السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بریلوی مشرکوں سے نکاح ہوجاتا ہے؟ کیا عورت کی اجازت کے بغیر نکاح درست ہے؟ اگر اجازت لینے میں صفائی نہ برتی ہو توایسے نکاح کا کیا حکم ہے؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1 ۔ قرآن مجید میں ہے:
’’وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا‘‘
’’اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ ﻻئیں،‘‘(سورۃ البقرۃ:221)
اس بناء پر سوال میں جس عورت کا ذکرہے اس کا نکاح صحیح نہیں کیونکہ مرد کو قبوری بتلایا گیا ہے جو مشرک ہے پس شرعاً عور ت کو اختیار ہے جہاں چاہے کسی دیندار شخص کو ولی مقرر کرکے نکاح کرلے۔ نیز ولی نے اگر قبل از نکاح اجازت نہیں لی تو اس وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے اور اگر قبل از نکاح اجازت لی ہو مگر صفائی نہ برتی ہوبلکہ فریب کاری سے کام لیا ہو تو اس صورت میں بھی عورت مختار ہے خواہ نکاح فسخ کرے یا قائم کرے۔
2۔ ان لڑکے لڑکیوں کا نکاح آپس میں درست ہے کیونکہ قرآن مجید میں یا حدیث میں جو رشتے حرام بتلائے گئے ہیں ان میں یہ داخل نہیں۔ قرٖآن مجید میں ہے :
’’وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ‘‘
’’اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں‘‘(سورۃ النساء:24)
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |
|