1رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عمّار کو باغی گروہ قتل کرے گا ، عمّار ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہوں گے اور وہ عمّار کو جہنم کی طرف( بخاری)۔ سیدنا عمّار رضی اللہ عنہ جنگِ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل تھے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے کیا اس حدیث کی رُو سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی گروہ قرار پاتا ہے ؟ نیز حدیث کے آخری فقرے کی وضاحت فرما دیجئے۔
2…عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک مرتبہ ایک شخص نے یزید کا ذکر کرتے ہوئے امیر المؤمنین یزید کے الفاظ استعمال کیے ، تو عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سخت ناراض ہوئے ، انہوں نے فرمایا: تو یزید کو امیر المؤمنین کہتا ہے اور اُسے بیس کوڑے لگوائے کیا یہ بات صحیح ہے؟ ( تہذیب التہذیب ج:۱۱، ص:۳۶۱) بحوالہ خلافت و ملوکیت مودودی ص:۱۸۳)3…آپ فرماتے ہیں یزید پر لعنت کرنا ایسے ہی ہے جیسا کسی مسلمان پر ۔(بحوالہ احکام و مسائل جلد۱، ص:۴۸۶)
جبکہ یزید کے عہد میں تین واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے پوری دنیائے اسلام کو لرزہ بر اندام کر دیا ، پہلا واقعہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے ، دوسرا واقعہ جنگ حرّہ کا تھا ، تیسرا واقعہ مکہ پر حملہ اور خانہ کعبہ پر سنگباری جس سے کعبہ کی ایک دیوار شکستہ ہو گئی ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی لڑائی کا ارادہ کرے گا اللہ اسے جہنم کی آگ میں سیسے کی طرح پگھلا دے گا ۔ (بخاری ، مسلم) جو شخص اہل مدینہ کو ظلم سے خوف زدہ کرے گا اللہ اسے خوف زدہ کر دے گا ، اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ، قیامت کے روز اللہ اس سے کوئی چیز اس گناہ کے فدیے میں قبول نہ فرمائے گا ۔ (بحوالہ خلافت و ملوکیت ص:۱۸۲، مودودی صاحب) اس حدیث کی رُو سے تو یزید پر لعنت جائز ہے؟
4…آپ فرماتے ہیں یزید رحمۃ اللہ علیہ حدیث ’’مغفور لھم‘‘ میں شامل ہے کیونکہ اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ، مدینہ قیصر سے مراد قسطنطنیہ نہیں بلکہ حمص ہے ، چنانچہ شیخ الاسلام محمد صدر الصدور دہلی شرح بخاری میں فرماتے ہیں :’’ اور بعض علماء کی تجویز یہ ہے کہ ’’شہر قیصر‘‘ سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا کہ جس روز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی تھی اور یہ شہر ’’حمص‘‘ تھا جو اس وقت قیصر کا دار السلطنت تھا۔‘‘ واللہ اعلم (بحوالہ یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں ۔ ص:۲۷۹، عبدالرشید نعمانی) (محمد یونس شاکر )
1یہ الفاظِ حدیث صحیح بخاری کے نہیں۔ صحیح بخاری میں مدرج ہیں۔ فتح الباری میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔ پھر صحیح بخاری میں ہے رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا : ((اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمیْنَ))1 [’’میر ایہ بیٹا سردار ہے اور اُمید ہے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں یہ صلح کرادے گا۔‘‘]جس سے ثابت ہوا اس خطا کے باوجود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسلم ہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں۔ پھر جب حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرلی اور خلافت ہی ان کے حوالہ فرمادی تو یہ خطا بھی دور اور بغاوت بھی کافور ہو گئی تو اب سوال و جھگڑا کا ہے کا؟
2… یہ روایت اگر صحیح ہو تو عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ تعالیٰ کی خطا ہے کیونکہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی ماسوائے عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کے سب نے بیعت کی ہوئی تھی جن میں بہت سے صحابہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب فضائل اصحاب النبی؍باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما۔
بھی شامل تھے۔ صحیح بخاری میں ہے: ((عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا خَلَعَ أَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ یَزِْیْدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَہٗ وَوَلَدَہٗ ، فَقَالَ: إِنِّیْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم یَقُوْلُ: یُنْصَبُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ وَإِنَّا قَدْ بَایَعْنَا ھٰذَا الرَّجُلَ عَلَی بَیْعِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَإِنِّیْ لَا أَعْلَمُ غَدْرًا أَعظَمَ مِنْ أَنْ یُبَایِعَ رَجُلٌ عَلٰی بَیْعِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ، ثُمَّ یُنْصَبُ لَہُ الْقِتَالُ ، وَإِنِّیْ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِّنْکُمْ خَلَعَہٗ ، وَلَا بَایَعَ فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ إِلاَّ کَانَتِ الْفَصِیْل بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ)) (۲؍۵۳۔۱)1 [’’جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص( یزید) کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا ،میں اس سے الگ ہوں۔‘‘]
3… قرآن مجید میں ہے: {لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا}[المائدۃ:۷۸] [’’لعنت کیے گئے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا۔‘‘ ] اس آیت کریمہ کے پیش نظر اگر کوئی صاحب فرمائیں جو لوگ پہلے کافر تھے بعد میں اسلام لے آئے ان پر لعنت جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا} [المائدۃ:۷۸] ۔ آیا آپ ان صاحب کی بات کو درست قرار دیں گے ؟ نہیں1 ہر گز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا کفر معاف کر دیا ہے اس لیے ان پر لعنت جائز نہیں۔ ادھر بھی معاملہ اسی طرح ہے کیونکہ یزید ’’مغفور لھم‘‘ میں شامل ہے اس کی خطا اللہ تعالیٰ نے معاف فرما اور بخش دی ہے۔
4ــــــــــ…شیخ الاسلام محمد صدر الصدور دہلوی سے جو کچھ آپ نے نقل فرمایا اس کی دلیل درکار ہے؟ پیش فرمائیں ، نیز آپ نے میری عبارت نقل فرمائی ’’یزید رحمۃ اللہ علیہ حدیث ’’مغفور لھم‘‘ میں شامل ہے کیونکہ اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ‘‘ اس کا حوالہ پیش فرمائیں۔
[ام حرام رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری اُمت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب الفتن ؍باب اذا قال عند قوم شیئًا ثُمَّ خرج فقال بخلافۃ۔
کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی ۔ اُم حرام رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کہا : کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلا لشکر میری اُمت کا جو قیصر ( رومیوں کے بادشاہ) کے شہر ( قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی میں نے کہا: میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔]1
[روم کے اس جہاد میں فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔]2