امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک بہن حضوؐر کی زوجہ تھیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی لڑکی یا بہن بیوی تھیں۔ باغ فدک کا جو مسئلہ ہے وہ سب سے پہلے اُٹھایا جاتا ہے ،میرے علم کے مطابق بطورِ تحفہ یا جزیہ کی صور ت میں آیا تھا وہ ملکیت عالم اسلام کی ہوئی ۔ کیا حضوؐر نے تحفہ کے طور پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دی تھیں ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہمالی طور پر کس قدر غریب و امیر تھے تفصیل سے بتائیں؟ اور کیا انہوں نے باغ فدک چھین لیا تھا حضوؐر کی بیٹی سے؟
۲:… امام مہدی جو کہ شیعوں کی نظر میں بارھویں امام ہیں او رہماری نظر میں بارھویں امام کی ولادت ہی نہیں ہوئی کیا امام مہدی قیامت سے پہلے آئیں گے؟
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام حبیبہ رضی اللہ عنہما ام المؤمنین اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں۔ رہا باغ فدک والا مسئلہ تو اس سلسلہ میں آپ صحیح بخاری ؍کتاب فرض الخمس میں مالک ابن اوس بن حدثان والی حدیث کا مطالعہ فرما لیں حقیقتِ حال آپ پر واضح ہو جائے گی ۔ ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔
[مالک نے کہا ایک دن میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا تھا جب دن چڑھ گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا امیر المؤمنین تجھ کو بلاتے ہیں۔ میں اس کے ساتھ روانہ ہوا ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا وہ ایک تخت پر بوریا بچھائے ایک چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، بوریے پر کوئی بچھونا نہ تھا میں نے ان کو سلام کیا اور بیٹھ گیا انہوں نے کہا: تمہاری قوم میں سے چند گھر والے ہمارے پاس آئے ہیں، میں نے ان کو کچھ تھوڑا سا دلایا ہے ، تم ان کو بانٹ دو۔ میں نے عرض کیا: امیر المؤمنین یہ کام کسی اور سے لیجئے تو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا(بھلے) آدمی لے( بانٹ دے) خیر میں انہیں کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ان کا دربان یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاصرضوان اللہ علیھم اجمعین آئے ہیں۔ آپ کی اجازت چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: آنے دو ۔ خیر وہ آئے ، انہوں نے سلام کیا ، بیٹھے ، یرفا تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر کہنے لگا علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ آئے ہیں ، انہوں نے کہا : آنے دو۔ وہ بھی آئے دونوں نے سلام کیا اور بیٹھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے : امیر المؤمنین میر ااور ان کا ( علی رضی اللہ عنہ) کا جھگڑا ہے ، فیصلہ کر دیجئے ۔ دونوں صاحب اس جائیداد کے بارے میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ نے اپنے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کو بنی نضیر کے مال میں سے دلائی تھی ۔ عثمان رضی اللہ عنہاور ان کے ساتھی کہنے لگے : ہاں امیر المؤمنین ان کا فیصلہ کرو۔ اور ہر ایک کو دوسرے سے بے فکر کرو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھہرو! دم لو میں تم سے اس اللہ کی جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ہم پیغمبروںکا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، یہ سن کر عثمان رضی اللہ عنہاور ان کے ساتھی بولے ، بے شک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔ اس وقت عمر، علی اور عباس رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف مخاطب ہو ئے ۔ کہنے لگے: اب میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے ، انہوں نے کہا: بے شک فرمایا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب میں اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت میں سے اپنے پیغمبر صلی الله علیہ وسلمکے لیے ایک خاص رعایت رکھی ہے جو اور کسی کے لیے نہیں رکھی۔ پھر سورۂ حشر کی یہ آیت پڑھی: {وَمَآ اَفَـآئَ اللّٰہُ عَلٰٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ … عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْرٌ}[الحشر:۶] تک تو یہ جائیدادیں (بنی نضیر ، خیبر ، فدک وغیرہ) خاص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تھیں۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیدادیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے نہیں رکھیں نہ خاص اپنے خرچ میں لائے بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں او رتمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں یہ جو جائیداد بچ رہی اس میں سے آپ اپنی بیبیوں کا سال بھر کا خرچہ لیا کرتے ، بعد اس کے جو باقی رہتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے( جہاد کے سلسلے میں) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے ۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم !کیا تم یہ نہیں جانتے ؟انہوں نے کہا: بے شک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی الله عنہ سے کہا : تم کو بھی اللہ کی قسم !کیا تم یہ نہیں جانتے؟( انہوں نے کہا: بے شک جانتے ہیں) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اللہ نے اپنے پیغمبر کو دنیا سے اُٹھا لیا تو ابو بکر صدیق کہنے لگے میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا جانشین ہوں اور انہوں نے یہ جائیدادیں اپنے قبضے میں رکھیں اور جو جو کام آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ان کی آمدنی سے کرتے رہے وہ کرتے رہے ، اللہ جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے ، نیک ، سیدھے راہ پر حق کے تابع تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی اُٹھا لیا ۔ میں ابو بکرکا جانشین بنا ، میں نے اپنی حکومت کے شروع شروع میں دو برس تک ان جائیدادوں کو اپنے ہی قبضے میں رکھا اور جیسا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اور ابو بکر کرتے رہے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا ، اللہ اس بات کا گواہ ہے کہ میں ان جائیدادوں کی نسبت سچا ، نیک ، سیدھی راہ پر حق کے تابع رہا ، پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے ، تم دونوں ایک تھے ، عباس تم نے یہ کہا کہ میرے بھتیجے کے مال سے میرا حصہ دلاؤ اور انہوں ( یعنی علی رضی اللہ عنہ)نے یہ کہا: میری بی بی کا حصہ اپنے باپ کے مال سے مجھ کو دو ۔ میں نے تم دونوں سے یہ کہا : دیکھو! آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں ، وہ صدقہ ہے ۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں۔ تو میں نے تم سے کہا: دیکھو ! اگر تم چاہو تو میں یہ جائیدادیں تمہارے سپرد کیے دیتا ہوں لیکن اس عہد اور اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اورابو بکر رضی اللہ عنہاپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کی ابتداء میں کرتا رہا۔ تم نے ( اس شرط کو قبول کر کے) درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دیں۔ میں نے اسی شرط پر دے دیں۔ حاضرین( یعنی حضرت عثمان اور ان کے ساتھی) کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا: بے شک اسی شرط پر تم نے دی ہیں۔پھر حضرت عمر ، علی اور عباسرضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف مخاطب ہوئے۔ کہنے لگے: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں تم کو حوالہ کی ہیںیا نہیں؟ انہوں نے کہا: بے شک ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے کہا: تو پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو؟(کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو؟)قسم اس اللہ کی جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں ، میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا انتظام دیکھ لوں گا۔‘‘]1
۲:… امام مہدی قرب قیامت تشریف لائیں گے پھر مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا ، دونوں مل کر دجال کا قلع قمع کریں گے ۔2 ان شاء اللہ تعالیٰ۔ باقی بعد والی آپ کی بات درست نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ۲۹؍۵؍۱۴۲۲ھ
رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1 صحیح بخاری؍کتاب فرض الخمس؍باب فرض الخمس۔
2 ترمذی؍ابواب الفتن؍باب ما جاء فی المھدی۔ مسلم؍کتاب الفتن و اشراط الساعۃ؍باب ذکر الدجال۔ مسلم؍کتاب الایمان؍باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام۔