سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) کیا مرزائی ، رافضی اورچکڑالوی کافر ہیں؟

  • 500
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 3951

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ، مرزائیہ، چکڑالویہ، رافضیہ بلا تفضیلیہ وغیرہ وغیرہ فرقے یہ قطعی کافر ہیں یا نہیں۔؟ نماز میں ان کی اقتداء اوران سے سلام ومصافحہ کرنا روا ہے یا نہیں۔؟ ان کی ورثہ مسلم کو یا مسلم کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں؟ اور مسلم عورت کوان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر مسلمان عورت کا خاوند ان فرقوں میں داخل ہو جائے، مذہب اہل سنت والجماعت بدل لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بلا طلاق وہ دوسری جگہ نکاح لے سکتی ہے یا نہیں؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ان فرقوں کے گمراہ، زندیق، ملحد، بدعتی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ البتہ کافر ہونے میں تفصیل ہے۔

مرزائیہ، چکڑالویہ تو بے شک کافر ہیں۔ معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ بھی تقریباً ایسے ہی ہیں، لیکن صاف کافر کہنا ذرا مشکل ہے۔ رافضیہ میں سے غالی قطعاً کافر ہیں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ وغيرهم كو مرتد کہتے ہیں اور زیدیہ کافر نہیں ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت خطا نہیں ہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ساکت ہیں نہ اچھا کہتے ہیں نہ برا۔

اگر ان فرقوں کی اور ان کے علاوہ باقی فرقوں کی تفصیل مطلوب ہو تو کتاب الملل والنحل ابن حزم اور شہرستانی وغیرہ کا مطالعہ کریں اور نواب صدیق حسن خان مرحوم کا بھی ایک رسالہ خبیئۃ الاکوان اس بارہ میں ہے وہ بھی اچھا ہے۔ رہا ان لوگوں سے میل ملاپ تو یہ بالکل ناجائز ہے۔

ابن کثیر جلد دوم ص201 میں مسند احمد وغیرہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جانے والوں کو دیکھو تو ان سے بچو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے ناطہ رشتہ وغیرہ کرنا یا ویسے میل ملاپ رکھنا یا نماز میں امام بنانا اس قسم کا تعلق کوئی بھی جائز نہیں۔ بلکہ جو ان میں سے کافر ہیں اگر اتفاقی طور پر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے یا غلطی سے ان کے ساتھ نکاح کا تعلق ہو گیا ہو تو نماز بھی صحیح نہیں اور نکاح بھی صحیح نہیں۔ نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اگر نکاح پڑھا ہوا ہو اور بعد میں ایسی بدعت کے مرتکب ہوئے جو کفر کی حد تک پہنچ گئی تو نکاح خود بخود فسخ ہو جاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

’’وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا‘‘(سورۃ البقرۃ:221)

’’اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ لائیں،‘‘

اور دوسری جگہ ہے :

’’وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‌ ‘‘

’’اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو‘‘

یعنی کافر عورتوں کے ساتھ نکاح مت رکھو۔ اگر اسی حالت میں مرجائیں مسلمان ان کے وارث نہیں اور یہ مسلمانوں کے وارث نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

 

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص1 

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ