سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(790) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم

  • 5158
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4493

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ ایک مضمون ماہانہ مجلہ البلاغ انڈیا سے نکلتا ہے جو کہ حضرت مولانا مختار احمد ندوی صاحب کا ہے: اس میں یہ ایک مضمون نظروں سے گزرا مضمون نگار نے احادیث کا خوب اندراج کیا اور مسئلہ کو اچھے انداز میں بیان کیا، لیکن آخر میں تمام مسئلہ پر ہی پانیپھیر دیا جو میری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ علماء السلف کا بھی خیال ایسا ہی ہے: کہ البتہ اگر کسی کا ازار بغیر غرور و تکبر کے عادتاً ٹخنے سے لٹکتا ہو وہ وعید کی زد میں نہیں آتا ہے ، نیز پھر اس کو مسئلہ بنانا اور اس پر مطلق حرمت کا فتویٰ صادر کرنا ازروئے شرع درست نہیں۔

اب مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عادتاً لٹکائے وہ وعید کی زد میں نہیں آتا تو آتا کون ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تکبر سے لٹکاتا ہے یا نہیں اور پھر عادت تو عبادت نہیں اور پھر عبادت بدلی نہیں جاسکتی اور عادت کو تو ہی آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم بدلنے آئے تھے اور معاشرے کی کتنی عادتیں آنحضرت نے بدلیں اور یہ کہہ کر کہ یہ عادت ہے اس لیے مسئلہ جائز ہے۔ اور پھر ساری احادیث صحیح بیان کیں۔ اور عادت کے اوپر کوئی ایک حدیث بیان نہیں کی صرف حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہکا فعل بیان کیا ہے۔     (محمد بشیر الطیب)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کا مسئلہ

امام مسلم نے بھی اس سلسلہ میں کتاب اللباس، باب تحریم جر الثوب خیلاء کے تحت کئی حدیثیں درج کی ہیں:

(( عن ابن عمر انہ رأی رجلاً یجر ازارہ فقال ممن انت فانتسب لہ فاذا رجل من بنی لیث فعرفہ ابن عمر فقال سمعت رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم باذنی ہاتین یقول من جرازارہ لا یرید بذالک الا المخیلۃ فان اللّٰہ لا ینظر الیہ یوم القیامۃ۔ ))

’’ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ازار گھسیٹتا تھا انہوں نے پوچھا تو کس قبیلہ کا ہے ؟ اس نے بتایا کہ وہ بنی لیث کا ہے۔ ابن عمر نے اس کو پہچانا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ان دونوں کانوں سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جو شخص اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے تکبر کے لیے لٹکائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ ‘‘

(( عن ابی ھریرۃ رأی رجلاً یجر ازارہ فجعل یضرب الارض برجلہ وھو امیر علی البحرین وھو یقول جاء الامیر قال رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم ان اللّٰہ لا ینظر الی من یجر ازارہ بطرف۔))

’’ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ازار اپنے پاؤں سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے جارہا تھا وہ بحرین کا امیر تھا اور کہہ رہا تھا امیر آیا۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف نہ دیکھے گا جو اپنی ازار غرور سے لٹکائے۔ ‘‘

(( عن محمد بن عباد بن جعفر یقول امرت مسلم بن یسار مولی نافع بن عبد الحارث ان یسأل ابن عمرو انا جالس بینھما اسمعت من النبی  صلی الله علیہ وسلم فی الذی یجر ازارہ من الخیلاء شیئا قال سمعت یقول لا ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیامۃ۔))

’’ حضرت محمد بن عباد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت مسلم بن یسار کو جو حضرت نافع بن عبدالحارث کے غلام تھے حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے پوچھنے کے لیے کہا اور میں ان دونوں کے بیچ میں بیٹھا کیا آپ نے نبی  صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے اس شخص کے بارے میں جو اپنی ازار تکبر سے گھسیٹتے ہوئے چلتا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ ‘‘

لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کے سلسلہ میں غرور و تکبر کی قید سے بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ان احادیث میں جس وعید کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہی سخت وعید ہے یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے یا زمین پر گھسیٹ کر چلنے والے کو ان تین لوگوں میں شمار کیا گیا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کا تزکیہ کرے گا۔ اور ان کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہوگا۔ پوری حدیث اس طرح آئی ہے:

(( عن أبی ذر عن النبی  صلی الله علیہ وسلم قال ثلاثۃ لا یکلمھم اللّٰہ یوم القیمۃ ولا ینظر الیھم ولا یزکیھم ولھم عذابٌ الیم قال فقرأھا رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم ثلاث مرات قال ابو ذر خابوا وخسروا من ھم یا رسول اللّٰہ قال المسبل والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب۔))1

’’ حضرت ابو ذر غفاری روایت کرتے ہیں کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تین افراد ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ آپ نے یہ تین بار فرمایا، تو حضرت ابوذر غفاری نے کہا برباد ہوئے اور نقصان میں پڑے کون لوگ ہوں گے۔ اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم1 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اپنے ازار کو زمین سے گھسیٹنے والا، دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا اپنا مال جھوٹی قسم کھاکر بیچنے والا۔ ‘‘

مسلم شریف میں مذکورہ باب کے تحت ایک روایت اس طرح آئی ہے:

(( عن ابی ذر عن النبی  صلی الله علیہ وسلم قال ثلاثۃ لا یکلمھم یوم القیمۃ المنان الذی لا یعطی شیئا  إلا منہ والمنفق سلعتہ بالحلف الفاجر والمسبل ازارہ۔))

’’ حضرت ابوذر غفاری روایت کرتے ہیں کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تین افراد ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا ، ایک احسان جتانے والا کہ جو کسی کو کوئی چیز احسان جتا کر دیتا ہے۔ دوسرا وہ جو اپنا مال جھوٹی قسم کھاکر بیچتا ہے اور تیسرا وہ جو اپنے ازار کو زمین سے گھسیٹتے ہوئے چلتا ہے۔ ‘‘

امام نووی نے ان احادیث کی تشریح میں لکھا ہے:

(( وأما قولہ  صلی الله علیہ وسلم المسبل ازارہ معناہ المرخی لہ الجار طرفہ خیلاء کما جاء مفسرا فی الحدیث الاخر لا ینظر اللّٰہ الی من جر ثوبہ خیلاء والخیلاء الکبرو ھذا التقیید بالجر خیلاء یخصص عموم المسبل ویدل علی ان المراد بالوعید من جرہ خیلاء وقد رخص النبی  صلی الله علیہ وسلم فی ذلک لابی بکر الصدیق وقال لست منہم اذکان جرہ بغیر الخیلاء قال الامام ابوجعفر محمد بن جریر الطبری وغیرہ وذکر اسبال الازار وحدہ لانہ کان عامۃ لباسہم وحکم غیرہ من القمیص وغیرہ حکمہ قلت وقد جاء ذلک منصوصًا علیہ من کلام رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم من سالم بن عبداللّٰہ بن عمر عن ابیہ رضوان اللہ علیھم اجمعین عن النبی  صلی الله علیہ وسلم قال اسبال فی الازار والقمیص والعمامۃ من جرشیئا خیلاء لم ینظر اللّٰہ تعالیٰ الیہ یوم القیمۃ رواہ ابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ باسناد حسن۔))          [شرح مسلم، للنووی ، ج:۱ ، ص:۷۱]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 1 رواہ مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار … ابو داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی اسبال الازار ، نسائی، کتاب الزینۃ، باب اسبال الازار

 

 

’’ اور حضور  صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد … المسبل ازارہ … (یعنی ازار کو زمین پر گھسیٹنے) کا مطلب یہ کہ پاجامہ کو ٹخنوں کے نیچے غرور کی راہ سے لٹکانا جیسے ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہ دیکھے گا جو اپنا کپڑا غرور سے لٹکائے اور یہ غرور کی قید خاص کرتی ہے ازار لٹکانے والے عموم کو یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وعید اس کے لیے ہے جو غرور سے لٹکائے اور خود رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو کپڑا لٹکانے کی رخصت دی اور فرمایا تم ان میں سے نہیں ہو  اصل میں ان کا یہ فعل غرور کی راہ سے نہ تھا۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری وغیرہ نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف ازار لٹکانے والے کا ذکر کیا اس لیے کہ اس وقت لوگوں کا تمام لباس ازار ہوتا تھا اور قمیص وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ اور میں کہتا ہوں اور ایک حدیث میں صاف آیا ہے کہ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے والد (حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا لٹکا ناازار میں ، قمیص میں، اور عمامے میں ہوتا ہے۔ اور جو کوئی ان میں کسی کو غرور سے لٹکائے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ اس کو ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے بسند حسن روایت کیا ہے۔ ‘‘

اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غرورو تکبر کی بناء پر زمین پر سے ازار گھسیٹتے ہوئے چلنا گناہ کبیرہ ہے۔ بعض احادیث سے غرور و تکبر کے بغیر بھی ازار لٹکاتے ہوئے چلنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ان احادیث میں غرور و تکبر کی قید سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اسبال ازار (یعنی ازار لٹکانا) کے گناہ پر مطلق زجر اور وعید والی احادیث کو ان احادیث پر محمول کیا جائے جن میں اسبال ازار کے ساتھ غرور و تکبر کی بھی قید لگائی گئی ہے۔ اس لیے محض لباس زمین پر گھسیٹ کر چلنا یا لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام نہیں ہے ، جبکہ یہ عمل غرور و تکبر کے شائبہ سے پاک ہو۔

واضح ہو بعض احادیث میں غروروتکبر کی قید نہیں آئی اور بعض سطحی مطالعہ کے عادی افراد ان احادیث کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

جواب:… مجلہ ’’ البلاغ ‘‘ کے چند صفحات کی فوٹو کاپی آپ نے ارسال فرمائی ، اس فقیر إلی اللہ الغنی نے ان صفحات کو بغور پڑھا صاحب مضمون جناب غلام نبی صاحب کشافی حفظہ اللہ تعالیٰ نے وہ احادیث نقل فرمائیں جن میں اسبال ازار و ثوب کو مطلقاً مستوجب وعید قرار دیا گیا ان میں غرور و تکبر کی قید نہیں آئی، پھر لکھتے ہیں: ’’ لیکن جو شخص اس موضوع سے متعلق تمام احادیث کا گہرائی سے مطالعہ کرے گا تو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ ان احادیث کے مطلق حکم کو ان احادیث کے مقید مفہوم پر محمول کیا جائے کہ جن میں غرور و تکبر کی قید لگائی گئی ہے۔ ‘‘

کشافی صاحب غرور و تکبر کی قید والی احادیث نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غرور و تکبر کی بنا پر زمین پر سے ازار گھسیٹتے ہوئے چلنا گناہ کبیرہ ہے۔ بعض احادیث سے غرور و تکبر کے بغیر بھی ازار لٹکاتے ہوئے چلنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، لیکن ان احادیث میں غرور و تکبر کی قید سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اسبال ازار (یعنی ازار لٹکانا) کے گناہ پر مطلق زجر و وعید والی احادیث کو ان احادیث پر محمول کیا جائے جن میں اسبال ازار کے ساتھ غرور و تکبر کی بھی قید لگائی گئی ہے۔ اس لیے محض لباس زمین پر گھسیٹ کر چلنا یا لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام نہیں ہے ، جبکہ یہ عمل غرور و تکبر کے شائبہ سے پاک ہو۔ ‘‘

کشافی صاحب اپنی مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اپنے مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں: ’’ البتہ اگر کسی کا ازار بغیر غرور و تکبر کے عادتاً ٹخنے سے لٹکتا ہو وہ وعید کی زد میں نہیں آتا، نیز پھر اس کو مسئلہ بنانا اور اس پر مطلق حرمت کا فتویٰ صادر کرنا از روئے شرع درست نہیں ہے۔ ‘‘ ان کا کلام ختم ہوا۔

ماشاء اللہ تعالیٰ کشافی صاحب نے بات اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمائی ،کیونکہ عام و مطلق آیت یا حدیث کو خاص و مقید آیت یا حدیث پر ہی محمول کیا جاتا ہے ، مگر کشافی صاحب کے ذہن سے یہ بات اترگئی کہ یہ اصول و ضابطہ ہرجگہ نہیں چلتا۔ دیکھئے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے دورانِ سفر نماز قصر کرنے کا تذکرہ فرمایا تو خوفِ عدو کی قید ذکر فرمائی: {وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلَاۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط} [النسآئ:۴،۱۰۱] [ ’’ جب تم سفر پر جارہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ ‘‘ ] الآیۃ۔ حالانکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سفرامن میں بھی نماز قصر فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا ط الخ} [النور:۲۴،۳۳] [ ’’ اور تمہاری جولونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ ‘‘] ارادۂ تحصن کی قید قرآنِ مجید میں موجود ہے ، جبکہ ارادۂ تحصن کی عدم موجودگی میں بھی اکراہ علی البغاء حرام و ممنوع ہے۔

حدیث میں ذکر ہے کچھ لوگ مردہ بکری باہر پھینکنے جارہے تھے ، رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی کھال کو رنگ کر فائدہ اٹھالینا تھا، اب یہ حکم صرف بکری کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ، کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أَیُّمَا إِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ ۔ )) 1 [’’ جو چمڑا بھی رنگ لیا گیا وہ پاک ہوگیا۔ ‘‘ ]بالکل اسی طرح کچھ احادیث میں غرور و تکبر کی قید آئی ہے وہ درست ہے غرور و تکبر سے ازار لٹکانے والے بھی مستحقِ وعید و سزا ہیں اور بزعم خود تکبرو غرور کے بغیر لٹکانے والے بھی مستحق وعید و سزا ہیں۔ ہاں ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ اس وعید و سزا سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔

اس فہم کی دلیل سنن ابی داؤد کی حدیث ہے: (( وَإِیَّاکَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ۔ )) 2 [’’اور ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ تکبر ہے۔ ‘‘ ] تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا اسبال ازار کو مخیلہ و تکبر قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسبال ازار ہر حال میں ممنوع اور حرام ہے۔ باقی کسی مسبل إزار کا کہنا کہ میں غرور و تکبر سے اسبال نہیں کررہا بے بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے اسبالِ ازار ہی کو غرور و تکبر قرار دیا ہے اور وہ اس غرور و تکبر کی نفی کرنے والے مسبل میں بھی موجود ہے۔

تو ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ 3اور جن کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مستثنیٰ قرار دیا ان کے علاوہ تمام اسبالِ ازار کا ارتکاب کرنے والے خواہ عادۃً اسبال کریں خواہ اتفاقا وأحیاناً سب کا اسبال (( فَإِنھا من المخیلۃ۔)) کا مصداق ہے۔ واللہ اعلم۔                                                                    ۲۲، ۴، ۱۴۲۱ھ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 1  ترمذی، ابواب اللباس، باب ماجاء فی جلود المیتۃ اذا دبغت

2  ابو داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی اسبال الازار          3  ابو داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی اسبال الازار


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 765

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ