ایک امام مسجد اور خطیب بھی ہے۔ داڑھی کٹواتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ بعض صحابہ کرام بھی داڑھی کٹواتے تھے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔ کیا اس امام مسجد کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ (محمد علی ، بوپڑہ خورد ضلع گوجرانوالہ)
آپ جانتے ہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔ ‘‘1 ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: ’’ مجوسیوں اور مشرکوں کی مخالفت کرو۔ ‘‘ 2 اب ظاہر و واضح امر ہے کہ داڑھی منڈانا یا کٹانا خطا ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا مقام یہ نہیں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے خطا سرزد نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید میں ہے: {وَعَصَیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَآ أَرَاکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط [آل عمران:۱۵۲]} [’’ اور اپنی پسندیدہ چیز نظر آجانے کے بعد تم نے نافرمانی کی۔ ‘‘ ] صحابی رضی اللہ عنہ کا مقام یہ ہے کہ ان کی خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادی ہیں۔ {وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ ط [آل عمران:۱۵۲]} [ ’’ اور بے شک اللہ نے تمہیں معاف کردیا۔ ‘‘ ] {رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط [البیّنۃ:۸]} [ ’’ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ ‘‘ ] الآیہ اس لیے کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا قول یا عمل دین میں حجت و دلیل نہیں۔
لہٰذا داڑھی کٹانے والا انسان مستقل امام یا خطیب نہیں بن سکتا۔ ہاں کبھی کبھار نماز پڑھائے یا خطبہ دے تو اس کی اقتداء درست ہے۔ واللہ اعلم۔ ۷، ۵، ۱۴۲۱ھ