گم شدہ چیز کے لیے {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنا کیسا ہے؟
کیااَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّار صبح و شام والی حدیث ضعیف ہے؟نیز اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ والی روایت کے بارے میں بھی بتائیں؟
درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اَلَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوآ إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ}[البقرۃ:۱۵۶] [’’انہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘]اس میں مصیبۃ کا لفظ عام ہے ۔ گم شدہ شی ٔوالی مصیبۃ کو بھی شامل ہے ۔ حدیث افک میں ہے کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما قافلہ سے پیچھے رہ گئی ہیں تو انہوں نے اس موقع پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھا تھا۔1
۲:…ہاں! ((اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّار )) صبح و شام والی روایت کمزور ہے ۔ مشکاۃ /کتاب الدعوات /باب ما یقول عند الصباح والمساء والمنام میں تعلیق الألبانی میں لکھا ہے : ’’وإسنادہ ضعیفٌ‘‘ اور دوسری روایت : ((اللھم طھر قَلبیْ من النِّفاق)) کے متعلق تنقیح الرواۃ/کتاب الدعوات /باب جامع الدعاء میں لکھا ہے: ’’وإسنادہ ضعیف‘‘ ۹/۱۲/۱۴۲۳ھ