جہادِ کشمیر کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں، حتی کہ ہمارے اہلحدیث علماء کے درمیان بھی اس مسئلہ پر اختلاف چلا آرہا ہے کہ جہادِ کشمیر فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ کون سی جماعت قتل کرے گی اور کون سی دعوت و اصلاح کا فریضہ سرانجام دے گی؟ (محمد نوید شہزاد، جدّہ)
جہاد ہمیشہ ہی فرض عین ہے اور قیامت تک فرض عین ہی رہے گا، البتہ اس کے کئی شعبے ہیں، جنہیں حافظ ابن قیم l نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’ زاد المعاد ‘‘ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے تو جہاد کے تیرہ (۱۳)شعبہ جات میں سے کسی پر کوئی شعبہ فرض ہے تو کسی پر کوئی شعبہ۔ پھر بقدر طاقت و استطاعت کی شرط ادھر بھی ملحوظ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا }[البقرۃ:۲۸۶][ ’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ ]
تو جہاد کشمیر میں ہو ، خواہ فلسطین میں۔ بوسنیا میں ہو، خواہ فلپائن میں۔ اریٹیریا میں ہو، خواہ چیچنیا میں۔ پاکستان میں ہو، خواہ افغانستان میں۔ الغرض جہاد کہیں بھی ہو اہل اسلام پر فرض عین ہے۔
رہا ذمہ داری کا تعین تو وہ ہر مسلم نے ازخود کرنا ہے ، کیونکہ خلیفۃ المسلمین فی زمانہ موجود نہیں، لہٰذا ہر مسلم جہاد کے سلسلہ میں اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے، نیک نیتی سے اسے متعین بھی کرے اور اسے ادا بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پورے اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ ۱۳ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۲ھ
[اس خط میں جہاد کی تیرہ قسموں کا ذکر ہے اور زاد المعاد کا حوالہ ہے، لہٰذا ’’زاد المعاد ؍ الجزء الثالث ؍ فصل فی ہدیہ صلی الله علیہ وسلم فی الجہاد والمغازی والسرایا والبعوث ‘‘سے تفصیل درج ذیل ہے:
جہاد چونکہ اسلام کا ایک اعلیٰ و عظیم الشان مسئلہ ہے اور مجاہدین جنت میں بلند تر مقامات پر فائز ہوں گے اور دنیا میں بھی ان کی سربلندی ہوتی ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس سلسلہ میں ایک اعلیٰ مقام پر فائز تھے، چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جہاد کی ہر قسم میں بنفس نفیس حصہ لیا اور اللہ کی راہ میں دل و جان، دعوت و بیان، سیف و سنان، غرض ہر چیز کے ذریعہ سے جہاد فرمایا اور آپ کے تمام اوقات جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف تھے، اس لیے آپ کی شخصیت اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ قابل قدر تھی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث کرتے ہی جہاد کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:
{ فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجٰھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا ط} [الفرقان:۵۲]
’’ آپ کافروں کی اطاعت نہ کیجئے اور ان سے خوب جہاد کیجئے۔‘‘
یہ سورہ مکی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ جہاد بالبیان کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کے ساتھ جہاد کا حکم دیا کہ انہیں دلیل دی جائے یعنی جہاد بالحجہ کیا جائے، جو کفار سے جہاد کے مقابلہ میں زیادہ سخت ہے۔ یہ جہاد امت کے خواص اور وارثان رسول کا حصہ ہے۔ دنیا میں تھوڑے سے لوگ اس کو انجام دیتے ہیں اور اس راہ میں انہی کی مدد ہوتی ہے۔ ایسے لوگ تعداد میں تھوڑے ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے۔
چونکہ افضل ترین جہاد یہ ہے کہ شدید معارضت کے موقع پر حق بات کہی جائے، جیسے جابر و ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنا، جس سے ایذاء کا خطرہ بھی ہو، اس قسم کے جہاد میں انبیاء کرام کا حصہ کافی ہوتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس سلسلہ میں کامل اور اعلیٰ ترین مجاہد تھے۔ نیز اللہ کے دشمنوں کے مقابلے میں کیا جانے والا خارجی جہاد بندے کے داخلی جہاد نفس کی فرع اور شاخ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجاہد وہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اپنی ذات و نفس سے جہاد کیا۔ ‘‘ 1 تو ظاہر ہے کہ جہاد بالنفس جہاد بالعدو پر مقدم ہے۔ یہ دونوں دشمن ہیں اور بندے کو ان دونوں سے جہاد کرنے کا مکلف قرار دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا دشمن بھی سامنے کھڑا ہے۔ اس سے جہاد کیے بغیر ان دونوں کا مقابلہ کرنا بھی محال ہے، اور وہ تیسرا بندے کو ان دونوں کا مقابلہ کرنے سے باز رکھنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش میں لگارہتا ہے اور وہ دشمن شیطان ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
{ إِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ج} [فاطر:۶]
’’ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم اسے دشمن سمجھو۔‘‘
چنانچہ اسے دشمن سمجھنے کا حکم اس بات کا اشارہ ہے کہ اس سے جنگ کرنے اور مقابلہ کرنے کے لیے پوری وسعت اور ہمت سے کام لینا چاہیے۔ اس طرح یہ تین دشمن ہیں، جن سے بندے کو جنگ کرنے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ایک آزمائش ہے۔ اور بندے کو ان کے مقابلے کی قوت اور مدد بھی دی گئی ہے اور فریقین میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعہ آزمایا گیا ہے۔ اور بعض بعض کے لیے فتنہ ہیں، تاکہ ان کے حالات و معاملات کا امتحان ہوسکے، چنانچہ بندوں کو اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان، عقل اور قوت سے نوازا ہے اور ان کے لیے کتابیں نازل فرمائی ہیں اور انبیاء کرام کی بعثت کی اور اپنے فرشتوں سے نصرت فرمائی۔ دشمنوں سے جنگ کے دوران جو چیز مددگار ثابت ہوسکتی ہے ، اس سے مطلع فرمایا، اور ان کو بتایا کہ اگر اس کی اطاعت کرتے رہیں گے ، تو اپنے دشمنوں پر فتح یاب ہوتے رہیں گے۔ اگر اس کی اطاعت سے روگردانی کریں گے، تو دشمنوں کو اللہ تعالیٰ ان پر مسلط کردیںگے۔ اور ایسی صورت میں بھی مایوسی کی چنداں ضرورت نہیں ، بلکہ صبر و استقامت سے ان زخموں کا بھی مداوا کیا جاسکتا ہے، اور دشمن پر غالب ہوا جاسکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ نیکو کاروں اور پرہیزگاروں اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور وہ ذات پاک مومنین کی اس وقت مدافعت اور نصرت کرتی ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ احمد:۶؍۲۱ وسندہ جید وصححہ ابن حبان والحاکم ووافقہ الذہبی
جب وہ اپنے آپ مدافعت سے عاجز اور قاصر ہوجاتے ہیں اور ان کی نصرت اور مدافعت سے وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو دشمن انہیں تباہ و برباد کر ڈالیں گے۔
یہ مدافعت ان کے ایمان و یقین کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ایمان قوی ہوگا، تو مدافعت بھی قوی ہوگی۔ اس میں جو بھلائی پائے تو چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرے اور جو بھلائی کے علاوہ کچھ اور دیکھے تو صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے کا حق ادا کریں ، جس طرح کہ ان کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ اطاعت کریں، نافرمانی نہ کریں۔ اسے یاد کریں، فراموش نہ کریں۔ اس کا شکریہ ادا کریں، ناشکری نہ کریں۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کا یہ حق ہے کہ بندہ اپنے نفس سے جہاد کرے، تاکہ اس کا قلب، زبان اور تمام جوارح اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوجائیں، بلکہ ہمہ تن اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اور اپنی ذات کا نہ رہے۔
شیطان کے ساتھ جہاد کی صورت یہ ہے کہ اس کے وعدے کی تکذیب کی جائے۔ اس کے حکم کی نافرمانی کی جائے۔ کیونکہ وہ جھوٹی امیدیں دلاتا اور غلط تمنائیں دکھاتا ہے، محتاجی کی طرف لے جاتا ہے، اور خواہشات کی پیروی کراتا ہے۔ بے حیائی کا حکم کرتا ہے اور ہدایت و ایمانی اخلاقیات سے منع کرتاہے۔ چنانچہ ان دونوں جہادوں سے بندے کے اندر ایک قوت و ہمت پیدا ہوجائے گی، جس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ قلبی، لسانی ، مالی اور جسمانی جہاد کرسکے گا، جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہوگا۔
جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں سلف صالحین کی مختلف تعبیرات اور توضیحات وارد ہوئی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جہاد نام ہے، پوری قوت صرف کردینے کا۔ اللہ جل شانہ کے متعلق کسی طرح کی ملامت سے خائف نہ ہو۔ حضرت عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ نفس اور خواہشات کے ساتھ مقابلے کا نام جہاد ہے۔
اس لیے ان لوگوں کی رائے درست نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں آیتیں جن میں جہاد اور تقویٰ کے سلسلہ میں ’’ حق تقاتہ ‘‘ و ’’ حق جہادہ ‘‘ مذکورہ ہے ، منسوخ ہیں۔ کیونکہ بندہ ضعیف اس کا پورا پورا حق ادا نہیں کرسکتا، لیکن اس کی تردید میں کہتے ہیں کہ کما حقہ تقویٰ اور جہاد کرنے کی طاقت ہر شخص کے اندر موجود ہے۔ بندوں کے حالات کے مختلف ہونے سے بھی اس میں اختلاف ہوتا ہے۔ غور کریں کہ کس طرح اس حکم کے بعد یہ ارشاد ہوتا ہے:
{ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ج} [الحج:۷۸]
’’ اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا اور دین کے سلسلہ میں تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں رکھی۔ ‘‘
آیت میں حرج سے تنگی مراد ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے۔ 1 تو دین میں آسانی سے مراد عقیدہ توحید اور عمل میں آسانی مراد ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر دین، روزی، عفو اور مغفرت کے سلسلے میں بہت زیادہ وسعت سے کام لیا ہے اور جب تک جسم میں جان ہوتوبہ کا موقع ہے۔ ہر برائی کا کفارہ ہے۔ حرام کے بدلہ میں حلال چیز ہے۔ ہر تنگی سے پہلے اور بعد میں آسانی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ایسی تکلیف نہیں دیتا، جس کی بندوں کو طاقت نہ ہو۔
اس وضاحت کے بعد یہ جان لینا چاہیے کہ جہاد کی چار قسمیں ہیں:
(۱)نفس سے جہاد ۔(۲) شیطان سے جہاد۔(۳) کفار اور منافقین سے جہاد۔ (۴) جہاد ارباب الظلم والمنکرات و البدع۔
ایک یہ کہ ہدایت اور دین حق کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش اور نفس کو اس کی جستجو پر مجبور کیا جائے۔ دوسرے تحصیل علم کے بعد عمل کے لیے نفس پر جبر اور اس سے جہاد کرے۔ تیسرے دعوت حق میں مصروف ہونا ، ورنہ صاحب حق ان بدبختوں میں گنا جائے گا، جو اللہ کی اتاری ہوئی ہدایت کو چھپاتے ہیں۔ چوتھے دعوت کی راہ میں جو مصائب و آلام پیش آئیں، انہیں صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرنے کے لیے نفس کو آمادہ کرنا۔ جس خوش نصیب نے جہاد نفس کے یہ چاروں مرحلے کامیابی سے طے کرلیے، ربانی ہوگیا، کیونکہ سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ عالم اس وقت تک عالم ربانی نہیں بن سکتا ، جب تک حق کو نہ پہچان سکے، اس پر عمل نہ کرے اور دوسرے کو بھی نہ سکھلائے اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت نہ دے۔
پہلا درجہ یہ ہے کہ شیطان ایمان کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ اس معرکہ میں اس سے دست و گریبان ہونا۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ شیطان کی طرف سے جن فاسد ارادوں اور شہوتوں کی تلقین ہوتی ہے، ان کے رد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1أخرجہ الخطیب البغدادی فی تاریخہ:۷؍۲۰۹ من حدیث جابر وسندہ ضعیف
کرنے میں جدو جہد کرنا۔ پہلے درجہ میں کامیابی ’’ یقین ‘‘ سے حاصل ہوتی ہے اور دوسرے درجہ میں کامرانی ’’ صبر ‘‘ سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{ وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ أَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا صلے وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ }
[السجدۃ:۲۴]
’’ اور بنادیئے ہم نے ان میں سے امام جو راہ چلاتے ہمارے حکم سے، کیونکہ انہوں نے صبرو استقامت دکھائی اور یقین کرتے رہے ہماری نشانیوں پر۔‘‘
3۔ منافقین و کفار سے جہاد کے بھی چار درجے ہیں:
(۱) قلب سے۔ (۲) زبان سے۔ (۳) مال سے۔ (۴) جان سے۔ کفار کے ساتھ جہاد کو ہاتھ کے ساتھ اور منافقین کے ساتھ جہاد کو زبان کے ساتھ زیادہ تعلق ہے۔
4 ۔ ظالمین اور اہل بدعت و منکرات سے جہاد کے صرف تین درجے ہیں:
پہلا ہاتھ کے ذریعہ اگر قدرت ہو، دوسرا زبان کے ذریعہ جبکہ پہلی صورت ممکن نہ ہو، تیسرا دل کے ذریعہ جبکہ سابقہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں۔
اس طرح مجموعی طور پر جہاد کی تیرہ قسمیں ہوئیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ جو کوئی جہاد کے بغیر یا کم از کم اس کی تمنا کیے بغیر مرجائے۔ اس کی موت نفاق کے ایک حصہ پر ہوئی۔‘‘ 1
جہاد ہجرت سے مکمل ہوتا ہے اور ہجرت و جہاد دونوں ایمان کے ساتھ صحیح و مکمل ہوتے ہیں۔ جہاد کی ان تمام قسموں کی توفیق صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ، جو رحمت الٰہی کے امیدوار اور قرب باری تعالیٰ کے لیے بے قرار ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ إِنَّ الَّذِیْنَ ئَامَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ج وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o} [البقرۃ:۲۱۸]
’’ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا ، اللہ کی راہ میں، وہی اللہ کی رحمت کی امید کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
جس طرح ہر شخص پر ایمان فرض ہے، اسی طرح دو طرح کی ہجرتیں ہمہ وقت فرض ہیں۔ ایک ہجرت اللہ کی طرف
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1مسلم کتاب الجہاد؍باب ذم من مات و لم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو۔
بذریعہ اخلاص، اور دوسری ہجرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بذریعہ اتباع۔ اسی طرح نفس کے اور شیطان کے ساتھ جہاد بھی فرض عین ہے۔ کوئی بشر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں اور کوئی کسی کی نیابت نہیں کرسکتا۔ کفار و منافقین سے جہاد کبھی فرض عین ہوتا ہے اور کبھی فرض کفایہ۔ اگر ضرورت کے مطابق لوگ اس میں مشغول رہے تو باقی پر فرض نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کامل ترین انسان وہ ہے جو جہاد کی ان تمام قسموں اور مرتبوں میں کامل ترین اترے، پھر کمال کے بھی درجے ہیں۔ بعض معمولی ہیں، بعض بلند ہیں، بعض بلند تر ہیں۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو چونکہ جہاد کی ان سب قسموں میں بلند ترین درجہ حاصل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ کی نظر میں آپ تمام انسانوں سے افضل و اشرف تھے۔ آپ بعثت کے وقت سے وفات کے دن تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں پورا پورا جہاد کرتے رہے۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی:
{ یٰٓـأَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَأَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ o} [المدثر:۱ـ۴]
’’ اے چادر پوش1 اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی کر اور کپڑوں کو پاک کر۔‘‘
تو آپ صلی الله علیہ وسلم دعوت کے لیے فی الفور آمادہ اور کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونپی ہوئی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینے لگے۔ لوگوں کو دعوت حق دینے میں شب و روز خاموشی سے اور علی الاعلان مشغول ہوگئے۔ پھر جب آپ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ:
{ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ o} [الحجر:۹۴]
’’ جس چیز کا آپ کو حکم ہوا ہے، اسے کھول کر بیان کریں۔‘‘
تو اس وقت آپ علانیہ طور پر دعوت دین دینے لگے اور کسی کی ملامت وغیرہ کی پرواہ کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کا اعلان شروع کردیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑے چھوٹے، آزادو غلام ، مرد و عورت ، جن و انس ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا اور اس کے دین کی دعوت دے دی۔
کفار نے جب دیکھا کہ ان کے آبائی دین کی برملامذمت ہورہی ہے تو غیظ و غضب سے بھرگئے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور پیروان اسلام کو سخت سے سخت تکلیفیں دینے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسکین دی کہ گھبرانے اور مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ تمام انبیاء کرام کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے کہ جھٹلائے گئے اور گوناگوں مصائب میں مبتلا کیے گئے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ مَّا یُقَالُ لَکَ اِلاَّ مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ ط} [فصلت:۴۳]
’’ تمہیں بھی وہی کہا جارہا ہے جو تم سے پہلے رسولوں کو کہا جاچکا ہے۔ ‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
{ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ ط} [الأنعام:۱۱۲]
’’ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنائے ، انسان اور جن کے شیاطین سے۔‘‘
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:
{ کَذٰلِکَ مَآ أَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُوْنٌ o أَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ o} [الذاریات: ۵۲ ، ۵۳]
’’ اسی طرح جب ان سے پہلوں کے پاس رسول پہنچا تو انہوں نے اسے یا تو ساحر بتایا یا مجنون کہا، کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے، بلکہ وہ سرکش قوم ہے۔ ‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دی اور بتایا کہ گزشتہ انبیاء کرام کی زندگی میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ط}
[البقرۃ:۲۱۴]
’’ کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں (اسی طرح) داخل ہوجاؤگے، جبکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے، جو پہلے لوگوں پر گزرے تھے۔ ‘‘
ایک اور جگہ پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ الٓمٓ o أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوْٓا أَنْ یَقُولُوْائَامَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o} [العنکبوت:۱۔۲]
’’ کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔‘‘
اور فرمایا:
{ أَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ o} [العنکبوت:۱۰]
’’ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ ان آیات کا سیاق اور ان میں بیان کردہ احکام اور عبرتوں کے خزانے دیکھے ، کیونکہ جب انسان کی طرف انبیاء کرام کو مبعوث کیا گیا تو دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں۔ ایک یہ کہ کسی نے کہا ہم ایمان لائے اور کسی نے کہا ہم ایمان نہیں لائے، بلکہ وہ کفر اور برائیوں پر جم گئے۔ اب جس نے آمَنَّا کہا ( کہ ہم ایمان لائے) پروردگار نے اس کا امتحان لیا، اس کی آزمائش کی، کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنے کے لیے اسے فتنوں میں مبتلا کردیا اور جس نے کفر اور انکار کیا، وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کردے گا اور اس پر سبقت لے جائے گا۔ جو شخص رسولوں پر ایمان لائے گا، اسے دشمنوں کی طرف سے مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طرح اس کی آزمائش ہوگی، لیکن جو ان کی اطاعت نہیں کرے گا، اسے دنیا و آخرت میں سزا ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو تکلیف کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ مومن کو ابتداء میں تکلیف ہوگی، پھر دنیا و آخرت دونوں جگہ اچھا نتیجہ سامنے آئے گا، اور ایمان سے منہ پھیرنے والے کو شروع میں لذت ملے گی، پھر اسے دائمی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امام شافعی l سے دریافت کیا گیا کہ انسان کے لیے کیا بات بہتر ہے؟ وہ سطوت حاصل کرے یا ابتلاء میں رہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ تب تک اسے تسلط حاصل نہ ہوگا، جب تک کہ اس امتحان (ابتلائ) میں نہ پڑجائے۔
اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اولواالعزم انبیاء کرام کو ابتلاء میں ڈالا، آخر جب انہوں نے صبر کیا تو انہیں سطوت حاصل ہوئی۔ اس لیے کوئی بھی یہ خیال نہ کرے کہ وہ دکھوں سے ضرور ہی محفوظ رہے گا۔ مصائب اور آلام میں مبتلا لوگوں کی عقلوں میں بھی تفاوت ہے۔ سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جس نے تھوڑے سے ختم ہوجانے والے دکھ کے عوض طویل ترین اور دائمی دکھ کو بیچ دیا۔ اور سب سے بڑا بدبخت وہ ہے کہ جس نے طویل ترین اور دائمی دکھ مول لے کر تھوڑا سا ختم ہوجانے والا دکھ بیچ دیا۔
اگر یہ سوال ہو کہ انسان ایسی صورت کیوں پسند کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نقد اور ادھار کا معاملہ ہے نفس ہمیشہ سامنے کی چیز پر جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ط} [القیامۃ:۲۰ ، ۲۱]
’’ ہرگز نہیں، بلکہ تم عجلت والی چیز کو پسند کرتے ہو اور آخرت کی چیز کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ إِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ } [الدھر:۲۷]
’’ یہ لوگ فوری ملنے والی چیز کو پسند کرتے ہیں۔‘‘
ایسا ہر شخص کو پیش آتا ہے، اس لیے کہ انسان کو دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی ہے اور وہ اس سے اپنے ارادوں کی موافقت چاہتے ہیں اور جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے عذاب اور تکلیف دیتے ہیں۔ اور اگر وہ ان کی مرضی کا ساتھ دیتا ہے تو خود عذاب اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔ کبھی ان کی طرف سے کبھی دوسروں کی طرف سے، جس طرح کہ کوئی دین دار اور متقی آدمی فاسقوں اور فاجروں کے درمیان آجائے جو اس کی موافقت کے بغیر فسق و فجور نہ کرسکیں۔ اب اگر وہ موافقت کرے تو ابتداء میں ان کے شر سے محفوظ رہے گا، پھر وہ لوگ اس کے ساتھ توہین و تکلیف کا وہی معاملہ شروع کردیں گے۔ جس سے بچنے کے لیے اس نے ابتداء میں ان کی موافقت کی تھی اور اگر توہین کا یہ معاملہ وہ خود نہ کریں گے تو کوئی دوسرا ایسا کرے گا۔
اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس قول پر عمل کیا جائے، جسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا، لوگوں کو ناراض کرکے جو اللہ کو خوش کرے گا، اس کی کفایت اللہ تعالیٰ کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے گا، اسے وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ 1 دنیا کے احوال پر غور کرنے سے ان لوگوں میں اس کی بکثرت مثالیں ملیں گی، جو لوگ حکمرانوں اور اہل بدعت کی مدد ان کی سزاؤں سے بچنے کے لیے کرتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نفس کے شرور و فتن سے بچالے گا وہ شخص حرام کی موافقت نہ کرکے ان کے ظلم و ستم کو صبر و استقامت سے سہے گا اور دنیا و آخرت میں اچھے انجام سے نوازا جائے گا، جس طرح کہ علمائے کرام اور ان کے پیروکار اچھے انجام کے مستحق ہوئے۔چونکہ مصائب و آلام سے پوری طرح چھٹکارا ممکن نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تسلی دی، جنہوں نے دائمی اور بڑی تکلیف کے بدلے میں معمولی اور عارضی تکلیف کو اختیار کیا، چنانچہ ارشاد ہے:
{ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَإِنَّ أَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ }[العنکبوت:۵]
’’ جو اللہ سے ملنے کی امید رکھے تو اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے والا ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
یعنی عارضی تکلیف کا ایک وقت ہے، جو اللہ کی ملاقات سے ختم ہوجائے گا اور اس سے بندہ کو بے حساب لذت حاصل ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اس ملاقات کی انتہائی قوی امید دلائی ہے، تاکہ اس کے شوق میں بندہ یہاں کی تکلیف کو برداشت کرلے، بلکہ بعض لوگوں کو تو اس کا اشتیاق اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ تکلیف کا احساس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ترمذی؍ أبواب الزھدو اسنادہ صحیحٌ۔ وأخرجہ ابن حبان وسندہ صحیح أیضاً۔
نہیں کرپاتے۔
اسی وجہ سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات کے شوق کا سوال کیا۔ 1اور یہ شوق و ذوق بڑی نعمتوں میں سے ہے، لیکن اس نعمت کے لیے بطور سبب کچھ اقوال و اعمال ہیں، جن سے اس نعمت کا حصول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اقوال کو سنتا اور اعمال کو جانتا ہے۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نعمت کا اہل کون ہے؟ چنانچہ ارشاد ہے:
{ وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ ط} [الأنعام:۵۳]
’’ اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمایا۔‘‘
لہٰذا جب بندہ سے کوئی نعمت فوت ہوجائے تو اسے اپنے لیے یہ آیت پڑھنا چاہیے:
{ أَلَیْسَ اللّٰہُ بِأَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ } [الأنعام:۵۳]
’’ کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جانتا نہیں۔ ‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایک دوسری تسلی یہ دی کہ : ’’ اللہ کی راہ میں ان کا جہاد ان کے لیے ہے ، ورنہ اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ [العنکبوت:۶ ] اس طرح جہاد کا فائدہ خود بندوں کو حاصل ہوتا ہے ، پھر بتایا کہ اس جہاد کی وجہ سے ان کو صالحین کی جماعت میں شامل کرے گا۔ مزید اس شخص کا حال بتایا جو بغیر بصیرت کے ایمان میں داخل ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص لوگوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکلیف کو اللہ کے اس عذاب کی طرح سمجھتا ہے ، جس سے بچنے کے لیے مومن ایمان لاتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے لوگوں کی مدد کرتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ: ’’ میں تو تمہارے ہی ساتھ ہوں، حالانکہ اس کے سینہ میں نفاق چھپا ہوا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔‘‘ [العنکبوت: ۱۰] ۱۳ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۲ھ