسرا متبادل:
اسلامی فقہ اکیڈمی نے اس کی جگہ دوسرا متبادل بیع قسط تجویز کیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں انتقال ملکیت آخری قسط کی ادائیگی کےساتھ معلق نہ ہو بلکہ دوسری ضمانتیں ہوں۔ ( ایضا)
نوٹ
مزید تفصیل کےلیے اس کتاب’’دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم‘‘ کا مطالعہ کریں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |
|