کیا والدین کی اجازت کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے؟ (محمد عثمان ، چک چٹھہ)
مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں آیا ہے: (( اِرْجِعْ اِلَیْھِمَا فَاسْتَأْذِنْھُمَا ، فَإِنْ أَذِنَالَکَ ، فَجَاھِدْ وَإِلاَّ فَبَرَّھُمَا ))1 [ ’’ ان کی طرف لوٹ جا اور ان سے اجازت طلب کر، پس اگر وہ اجازت دیں تیرے لیے پس تو جہاد کر ورنہ ان سے حسن سلوک کر۔‘‘] تو ثابت ہوا کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہیں جاسکتا۔
[ایک شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے افضل ترین عمل کے بار ے میں سوال کیا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ نماز ہے۔‘‘اس نے پوچھا: پھر کون سا عمل؟ فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘اس نے عرض کیا: میرے والدین بھی موجود ہیں۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں تجھے و الدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا: اللہ کی قسم1 جس نے آپ کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے، میں تو ہر حال میں جہاد کروں گا اور والدین کو جہاد کی خاطر چھوڑ دوں گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ پھر تو ہی زیادہ بہتر جانتا ہے۔‘‘2
{قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo}
[التوبۃ: ۲۴]
’’اے نبیؐ1 مسلمانوں سے کہو کہ اگر تمہارے آباء و اجداد بیٹے ، بھائی ، بیویاں، رشتہ دار ، کمایا ہوا مال ، وہ تجارت جس میں نقصان کا خوف ہے اور تمہاری پسندیدہ رہائش گاہیں تمہیں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو حتی کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو راہ ہدایت پر نہیں لگاتا۔‘‘ ۱۰ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابو داؤد ؍ کتاب الجہاد ؍ باب فی الرجل یغزُو وابواہ کارہان
2 الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان؍ کتاب الصلاۃ؍ باب ذکر الخبر الدال علی أنّ الصلاۃ الفریضۃ أفضل من الجہاد الفریضۃ۔ فتح الباری نیل الاوطار۔