گزارش ہے کہ میرے دادا جان کے دو بھائی تھے ۔ اللہ دتہ اور اُن سے چھوٹا ابراہیم میرے داد جان اللہ دتہ کے چار بیٹے اور بیٹیاں بھی ہوئیں جبکہ محمد ابراہیم کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ میرے دادا کے بھائی محمد ابراہیم نے اپنی جائیداد میں سے کچھ اپنی بیوی کے نام کر دی۔ محمد ابراہیم کی فوتگی کے کافی سال بعد ان کی بیوی بھی وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے میکے والوں کا پتہ کروایا گیا لیکن کوئی نہ ملا۔ بعد ازاں اخبار میں اشتہار شائع کروایا گیا۔ پھر بھی کوئی نہ پہنچا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ میرے ایک تایا زاد اس زمین پر قابض ہیں جبکہ ان کے تین چچاؤں کی اولادیں بھی موجود ہیں۔ تایا زاد مذکور زمین مقبوضہ پر کوئی بات چیت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
کتاب و سنت کی روشنی میں اس بات کی وضاحت درکار ہے کہ کیا دوسرے تمام چچازاد اس زمین میں برابر کے حقوق رکھتے ہوئے حصہ لینے کے مجاز ہیں یا کہ نہیں؟ اگر وہ حصہ لینے کے حق دار ٹھہرتے ہیں تو شرعی طور پر تقسیم جائیداد کیسے ہو گی؟ (امۃ الرقیب بنت حاجی محمد بشیر)
صورتِ مسئولہ میں محمد ابراہیم کی بیوی کی زمین اس بیوی کے وارثوں کو ملے گی ۔ محمد ابراہیم کے بھتیجے اور بھتیجیاں محمد ابراہیم کی بیوی کے وارثوں میں نہیں ہیں۔ ۳؍۱۲؍۱۴۲۲ھ