عرض یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی اپنے ہوش و حواس میں اپنی جائیداد کی تقسیم کر دی ، بچے جو کہ ابھی چھوٹے ہیں بڑی بیٹی پانچ سال کی اور چھوٹا بیٹا عبدالباسط ،اس سے چھوٹا عبدالوہاب ، جو میری طاقت میں تھا میں نے ان کے نام کر دیا ۔ اور اپنی حصہ داری سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ مال یا جائیداد جس سے منافع ہو رہا ہو تو وہ ان ہی کا ہے۔
کیونکہ بچے چھوٹے ہیں جب وہ بالغ ہو ں گے اور بالغ ہونے کی صورت میں فرض اور واجب عائد ہوتا ہے ۔ یعنی زکوٰۃ وغیرہ جو بھی دینی ہو گی بالغ ہونے کے بعد دیں گے۔ آیا یہ مسئلہ صحیح ہے یا میں ان کی ملکیت کی زکوٰۃ دوں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ان کا پیسہ کام میں لے لوں ، ایسا ہو سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں مہربانی ہوگی۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے ۔ (ابو عبدالباسط ، سکھر)
انسان اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر سکتا ہے لیکن اولاد کا حصہ برابر برابر ہو گا۔ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ} [النسائ:۴۔۱۱][’’ایک لڑکے کاحصہ دو لڑکوں کے برابر ہے۔‘‘] والا اُصول اس صورت میں نہیں۔ وہ صرف وفات کے بعد جائیداد تقسیم کی صورت میں ہے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے۔ [سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آپ کے باپ آپ کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو غلام عطیہ دیا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو اس سے بھی واپس لے لے۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ ]
بچے چونکہ چھوٹے ہیں اس لیے ان کے مال میں آپ معروف طریقے سے تصرف کر سکتے ہیں۔ ان کے مال میں زکوٰۃ بھی ہے ، وہ آپ ان کے مال سے اد ا کریں گے اور اس کا حساب رکھیں گے جیسے آمد و خرچ کا حساب رکھتے ہیں۔