سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(646) مُفتیانِ دین اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

  • 5013
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1298

سوال

(646) مُفتیانِ دین اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مُفتیانِ دین اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟(کلالہ کی وراثت)

نمبر ۱:… نظام دین ولد سُندھی و فضل دین ولد سُندھی دو بھائی تھے۔ نظام دین ، فضل دین سے پہلے فوت ہو جاتا ہے۔ نظام دین کی وراثت اس کے بیٹوں میراں بخش و علم دین میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

نمبر ۲:… فضل دین ولد سُندھی کلالہ ہے۔ اس کی نسل موجود نہیں۔ اس کی بیوی بھی موجود نہیں۔ اس کی جائیداد ۳۴ کنال اراضی ہے؟

نمبر۳:… فضل دین ولد سُندھی جب فوت ہوتا ہے ، اس وقت بھائی ، بہن ، ماں ، باپ ، دادا ، دادی زندہ نہیں ہوتے۔ ایک عصبہ زندہ ہوتا ہے ۔ خیر دین اور بھائی کی نسل زندہ ہوتی ہے۔ میراں بخش ، علم دین۔

نمبر ۴:… کلالہ فضل دین کی اراضی ۳۴ کنال میں عصبہ خیر دین کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ اور بھائی کی اولاد میراں بخش و علم دین کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ شریعت کی رُو سے مسئلہ حل کریں۔

سب سے پہلے وارث نسل ہوتی ہے۔ کلالہ فضل دین کی اپنی نسل موجود نہیں۔دوسرے نمبر پر اصل وارث ہوتی ہے۔ کلالہ فضل کی اصل موجود نہیں۔(دادا، دادی، ماں ، باپ ، بھائی ، بہن )تیسرے نمبر پر اصل کی نسل وارث ہوتی ہے۔ اصل کی نسل میں دادا کا بیٹا خیر دین زندہ ہے۔ اصل کی نسل میں بھائی کے بیٹے ، میراں بخش ، علم دین زندہ ہیں۔

نمبر ۱:… اگر کلالہ فضل دین کا بھائی اور بہن زندہ ہوتے تو کلالہ کی جائیداد میں سے بھائی کو دو حصے ملتے اور بہن کو ایک حصہ ملتا۔

نمبر ۲:… اگر کلالہ فضل دین کی بہن زندہ ہوتی ، بھائی زندہ نہ ہوتا تو بہن کلالہ کی جائیداد میں نصف کی وارث ہوتی۔ باقی نصف کلالہ کے عصبہ کو مل جاتا۔

نمبر۳:… اگر کلالہ فضل دین کا عصبہ زندہ نہ ہوتا تو تمام جائیداد کی وارث کلالہ کی بہن ہوتی۔

نمبر۴:… اگر کلالہ فضل دین کی بہن زندہ نہ ہوتی ، اس وقت عصبہ موجود ہوتا تو عصبہ اپنے حصے سے محروم ہو جاتا۔

نمبر۵:… کیا عصبہ کے ہوتے ہوئے کلالہ کا بھتیجا حصے سے محروم ہو جاتا ہے یا کلالہ کی جائیداد میں دونوں عصبہ اور بھتیجا برابر کے وارث بنتے ہیں؟ یا کلالہ کی جائیداد کا وارث صرف عصبہ بنتا ہے؟          (نذیراں بی بی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ساری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ فضل دین ولد سندھی متوفی کا ترکہ ۳۴ کنال اراضی اس کے رشتہ داروں دو بھتیجوں میراں بخش اور علم دین اور ایک چچا خیر دین میں کیسے تقسیم ہو گا؟

تو گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : {وَأُولُوا الْأَرْحَامِ بَعْضُھُمْ أَوْلیٰ بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ} [الأنفال:۸؍۷۵][’’اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں۔‘‘ ] نیز رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا ، فَمَا بَقِیَ فَھُوَ لِاَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ )) (صحیح بخاری)1 [’’حق داروں کو ان کے مقرر شدہ حصے ادا کردو اور جو بچ جائے وہ (میت کے)قریب ترین مرد (رشتہ دار)کا حصہ ہے۔‘‘] اب ظاہر ہے کہ فضل دین کے دونوں بھتیجے اس کے چچا سے اولیٰ و أقرب ہیں اس لیے فضل دین کا ترکہ ان دونوں بھتیجوں میں تقسیم ہو گا اور چچا محجوب ہو گا لہٰذا فضل دین کے ترکہ ۳۴ کنال اراضی سے اس کے دیون و وصایا۔ اگر ہوں تو … ادا کرنے کے بعد باقی اس کے دونوں بھتیجوں میں نصف و نصفی تقسیم ہو گا۔

پہلے حصے میں جواب طلب سوال نمبر ۴ ہے جس کا جواب اوپر بیان ہو چکا ہے ، دوسرے حصے میں جواب طلب سوال نمبر ۳ ہے جس کا جواب اوپر بیان ہو چکا ہے۔ تیسرے حصہ میں سوال نمبر ۱ ، نمبر ۲ اور نمبر ۳ تو محض فرضی ہیں صورتِ مسئولہ میں یہ چیزیں موجود ہی نہیں اور نمبر ۴ ویسے ہی خطا ہے اور نمبر ۵ میں بھتیجوں کو فضل دین کا عصبہ نہ بنانا خطا ہے عصبات میں یہ اصول ہے کہ اقرب کی موجودگی میں ابعد اور اولیٰ کی موجودگی میں غیر اولیٰ محجوب ہوتا ہے جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے۔ واللہ اعلم

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 641

محدث فتویٰ

تبصرے