سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(638) ہمارے والدِ محترم نے ایک رہائشی پلاٹ جو کہ ان کی کل جائیداد تھی

  • 5005
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1639

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے والدِ محترم نے ایک رہائشی پلاٹ جو کہ ان کی کل جائیداد تھی اپنی زندگی میں ہماری والدہ کے نام ہبہ کر دیا تھا ، والد صاحب کی وفات کے بعد ہم چار بھائیوں نے اپنی کمائی سے اس پلاٹ پر مکان تعمیر کیا ۔ ہم چھ (۶)بہن بھائی تھے چار بھائی اور دو بہنیں ہماری بڑی بہن و الدہ محترمہ کی زندگی میں ہی وفات پا گئی تھی۔ اب ہماری والدہ محترمہ بھی وفات پا گئی ہیں ۔ لہٰذا ان کی متروکہ جائیداد کے بارے میں معلومات درکار ہیں کہ:

          ۱:… کیا صرف خالی پلاٹ جو کہ والد کی طرف سے والدہ صاحبہ کو ملا تھا وہی ترکہ شمار ہو گا یا مکمل تعمیر شدہ مکان جب کہ تعمیر میں صرف ہم بھائیوں نے  شرکت کی ہے؟

          ۲:… ہماری وہ بہن جو کہ والدہ صاحبہ سے پہلے فوت ہو چکی ہیں کیا وہ بھی وارث ہوں گی یعنی ان کا حصہ ان کی اولاد کو ملے گا یا نہیں؟

          ۳:… ورثاء میں ترکہ کی تقسیم کا ر کا طریقہ کیا ہو گا؟   (ابو عبداللہ ، کویت )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

اگر سوال صحیح اور نفس الأمر کے مطابق ہے اور تمام بہن بھائی والد محترم کے خالی پلاٹ ، جو ان کی کل جائیداد تھی ، والدہ محترمہ کے نام ہبہ کرنے پر راضی اور خوش ہیں تو :

۱:… صرف خالی پلاٹ ہی والدہ محترمہ کا ترکہ شمار ہو گاکیونکہ ان کی ملکیت صرف خالی پلاٹ ہے اس پر جو عمارت کھڑی کی گئی ہے وہ ان کی ملکیت ہی نہیں۔ وہ تو صرف اور صرف چار بھائیوں کی مشترکہ ملکیت ہے جن کا مال اس پر صرف ہوا ہے۔

ہاں اگر بھائیوں نے بھی عمارت اپنی والدہ محترمہ کو ہبہ کر دی ہوئی ہے تو پھر مکمل تعمیر شدہ مکان پلاٹ سمیت والدہ محترمہ کا ترکہ شمار ہو گا۔

۲:… نہیں1 والدہ محترمہ سے پہلے فوت ہونے والی آپ کی بہن وارث نہیں ہو گی۔ ہاں ان کی اولاد کے حق میں آپ کی والدہ صاحبہ وصیت کر گئی ہیں تو وصیت نافذ ہو گی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ} [النسائ:۱۱][ ’’ وصیت کے بعد ‘‘  ] نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ}  [البقرۃ: ۱۸۰] [ ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘]ہاں وارث کے حق میں وصیت نہیں ۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ )) 1 [’’وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘] پھر ثلث


 سے زائد کی بھی وصیت درست اور جائز نہیں۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ )) 2 [ اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثاء کے حصے مقرر کر دیے ہیں)پس اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ ایسے رشتہ داروں کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہِ خیر میں خرچ کرنے کے لیے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ثلث
ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔]اگر فوت ہو نے والے وصیت نہیں کر گئے تو وارث صلاح مشورہ کر کے ان کے اس فریضہ کو ادا کریں ورنہ ترک فرض والا بوجھ ان کے ذمہ رہے گا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیں۔

۳:… آپ کی والدہ محترمہ کے وارث اگر چار بیٹے اور ایک بیٹی ہی ہیں اور ان کا کوئی وارث نہیں مثلاً والد یا والدہ تو آپ کی والدہ محترمہ کے ترکہ کے کل نو حصے کیے جائیں


حصہ ان کی بیٹی کو اور
 ان کے ہر بیٹے کو دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ} [النسائ:۱۱][’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ ]واللہ اعلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری؍کتاب الوصایا؍لاوصیۃلوارث باب نمبر۶۔ سنن ترمذی۔ ابن ماجہ ؍کتاب الوصایا ؍باب لاوصیۃ لوارث

2صحیح بخاری؍کتاب الفرائض؍باب میراث البنات

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 531

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ