مولانا آپ کے شاگرد رشید جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب نے لکھا ہے کہ بچہ کے کان میں اذان اور تکبیر کہنے والی حدیث ضعیف ہے کیا واقعی ایسا ہے اور اگر ایسا ہے تو بچہ کے کان میں اذان اور تکبیر نہ کہی جائے تو کیا کوئی حرج ہے کہ نہیں؟ (قاری محمد یعقوب)
مشکاۃ میں ہے: ((قال : رأیْت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم أذن فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ(رواہ الترمذی، و أبو داؤد، وقال الترمذی،ھذا حدیث حسن صحیح؍باب العقیقۃ، الفصل الثانی))) 4
[’’ابو رافع سے ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کے کانمیں نماز والی اذان کہی جب فاطمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں جنا۔‘‘]
اس کی سند میں عاصم بن عبید اللہ بن عاصم بن عمر بن خطاب نامی ایک راوی ہیں جنہیں ضعیف گردانا جاتا ہے مگر صحیح و درست بات یہ ہے کہ ان کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ان کے متعلق اہل علم اور اہل فن کے اقوال سے واضح ہوتا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
4 ابو داؤد؍کتاب الأدب ؍باب فی المولود یؤذن فی اذنہ۔ ترمذی؍ابواب الاضاحی؍باب الأذان فی اذن المولود