سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(668) عقیقہ فرض ہے کہ سنت؟

  • 5035
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2086

سوال

(668) عقیقہ فرض ہے کہ سنت؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا عقیقہ ساتویں دن دینا سُنت ہے اور جس مسلمان کو طاقت نہیں ، کیا جب اس کو طاقت ہو اُس وقت  دے سکتا ہے اور وہ عقیقہ ہو جائے گا۔

           نمبر ۲۔ اور کیا بندہ عقیقہ گائے دے سکتا ہے اور عقیقہ گائے کا ہو جائے گا کہ نہیں اور… نمبر ۳۔عقیقہ فرض ہے کہ سنت ہے مولانا تفصیل سے جواب دیں۔          (قاری محمد یعقوب گجر )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الف)رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمکا فرمان ہے: ((اَلْغُلَامُ مُرْتَھَنٌ بِعَقِیْقَتِہٖ یُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ السَّابِعِ وَیُسَمّٰی وَیُحْلَقُ))2[’’بچہ اپنے عقیقہ کی وجہ سے گروی رہتا ہے اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کے سر کے بال مونڈے جائیں۔‘‘ ] اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ ہی ہو گا کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ’’مرتہن‘‘ گروی رکھا ہوا کے لفظ استعمال فرمائے تو جو حال وقت مقرر پر قرض نہ ادا کرنے کی صورت میں بعد میں قرض ادا کر کے گروی رکھی ہوئی چیز واپس لینے کا ہے وہی حال ساتویں دن کے بعد عقیقہ کرنے کا ہے۔ تو عقیقہ ساتویں دن کرنا فرض ہے ، ساتویں دن طاقت نہ ہونے کی صورت میں بعد ازاں بوقتِ طاقت عقیقہ کر لے تو عقیقہ ہی ہو گا۔

ب۔ گائے اور اونٹ کا عقیقہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں جو روایت اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہے وہ کمزور ہے۔ رہا عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرناتو یہ قیاس نص کے مقابلہ میں ہے اور معلوم ہے کہ نص کے ہوتے ہوئے نص کے مقابلہ میں قیاس درست نہیں ہوتا نص مندرجہ ذیل ہے: ((عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ)) 3 (رواہ النسائی) [’’لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک۔‘‘]

ج۔ عقیقہ فرض ہے ایک دلیل تو پہلے گزر چکی ہے: ((اَلْغُلَامُ مُرْتَھَنٌ بِعَقِیْقَتِہٖ)) دوسری دلیل صحیح بخاری

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2 ابو داؤد؍کتاب الضحایا؍باب فی العقیقۃ۔ نسائی؍کتاب العقیقۃ؍باب متی یعق۔ ابن ماجہ؍کتاب الذبائح؍باب العقیقۃ۔ ترمذی؍ابوب الاضاحی۔ باب۲۰۔

3 ابو داؤد؍کتاب الضحایا؍باب العقیقۃ۔ نسائی؍کتاب العقیقۃ۔ کم یعق عن الجاریۃ۔ ابن ماجہ؍کتاب الذبائح؍باب العقیقۃ۔ ترمذی؍ابواب الاضاحی؍باب فی العقیقۃ۔

میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَعَ الْغُلَامِ عَقِیْقَۃٌ ، فَأَھْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمًا ، وَأَمِیْطُوْا عَنْہُ الْأَذٰی))1  [’’ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے تم اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے تکلیف دہ چیزوں کو دور کر و۔‘‘ ] اور تیسری دلیل نمبر ۲ میں بیان شدہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قول : ((عن الغلام شاتان)) ان دلائل کو وجوب سے ندب کی طرف پھیرنے والا کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں۔ عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی حدیث میں لفظ ’’ فأحب أن ینسک عنہ‘‘ قرینہ صارفہ نہیں کیونکہ فرض بھی محبوب بلکہ احب ہوتا ہے۔ واللہ اعلم                 ۹؍۸؍۱۴۲۳ھ

1 بخاری؍کتاب العقیقۃ؍باب اماطۃ الأذی عن الصبی۔ ترمذی؍ابواب الاضاحی؍باب فی العقیقۃ۔

 

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 659

محدث فتویٰ

تبصرے