الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!جی ہاں! ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بیہقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے. (سنن بيھقى (2/ 210 ). اور دعا كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعا ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعا ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں... اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو. 2: قنوت نازلہ کی طرح قنوت الوتر کو بھی جہری وتر کی نماز جہری ہونے کی وجہ سے جہرا پڑھا جائے گا۔ 3: اگر ہاں تو پھر کیا دعائے قنوت کے لیے جو واحد کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، ان کو جمع میں بدلا جاسکتا ہے؟ بعض اہل علم واحد کے صیغہ کی جمع کے صیغہ کے ساتھ تبدیلی کے قائل ہیں جبکہ بعض دوسرے قائل نہیں ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر تو مقتدی نے امام کی دعا پر آمین کہنا ہو تو پھر امام جمع کو صیغہ استعمال کرے۔ اور اگر سری دعا ہو تو پھر امام واحد کا صیغہ استعمال کرے جیسا کہ احادیث میں استعمال ہوا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
|