میں ایک بہت بڑی الجھن میں ہوں، وہ یہ کہ ہم جب کسی ایسے کلمہ گو مسلمان کو دعوت توحید دیں جس نے اپنا عقیدہ ظلم (شرک) کے ساتھ آلودہ کر رکھا ہو تو ان کی طرف سے اہل سنت والجماعت اہلحدیث پر "خوارج" کا الزام لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کافروں کے بارے میں نازل کی گئی آیتوں کا اطلاق کلمہ گو مسلمانوں پر کرتے ہیں، اور جب ان کو قرآن کریم کی آیات دکھائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت تو شرک کرہی نہیں سکتی۔ تو اس بات کا کیا جواب دیا جائے اور کس طرح اس قسم کے لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں-(محمد ارسلان)
اسلامی عقائد ونظریات کی دعوت دینا، توحید باری تعالیٰ کا پرچار کرنا اورشرکیہ وکفریہ اور باطل نظریات کی تردید کرنا اور شرک وبدعات میں مبتلا عوام کی اصلاح کے لیے محنت و کوشش کرنا مستحسن فعل اور انبیاء ورسل کا منہج ہے۔علماء وصلحا کو اس فریضہ سے ضرور عہدہ برآء ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ کچھ دعوت دین کے شوقین نوخیز مبلغین جو عقائد ونظریات کی تعلیمات میں راسخ نہیں ہوتے، وہ فرط جذبات میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں اور کفر وشرک کے دائرہ کارسے باہر ہی نہیں آتے، جس سے دعوت کاسلسلہ رک جاتا ہے اور عامۃ الناس ایسے مبلغین کی بات سننا ہی گوارہ نہیں کرتے۔
اس لیے ایک تو توحید کی دعوت دینے والے کو عقیدہ کے مسائل پرعبور ہونا چاہئے اور دوسرا اسلوب دعوت میں نرمی اور شائستگی ہونی چاہیے۔
عامۃ الناس میں پھیلی یہ گمراہی کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود ہی ناپید ہے، یہ نظریہ واعتقاد کتاب وسنت کی تعلیمات اور علمائے اہل السنہ کی آراء کے متصادم ہے، بلکہ کتاب وسنت کے دلائل کی رو سے سابقہ امتیں عقیدہ توحید ترک کرنے اور شرکیہ و کفریہ اعمال احاطۂ عمل میں لانے کی وجہ سے شرک وکفر کا مرتکب ہو کر درگاندہ راہ ہوئیں، ایسے ہی امت مسلمہ بھی شرک وکفر کاارتکاب کرنے سے مشرک وکافر قرار پائے گی، نیز کتاب وسنت کےدلائل میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ امت مسلمہ شرک کی مرتکب نہیں ہوسکتی۔ اس کے برعکس کتاب وسنت کے دلائل میں یہ وضاحت موجود ہے کہ امت مسلمہ شرک کی مرتکب ہوسکتی ہے۔ دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو شرک کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی غرض سے اٹھارہ انبیاء کے ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’لو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون‘‘’’اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے۔‘‘(الانعام:88)
آیت کی تفسیر
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اگر انہوں نے بالفرض شرک کیا توان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے تو ان کی امتیں کس گنتی ميں شمارہیں۔(تبیان القرآن:3/293)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:
پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں، مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اورہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔(تفسیر احسن البیان: 359)
2۔دوسرےمقام پر فرمایا:
’’وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ‘‘’’ اور بالتحقیق آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف وحی کی گئی جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر آپ نےشرک کیا تو آپ کے عمل ضرور ضائع ہوں گے اور آپ ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔‘‘(الزمر:65)
اس آیت کی تفسیر میں غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:
اس آیت میں تعریض ہے ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا توآپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے تو اگر آپ کی امت کے کسی شخص نے شرک کیا تو اس کے اعمال توبطریق اولیٰ ضائع ہو جائیں گے۔(تبیان القرآن:10/293)۔
یہ آیت دلیل ہیں کہ شرک انتہائی مہلک گناہ ہے اور امت مسلمہ کے کسی فرد سےشرک کا ارتکاب اس کے سابقہ اعمال کی تباہی کا باعث اور ہلاکت و بربادی کاشاخسانہ ہے۔
3۔ذیل کی آیت واضح نص ہے کہ اہل ایمان سے شرک کا ظہور ممکن ہے اور کامیاب وہ مسلمان ہوں گے جو شرک کی آلائش سے پاک ہوں گے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ۔‘‘وہ لوگ جو ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ ملتبس نہ کیا انہی کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام:82)
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، درج حدیث میں مزید وضاحت ہے۔
عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں :جب یہ آیت نازل ہوئی
’’الذين امنوا و لم يلبسوا ايمانهم بظلم ‘‘تو اصحاب رسولﷺ پر یہ بات شاق گزری اور انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے وہ مراد (عام ظلم) نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس(ظلم) سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو وہ اپنے بیٹے کو کر رہے تھے
’’یٰبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم‘‘’’ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (صحیح بخاری :3429،صحیح مسلم:124)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے شرک کا ارتکاب ممکن ہے اور روز قیامت وہی مسلمان کامیاب قرار پائے گا جو شرک کی نحوست سے محفوظ ہوا ہوگا اوراس آیت کے مخاطب مسلمان ہی ہیں تبھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کے نزول سے کبیدہ خاطر ہو ئے۔ اس میں ان لوگوں کے نظریہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ وہابی ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں جو کفارکےلیےنازل ہوئی ہیں، جب کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو ہی سمجھ رہےہیں۔
4۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ۔ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ۔’’پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے-اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی۔(الحج:30،31)
5۔درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ صالح مو منین کو شرک سے ممانعت کا حکم دے رہے ہیں-
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا و لا يشرك بعبادة ربه احدا‘‘’’چنانچہ جو شخص اپنےرب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو وہ نیک عمل کرے اوراپنے رب کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے-‘‘ (الکہف :110)
یہ آیت واضح دلیل ہے کہ اہل ایمان شرک کا نہ صرف ارتکاب کرتے ہیں،بلکہ دعویٰ ایمان کے باوجود نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت میں شرک موجود ہی رہتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے
’’و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون‘‘’’ اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے مگر وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔‘‘(یوسف :106)
ان کے علاوہ کئی قرآنی آیات جو اس بات کی شاہد ہیں کہ امت مسلمہ سےشرک کا ارتکاب ممکن ہے اور جیسے گزشتہ امتیں شرک وکفر کے ارتکاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئی تھیں، امت مسلمہ میں بھی شرک کا وجود ان کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگا۔
ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن میں امت مسلمہ کےشرک کے مرتکب ہونے کے دلائل ہیں۔
1۔عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ » وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ »’’ جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہو تو آگ میں داخل ہوگا اور میں(ابن مسعود) کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو اس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا تو و ہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری :1238،صحیح مسلم:92)
2۔جابر بن عبد اللہ سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوسنا، آپ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ لَقِىَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَقِيَهُ يُشْرِكُ بِهِ دَخَلَ النَّارِ »’’ جو شخص اللہ تعالی کو اس حال میں ملا کہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اللہ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ اس کے ساتھ کچھ شرک کرتا ہو گا تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم:93)
3۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا »’’ ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے شرف قبولیت بخشا جاتا ہے،چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کو عجلت میں کرلیا ہے، لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت کو اپنی امت کےلیے بطور سفارش چھپایا ہے پس وہ ان شاء اللہ میری امت میں سے ہراس شخص کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔(صحیح مسلم:199).
4۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِى الْخَلَصَةِ ». وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِى الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ »’’ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ ذو الخلصہ(بت) کے گرد دَوس قبیلہ کی عورتوں کی سرینیں حرکت کریں گی۔اور ذو الخلصہ ایک بت تھا دور جاہلیت میں قبیلہ دوس اس کی پرستش کرتا تھا۔(صحیح بخاری:7116صحیح مسلم:2906)
5۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« لاَ يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللاَّتُ وَالْعُزَّى ». فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ (هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ) أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا قَالَ « إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَيَبْقَى مَنْ لاَ خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ »’’ دن رات کا سلسلہ ختم نہ ہوگا حتیٰ کہ لات ومنات کی عبادت ہو نے لگے گی۔ اس پر میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میں سمجھتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے
’’ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ‘‘’’وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ و ہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے ،اگرچہ مشرکین اسے نا پسند کریں‘‘(التوبۃ:33)
تو یہ آیت تام ہے (یعنی امت میں دوبارہ شرک نہ ہوگا) آپ ﷺنے فرمایا:جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی یہی صورت حال ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ ایک خوش گوار ہوا بھیجیں گے تو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ فوت ہو جائے گا، پھر وہ لوگ باقی بچیں گے جن میں ذرا خیر نہ ہوگی تووہ اپنے آباء کے دین (شرک)کی طرف پلٹ جائیں گے۔(صحیح مسلم :2907)
مذکورہ احادیث واضح دلیل ہیں کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امت مسلمہ کے کئی قبائل وافراد شرک کا ارتکاب ہی کریں گے اور قرب قیامت مسلمانوں کی اولاد شرک کے ارتکاب ہی کی وجہ سے ظہور قیامت کی راہ ہموار کرے گی۔ امت مسلمہ میں شرک کا وجود عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی میں شروع ہوگیا تھااور مرور زمانہ کے ساتھ مختلف تاویلات و تحریفات کے سہارے شرکیہ عقائد مسلمانوں میں راسخ ہو تے رہے اور مذہب کی آڑمیں اس کی مسلسل ترویج ہوتی رہی، بالآخر بعض متجددین نے امت مسلمہ سے شرک کو شجر ممنوعہ قراردے دیا، لیکن وہ شرکیہ عقائد ونظریات جن کے ارتکاب سے سابقہ امتیں زوال ونامرادی کاشکار ہوئی تھیں، اگر امت مسلمہ وہی عقائد ونظریات اختیار کرے گی تویہ بھی درگاندہ راہ ٹھہرے گی۔اس کی مزید تو ضیح حالی کے ان اشعار سے ہوتی ہے۔
کرے غیر بُت کی پوجا تو کافر
جو ٹہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بحرِ سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نظریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے.
مسلمانوں کا موجودہ دوغلا پن اور شرکیہ وکفریہ اعتقادات واعمال دیکھ کر ایک ہندو شاعر پھٹ پڑتا ہے اور زبان حال سے یوں گویا ہوتا ہے۔
ایک ہی پربھوکی پوجا ہم اگر کرتے نہیں
ایک ہی در پر مگر سر آپ بھی دھرتے نہیں
اپنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہے
آپ کے سجدوں کا مرکز ’قبر‘ جو بے جان ہے
اپنے معبودوں کی گنتی ہم اگر رکھتے نہیں
آپ کے مشکل کشاؤں کو بھی گن سکتے نہیں
’’جتنے کنکر اتنے شنکر‘‘ یہ اگر مشہور ہے
ساری درگاہوں پہ سجدہ آپ کا دستور ہے
اپنے دیوی دیوتاؤں کو اگر ہے اختیار
آپ کے ولیوں کی طاقت کا نہیں حدوشمار
وقتِ مشکل ہے اگر نعرہ مرا بجرنگ بلی
آپ بھی وقتِ ضرورت نعرہ زن ہیں ’یاعلی‘
لیتا ہے اوتار پربھو جبکہ اپنے دیس میں
آپ کہتے ہیں ’’خدا ہے مصطفٰے کے بھیس میں‘‘
جس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں میں گھنٹیاں
تربتوں پر آپ کو دیکھا بجاتے تالیاں
ہم بھجن کرتے ہیں گاکر دیوتا کی خوبیاں
آپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوّالیاں
ہم چڑھاتے ہیں بتوں پر دودھ یا پانی کی دھار
آپ کو دیکھا چڑھاتے مرغ چادر، شاندار
بت کی پوجا ہم کریں، ہم کو ملے’’نارِ سقر
آپ پوجیں قبر تو کیونکر ملے جنّت میں گھر؟
آپ مشرک، ہم بھی مشرک معاملہ جب صاف ہے
جنّتی تم،دوزخی ہم، یہ کوئی انصاف ہے
مورتی پتّھر کی پوجیں گر! تو ہم بدنام ہیں
آپ’’سنگِ نقشِ پا‘‘ پوجیں تو نیکو نام ہیں
کتنا ملتا جلتا اپنا آپ سے ایمان ہے
’آپ کہتے ہیں مگر ہم کو ’’ تو بے ایمان ہے ‘
شرکیہ اعمال سے گر غیر مسلم ہم ہوئے
پھر وہی اعمال کرکے آپ کیوں مسلم ہوئے؟
ہم بھی جنّت میں رہیں گے تم اگر ہو جنّتی
ورنہ دوزخ میں ہمارے ساتھ ہوں گے آپ بھی
ہے یہ نیّر کی صدا سن لو مسلماں غور سے
اب نہ کہنا دوزخی ہم کو کسی بھی طور سے
(اوم پر کاش نیّر، لدھیانوی )
رہا اہل حدیث کو خوارج کہنا تو یہ نری جہالت اور فرقہ خوارج کےعقائد ونظریات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، خوارج اور اہل حدیث کے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اگر فرق باطلہ کے کفر وشرک اور بدعات کو طشت ازبام کرنا خوارج سے مشابہت کا سبب ہے تو فریضہ حق علما حق بیان کرتے آئے ہیں اورکرتے رہیں گے، جب کہ اندر کی بات یہ ہے کہ ان معترضین کے امام موصوف امت مسلمہ کے دیگر فرقوں کو کافرومرتد قرار دینے اور انہیں مطعون کرنے میں خاص ملکہ رکھتے اور چہار عالم میں شہرت خاص رکھتے ہیں۔ اس لیے بےتکے دلائل اور بلاوجہ مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں یہ خوارج سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔
وبالله التوفيق
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |
|