سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(639) ایک عورت جس کی اولاد ایک بیٹی ہے جائیداد کی تقسیم کے وقت..الخ

  • 5006
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1403

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت جس کی اولاد ایک بیٹی ہے جائیداد کی تقسیم کے وقت اس عورت نے اپنی بہن کی اولاد جو کہ چار بیٹیوں پر مشتمل ہے ۔ اُن کو بھی اس جائیداد میں برابر کا حصہ دار بنایا اور ان کے نام اپنی جائیداد ہبہ کی۔

اس واقعہ کو سات سال گزر چکے ہیں۔ اب وہ عورت اپنی بہن کی بیٹیوں سے ہبہ کی ہوئی جائیداد واپس لینا چاہتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کیا وہ عورت یہ ہبہ واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ اس ہبہ کرنے والی عورت کے تایا کے دو لڑکے بھی حیات ہیں اور اس کی پھوپھی مع اولاد زندہ ہے۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

کتاب و سنت کے موافق ہبہ میں صرف والد اپنی اولاد کو ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے ۔ والد کے علاوہ کوئی بھی کسی کو ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتا ۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ یُّعْطِیَ الْعَطِیَّۃَ ثُمَّ یَرْجِعَ فِیْھَا إِلاَّ الْوَالِدَ فِیْمَا یُعْطِیْ وَلَدَہٗ )) (رواہ احمد والأربعۃ، وصححہ الترمذی ، و ابن حبان والحاکم )1 [’کسی مسلم مرد کے لیے حلال نہیں کہ عطیہ دے کر واپس لے سوائے والد کے کہ وہ اپنی اولاد کو دیے گئے عطیہ کو واپس لے سکتا ہے۔‘‘]صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمفرماتے ہیں :  (( لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْئِ الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ھِبَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَقِیْئُ ، ثُمَّ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہِ )) 2  [’’ہمارے لیے اس سے بری مثال اور کوئی نہیں کہ جو شخص اپنے ہبہ کو دے کرواپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مانند ہے جو خود ہی قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کو کھا جاتا ہے ۔‘‘]

کتاب و سنت کے مخالف ہبہ میں ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینا ضروری ہے کیونکہ کتاب و سنت کی مخالفت معصیت و گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ}[النسائ:۱۴][ ’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے آگے نکلے اسے و ہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ ] صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے :  (( عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ أَنَّ أَبَاہُ أَتٰی بِہٖ رَسُوْلَ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم ، فَقَالَ : إِنِّیْ نَحََلْتُ1 اِبْنِیْ ھٰذَا غُلَامًا کَانَ لِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم : أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَہٗ مِثْلَ ھٰذَ؟ فَقَالَ : لَا : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم: فَاَرْجِعْہُ ))  [’’ سیدنا نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آپ کے باپ آپ کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو غلام عطیہ دیا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو واپس لے لے۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔‘‘]

صورتِ مسئولہ والا ہبہ کتاب و سنت کے مخالف ہے کیونکہ قران مجید میں ہے : {لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 ابو داؤد؍کتاب الھبۃ؍باب الرجوع فی الھبۃ۔ نسائی؍کتاب الھبۃ؍باب رجوع الوالد فیما یعطی ولدہ۔ ترمذی؍ابواب الولاء والھبۃ؍باب ما جاء فی کراھیۃ الرجوع فی البھۃ

2 بخاری؍کتاب الھبۃ وفضلھا والتحرض علیہا؍باب لا یحل لأحد ان یرجع فی ھبتۃ وصد قتہ

3صحیح بخاری؍کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیہا؍ باب الاشھاد فی الھبۃ

نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاo}[النسائ:۷][ ’’ماں باپ اور اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘ ] اور کتاب و سنت کی رو سے صورت مذکورہ میں ہبہ کرنے والی عورت کی جائیداد میں سے اس کی وفات کے بعد نصف


اس کی بیٹی کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ} [النسائ:۱۱] [ ’ اور اگر ایک ہی لڑکی ہے تو اس کے لیے آدھا ہے۔‘‘ ] اور نصف
 اس کی بہن کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لَیْسَ لَـہٗ وَلَدٌ وَّلَـہٗ أُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ}[النسائ:۱۷۶] [’’اور اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہواور ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے۔‘‘ ] جبکہ صورت مسئولہ میں بذریعہ ہبہ بہن کو بالکل ہی محروم کر دیا گیا ہے اور بیٹی کے نصف
کو پانچواں حصہ دے کر کم کر دیا گیا ہے حالانکہ قرآن مجید کی رو سے بہن اور بیٹی کے حصے ’’نصیب مفروض ‘‘ فرض ہیں۔ ہاں یہ عورت اپنی جائیداد کے تیسرے حصے یا اس سے بھی کم حصے کو اپنی بھانجیوںکو ہبہ کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث  (( لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ )) اور حدیث سعد بن ابی وقاص (( قَالَ نَعْم وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ )) سے ثابت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم                                                                   ۲۶؍۳؍۱۴۲۴ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 532

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ