ایک عورت ہے خاوند سے پندرہ سال سے باغی ہے اور اس کے والدین کو بیس سال گزر چکے ہیں کہ فوت ہو چکے ہیں ۔ عورت کو پانچ ایکڑ زمین ورثہ میں ملی ہے اور عورت والدین کے گاؤں اور ان کے مکان میں رہائش پذیر ہے ۔ دو بچیاں اور دو لڑکے ہیں ۔ سب جوان ہیں وہ بھی عورت کے پاس ہیں ،عورت خاوند کو کہتی ہے ہمارے پاس آئیں لڑکیوں کی شادی کریں اور لڑکوں کی بھی۔ اور خاوند کہتا ہے کہ تم میرے پاس آ جاؤ میں سب کی شادی کر دیتا ہوں اور رشتہ داروں نے بھی بہت دفعہ اس عورت کو سمجھایا کہ تیرا خاوند ٹھیک کہتا ہے اس کی اولاد ہے ان کی زندگی کیوں خراب کر رہی ہو؟ لیکن اولاد بھی اپنی ماں کا ہی کہنا مانتی ہے اور دو تین دفعہ اولاد اور ماں نے خاوند کے قتل کا پروگرام بنایا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و کرم سے بچایا ہے ۔ خاوند توحید پرست ہے عورت اور اولاد مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بہت بڑے مشرک ہیں ۔ قران و احادیث سے اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں کہ کیا خاوند کی جائیداد کے وہ لڑکیاں اور لڑکے یا عورت وارث ہو سکتے ہیں اگر باپ اولاد کا حق کسی اپنے بھتیجے کو کچھ دے دے اور اولاد و بیوی کو جائیدادسے محروم کر دے تو مجرم ہے یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاo} [النسائ:۷] [’’ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی ، خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘ ] ایک مقام پر ہے: {فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ} [النسائ:۱۱][ ’’یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔‘‘ ] پھر اللہ تعالیٰ میراث و ترکہ کی تقسیم تفصیل سے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ}[النسائ:۱۴][ ’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے ۔‘‘ ] پھر سورۂ نساء کے آخر میں فرمایا : {یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ أَنْ تَضِلُّوْا}[النسائ:۱۷۶] [’’ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ وضاحت اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو۔‘‘] اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ}[النسائ:۱۱][’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکوں کے برابرہے۔ ‘‘ ] پھر ارشادِ گرامی ہے : {وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ}[النسائ:۱۱] [ ’’ اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے ۔ اگر اس (میت)کی اولاد ہو۔‘‘ ] پھر ارشادِ گرامی ہے: {فَـإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ أَوْدَیْنٍ}[النسائ:۱۲][’’اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘ ] اور معلوم ہے فرض چھوڑنا جرم ہی ہے۔ رہا میاں بیوی کی باہمی چپقلش والا معاملہ تو اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: {وَالصُّلْحُ خَیْرٌ}[صلح بہت بہتر ہے۔[النسائ:۱۲۸]] نیز فرماتے ہیں: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ أَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ أَھْلِھَا}[النسائ:۳۵] [ ’’اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں سے اور ایک عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرادے گا یقینا اللہ تعالیٰ پورے علم والا پوری خبر والا ہے۔ ‘‘ ] واللہ اعلم۔