ایک آدمی گنجاپن کا مریض ہے۔ حال ہی میں ایک جھلی تیار کی گئی ہے جو مصنوعی بال لگوا کر تیار کی جاتی ہے۔ اور اس جھلی کو مخصوص سلوشن کے ساتھ سر پر جوڑ دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک جسم کا ہر حصہ پانی سے تر نہ ہو تب تک فرض غسل نہیں ہوتا۔ کیا اس جھلی کی موجودگی میں اگر سر کی جھلی کے نیچے والی جلد خشک رہ جائے یقینا رہ جاتی ہے ۔ تو کیا غسل نہ ہوگا نیز جھلی صرف تین ماہ سر کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ اور تین ماہ کے بعد دوبارہ اس کو سلوشن کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ (محمد اسحاق صدیقی ، ضلع نارووال)
اس جھلی کی موجودگی میں نہ غسل جنابت ہوتا ہے نہ غسل حیض و نفاس اور نہ ہی وضوئ۔ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس جھلی کو بٹن کے ساتھ سر پر کَس دیا جائے اور وضوء غسل کے وقت اتار کر غسل وضوء کرلیا جائے البتہ و اصلہ و مستوصلہ پر لعنت والی احادیث 1[لعنت کی اللہ تعالیٰ نے بال ملانے والی اور ملوانے والی پر اور جو گود کردے اور جو گدوائے۔ ‘‘] کے پیش نظر تو اس جھلی ہی سے اجتناب ضروری ہے ، پھر مسئلہ پوچھنے بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ واللہ اعلم۔
[ ’’ اسمائؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبیؐ سے پوچھا کہ میری بیٹی کو حصبہ (جلدی بیماری) لگی جس سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں اور میں نے اس کی شادی کردی ہے۔ کیا میں اس میں مصنوعی بال جوڑ سکتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بال جوڑنے والی پر اور جڑوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ ‘‘ ]2 ۶، ۴، ۱۴۲۱ھ
1 صحیح بخاری، کتاب اللباس، بابُ وَصْلِ الشَّعْرِ
2 صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب الموصولۃ ، مسلم، اللباس والزینۃ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ