آپ صلی الله علیہ وسلم کو زہر دیا گیا ، زہر کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شہادت کی وفات نصیب ہوئی۔‘‘ جبکہ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بیماری کی حالت میں فوت ہوئے ، یہ زہر کا کیا قصہ ہے ، حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کریں۔ (فیصل صغیر ورک ، سیالکوٹ)
آپ لکھتے ہیں ’’ آپ کو زہر دیا گیا اور اسی زہر کی وجہ سے آپ کو شہادت کی وفات نصیب ہوئی‘‘ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں’’ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ آپ بیماری کی حالت میں فوت ہوئے ، یہ زہر کا قصہ کیا ہے ؟ حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کریں۔‘‘
تو محترم غور فرمائیں ان دونوں باتوں میں کوئی منافاۃ و تعارض نہیں کیونکہ زہر سے انسان کو بیماری ہی لاحق ہوتی ہے ، صحیح بخاری ؍کتاب المغازی؍باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ میں ہے : ((قَالَتْ عَائِشَۃُ کَانَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم یَقُوْلُ فِیْ مَرْضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ: یَا عَائِشَۃُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِیْ أَکَلْتُ بِخَیْبَرَ ، فَھٰذَا أَوَانُ وَجَدْتُّ اِنْقِطَاعَ أَبْھَرِیْ مِنْ ذٰلِکَ السُّمَّ))(۲؍۶۳۷) [’’عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرماتے ہیں کہ خیبر میں ( زہر آلود) لقمہ جو میں نے اپنے منہ میں رکھا تھا اس کی تکلیف آج بھی میں محسوس کرتا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری شہ رگ اس زہر کی تکلیف سے کٹ جائے گی۔‘‘]
[ایک دن زینب نے جو سلام بن مشکم کی بیوی اور مرحب کی بھاوج تھی ، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی چند صحابہ کے ساتھ دعوت کی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرط کرم سے قبول فرمایا۔ زینب نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک لقمہ کھا کر ہاتھ کھینچ لیا تھا لیکن حضرت بشر بن براء رضی اللہ عنہ نے پیٹ بھر کر کھایا اور زہر کے اثر سے بالآخر ہلاک ہو گئے ، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے زینب کو بلا کر پوچھا اس نے جرم کا اقبال کیا ۔ یہود نے کہا ہم نے اس لیے زہر دیا کہ اگر آپ پیغمبر ہیں تو زہر خود اثر نہ کرے گا اور پیغمبر نہیں ہیں تو ہم کو آپ کے ہاتھ سے نجات مل جائے گی۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے اس بناء پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے زینب سے تعرض نہیں فرمایا ، لیکن جب دو تین دن بعد حضرت بشر رضی اللہ عنہ زہر کے اثر سے انتقال کر گئے تو وہ قصاص میں قتل کر دی گئی۔[سیرت النبیؐ از علامہ شبلی نعمانی ، جلد اوّل ص:۲۹۵] ۴؍۱۲؍۱۴۲۳ھ