اب الیکشن آنے والے ہیں، کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ووٹ ڈالنے چاہئیں۔ کیونکہ ایک طرف مشرف اور امریکہ کے حواری ہیں اور دوسری طرف مذہبی دینی جماعتیں ہیں۔ اب اگر ووٹ نہ ڈالا جائے تو امریکہ کے حواری پہلے جزوی طور پر قابض ہیں، پھر کلی طور غالب ہوجائیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے۔ اس لیے ہم کو چاہیے کہ دینی جماعتوں کوووٹ دے کر آگے لائیں تاکہ وہ ملک میں دین اسلام کا قانون نافذ کریں۔ اور ملک میں امن و سلامتی قائم کریں۔ جیسے متحدہ مجلس عمل میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی شمولیت اور ووٹ کے بارے میں لائحہ عمل؟ (محمد سلیم)
رائج الوقت ووٹ کا سلسلہ قران مجید اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث سے ثابت نہیں۔ باقی کچھ لوگوں کا خیال کہ اس طرح دین والے لوگ برسراقتدار آکر ملک میں اسلام نافذ کردیں گے۔ اللہ کرے تو ووٹوں کے بغیر بھی اسلام نافذ ہوسکتاہے، مگر یہ خیال بظاہر خام ہی نظر آتاہے۔ دیکھئے الجزائر میں دین والے لوگ انتخابات میں کامیاب ہوگئے تھے، مگر بے دینوں نے اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا۔ پھر یحییٰ خان نے جو انتخابات کروائے، ان کی رو سے مجیب الرحمن کی حکومت بنتی تھی، مگر ملک کے دو لخت ہونے کو برداشت کرلیا گیا، پورے ملک کی حکومت مجیب الرحمن کو نہیں دی گئی۔ اگر دینی لوگ اور جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کیا بعید ہے کہ حکومت اور اس کے حواری اقتدار دینی جماعتوں کو نہ دیں؟ بالخصوص جبکہ امریکہ ان کی پشت پر خم ٹھونک کر کھڑا ہے؟ پھر دیکھئے انتخابات تو جب سے ملک معرض وجود میں آیا، اس وقت سے ہورہے ہیں، مگر ان سے کفار نے کبھی کوئی تکلیف محسوس نہیں کی۔ حالانکہ ہر دفعہ دین کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے والے لوگ اور جماعتیں موجود رہی ہیں، مگر جب چند معدودے مسلمانوں نے کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر اسلام کو غالب کرنے کا عزم کیا اور تھوڑی سی کوشش کی تو کفار کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ پھر غور فرمائیں، جن مسلمان ملکوں میں یہ ووٹ والا نظام رائج نہیں، کفار ان ملکوں میں اس ووٹ والے نظام کو رائج کرنے پر کیوں زور دیتے ہیں؟ اگر اس نظام سے اسلام نافذ و غالب ہوتا ہے تو کیاکفار اس نظام پر زور دے کر اسلام کو نافذ و غالب کرنا چاہتے ہیں؟ تو یہ عجیب کفار ہیں؟ کفار تو نہ ہوئے مسلمان ہوئے، پھر افغانستان کی اسلامی حکومت کو انہوں نے کیوں برداشت نہیں کیا۔ ۲۵ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ