کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین بابت مندرجہ ذیل مسائل کے:
اس سے پیشتر کہ مطلوبہ سوالات پیش کیے جائیں مناسب ہو گا کہ جس کمپنی سے یہ سوالات متعلقہ ہیں اس کا مختصر تعارف بھی کرا دیا جائے اور اس کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کر دیا جائے۔ سو اس کمپنی کا نام ’’ علیہ السلام رضی الله عنہرضوان اللہ علیھم اجمعین رضوان اللہ علیھم اجمعین سوالرضوان اللہ علیھم اجمعین صلی الله علیہ وسلمسوال صلی الله علیہ وسلم‘‘ (گولڈن کی انٹرنیشنل) ہے یہ اپنی مصنوعات کی تشہیر اور فروخت دوسری کمپنیوں کی طرح میڈیا وغیرہ و دیگر ایجنٹوں و ہول سیل و ریٹیل ڈیلرز سے نہیں کرتی بلکہ ڈائریکٹ یعنی بلا واسطہ اشیاء کے استعمال کنندگان سے رابطہ کر کے انہیں اپنی مصنوعات( اشیائ) کی افادیت اور ان کی مارکیٹنگ یعنی مزید ایسے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ جو لوگ تھوڑے سے سرمایہ کے ساتھ باوقار اور حلال روز گار کے متلاشی بھی ہیں اور انہیں ان اشیاء کی ضرورت بھی ہے لہٰذا جو شخص ان کی اشیاء کی افادیت اور ان کی اشیاء کی مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو سمجھ جاتا ہے تو پھر وہ اس کمپنی کی مصنوعات میں سے کوئی سی رقم کی مصنوعات خرید لیتاہے تو کمپنی اس کو اپنا ایک ممبر بنا لیتی ہے اور اس کو اپنے ایک ایجنٹ و ایڈور ٹائزر کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ اب یہ شخص مثلاً ’’الف‘‘ اپنے نیچے کے ایک اور ’’ ب‘‘ نامی خریدار کو لے آتا ہے کمپنی الف کو بلا واسطہ خریدار بنانے پر کچھ کمیشن دیتی ہے اور ’’ب‘‘ نامی شخض ’’ ج‘‘ نامی شخص کو خریدار بناتا ہے اس طرح ’ج‘… ’’دال‘‘ کو خریدار بناتا ہے گویا کہ الف کے نیچے جتنے بھی خریدار بنتے چلے جائیں گے وہ ’’الف‘‘ نامی شخص کی ڈاؤن لائن میں کہلائیں گے۔ ان سب کو ان کی محنت پر بلا واسطہ اور بالواسطہ خریدار بنانے پر کمپنی کمیشن دیتی رہے گی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ الف نامی شخض ’’ب ‘‘ کو خریدار (ممبر) بنا کر بیٹھ رہے اور اس کو بغیر مزید کام و محنت کیے کمیشن ملتا رہے بلکہ ’’الف‘‘ کو مسلسل اپنی ڈاؤن لائن کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے تب ہی اس کو اپنی ڈاؤن لائن سے کمیشن ملے گی اسی طرح ’’ب‘‘ کو اور ’’ج‘‘ اور ’’د‘‘ کو غرضیکہ ہر ایک کو اپنی ڈاؤن لائن کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے تب ہی وہ کمیشن لے پاتے ہیں اگر کام نہیں کریں گے تو کمپنی کی مصنوعات کے خریدار بھی پیدا نہیں ہوں گے تو پھر کمپنی کہاں سے کمیشن دے گی۔ کمپنی تو اس کا مال فروخت ہونے پر ہی کمیشن دے سکتی ہے۔ کمپنی اس ممبر کو ترقی دے کر سپر وائزر سے مینجر اور مینجر سے ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بناتی ہے جو کمپنی کی زیادہ سے زیادہ پراڈکٹس ( مصنوعات) فروخت کرواتا ہے۔ اسی طرح ان ممبروں کے عہدوں کے ساتھ ساتھ کمیشن بھی بڑھتا جاتاہے ۔ کمپنی کی مصنوعات میں سے کوئی چیز بھی حرام شے سے تیار نہیں ہے بلکہ سب حلال و طیب اشیاء میں سے ہیں۔ اس مختصر تعارف کے بعد مندرجہ ذیل سوالات پیش خدمت ہیں اُمید ہے قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائی جا وے گی:
(۱)… کوئی شخص اگر بلا تحقیق کسی مسلم یا غیر مسلم (حالات حرب کے علاوہ) کے خلاف کوئی سنی سنائی بات یا پروپیگنڈہ کرتا ہے تو شریعت اسلامیہ میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
(۲)… مندرجہ بالا حالات و واقعات کے پیش نظر کمپنی متذکرہ بالا کے ساتھ کاروبار کرنا قرآن و سنت کی روشنی میں کیسا ہے؟
(۳)…کمپنی کے ساتھ مندرجہ بالا طریقہ کار کے تحت کاروبار کر کے کمپنی سے متذکرہ بالا کمیشن لینا شرعی حیثیت میں کیسا ہے؟
(۴)…اگر کسی مومن نے کسی فرد ، تنظیم یا ادارہ کے خلاف کوئی غلط خبر بلا تصدیق و تحقیق عوام الناس میں کسی ذریعہ سے پھیلا دی ہو تو کیا اس مومن بھائی کو چاہیے کہ وہ صحیح بات کا علم ہونے کے بعد اپنی اس غلطی کے ازالہ کے لیے وہی ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنی اس پہلی غلط خبر کی تردید کرے اور متاثرہ فرد ، تنظیم یا ادارہ سے معافی مانگے ؟ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کیا اس شخص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اللہ تعالیٰ کی زمین پر فساد پھیلانے والوں میں شمار ہو گا یا اصلاح کرنے والو ں میں ؟
(۵)…کیا دین اسلام میں ایسی ہی اشیاء کا مہنگا فروخت کرنا یا ان کو مہنگی فروخت کرنے کی غرض سے صلی الله علیہ وسلم رضی الله عنہ علیہ السلام(ذخیرہ اندوزی)کرنا جو انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے( مثلاً روز مرہ کی خوراک سے متعلقہ اشیاء اور ایک انسان کے لباس سے متعلقہ کپڑا وغیرہ) ممنوع و حرام ہے یا ا ن کے علاوہ بھی دیگر اشیاء جن کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے اور اچھے طریقہ سے گزر اوقات کر سکتا ہے ان اشیاء کا مہنگا فروخت کرنا بھی ممنوع و حرام ہے ؟ کیا ہر انسان کے لیے یہ ضرور ی ہے کہ وہ اپنے لباس کے لیے ایسا مہنگا کپڑا خریدے جو اس کی قوتِ خرید سے باہر ہے جبکہ وہ اس مہنگے کپڑے کی بجائے سستا کپڑا لے کر بھی گزارہ کر سکتا ہے اور اسی طرح مہنگے پھلوں مثلاً سیب وغیرہ کی بجائے وہ شخص کسی حد تک وہی فائدہ گاجر اور شلجم وغیرہ سے حاصل کر سکتا ہے ( جو سستے داموں دستیاب ہو جاتے ہیں) تو کیاایسی اشیاء کا بھی مہنگا فروخت کرنا ممنوع و حرام ہے۔۔
حلفاً تصدیق کی جاتی ہے کہ مندرجہ بالا تحریر و سوالات سائل کے حد علم و یقین میں صحیح و درست ہیں اور ان کی صحت کا خود ذمہ دار ہے۔ (راؤعبید الرحمن خاں، سابق ڈپٹی سٹیبلشمنٹ کمشنر)
جس کمپنی کے متعلق آپ نے ایک سوالنامہ ارسال فرمایا اس کمپنی اور اس نوع کی دیگر کمپنیوں کا کاروبار ناجائز اور حرام ہے جناب اس کی تفصیل چاہتے ہیں تو مجلۃالدعوۃ جلد۱۳، رجب۱۴۲۳ھ ، شمارہ ۹ میں شائع شدہ مضمون’’لوٹ کھسوٹ کی سکیمیں اور کمپنیاں‘‘ کا مطالعہ فرما لیں۔ ۲۹/۷/۱۴۲۳ھ
قارئین کرام! کچھ عرصہ قبل انعامی بانڈز اور ان کی پرچیوں کا ملک میں بڑا شہرہ ہوا۔ لوگوں کو اس کاروبار میں اس قدر چسکا نظر آیا کہ نہ صرف غریب مزدور اپنی تمام پونجی اس کاروبار کی نذر کرنے لگے بلکہ اچھے بھلے کاروبار کرنے والوں نے بھی یہی کاروبار اپنالیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کپڑے ، میڈیسن ، جنرل سٹورز اور ہوٹل وغیرہ انعامی بانڈز کی دکانوں میں بدل گئے اور ہر بازار میں آدھی دکانیں یہی نظر آنے لگیں یہ کاروبار اگرچہ اب بھی جاری ہے لیکن حکومت کی طرف سے کچھ نوٹس لینے پر اب کافی کمی آ چکی ہے۔ اس کے عروج پر حالت یہ ہو گئی تھی کہ ۴۲ ارب کے بانڈز ڈیلرز کے پاس تھے اور حکومت اس قدر یرغمال ہو گئی تھی کہ کم از کم پرچی کے کاروبار کی بد عنوانیاں اور لوٹ کھسوٹ روکنے سے بھی قاصر ہوگئی تھی اور عوام کی ایک بڑی رقم محض بانڈوں کے بے کاروبے مصرف کاروبار میں بلاک ہو گئی تھی۔ معاشرے کے لیے اصل فائدہ مند کاروبار کارخانے اور صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئے ،سود اور جوئے وغیرہ کے کاروبار میں ہوتا ہی یہ ہے کہ معاشرے کاایک کثیر سرمایہ بے کار کام کی نذر ہو جاتا ہے اور لوگ محنت کر کے اور اس معاشرے کے لیے مفید چیزیں بنا کر پیسہ کمانے کی بجائے بیٹھے بٹھائے ہی کھانا چاہتے ہیں جس سے ملک کی اصل ترقی رُ ک جاتی ہے ۔ اس میں چند لوگوں کی تو چاندی ہو جاتی ہے ، چند لوگ سرمایہ دار بن جاتے ہیں اور باقی اپنی قسمت کو روتے پیٹتے رہتے ہیں ۔ انعامی بانڈز کی ان سکیموں میں ابھی کچھ کمی ہوئی تھی کہ یہ صیاد لوگوں کی رقوم بے کار کاموں میں لگانے کے لیے نئی سکیموں کا جال لے کر آ گئے۔
تین ماہ قبل دولت مند بننے کی ایک ایسی ہی شارٹ کٹ سکیم کا علم ہوا تو ہم نے اس سکیم کے پس پردہ مسلم نوجوانوں کو لوٹنے کھسوٹنے کے مقاصد کو بھانپ کر فوری طور پرمجلہ الدعوۃ میں قارئین کو عموماًاور وابستگان کتاب و سنت کو خصوصاً اس شیطانی دھوکے سے خبردار کر دیا۔ اس سلسلے میں جماعت کے بہت سے جید علماء نے بھی اس سکیم کی مذمت کی جن کی ناپسندیدگی اور مذمت کے بارے میں بھی ہم نے آگاہ کر دیا ۔ ہمارا خیال تھا کہ اتنا کچھ اس سکیم کے سدِ باب کے لیے کافی رہے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے حالات بنتے گئے کہ جن کی وجہ سے علماء کی آراء کی روشنی میں اس سکیم کا تفصیلی جائزہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک طرف بہت سے احباب اور درد مندانِ ملت و جماعت کا اصرار تھا کہ اس سکیم کا مفصل و مدلل جائزہ پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو اس طرف جانے سے مکمل شرح صدر کے ساتھ روکا جا سکے ، دوسری طرف یہ معتبر اطلاعات تھیں کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس سکیم میں شامل ہو رہی ہے اور ان کی تعداد تیس ہزار سے متجاوز ہو رہی ہے ، اسی اثناء میں یہ بھی معلوم ہوا کہ آج کل ملک میں صرف یہی ایک سکیم نہیں بلکہ اس سے ملتی جلتی کتنی ہی سودی و قماری سکیمیں خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیل چکی ہیں اور ڈائن کی طرح ملک کے نوجوانوں کا مال و خون چوس رہی ہیں۔ کہیں تو کوئی سکیم بغیر کوئی چیز فروخت کیے محض پیسوں کے ادل بدل سے چند ہزار لگا کر لاکھوں روپے حاصل کرنے کا لالچ دیتی ہیں ، کہیں علماء کے براہِ راست فتوے سے بچنے کے لیے چند اشیاء کی سیل کا جھانسہ بھی درمیان میں رکھ دیا گیا ہے اور وہ بھی بہت مہنگی لیکن باقی سارا طریقہ اور مقصد تقریبا وہی ہے ، یعنی معمولی پیسے لگا کر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنا۔ اگر اشیاء فروخت کرنا ان کا مقصد ہوتا تو یہ تجارت کے معروف شفاف طریقے اختیار کرتے لیکن چونکہ ان کا اصل مقصد یہ نہیں تھا بلکہ اصل مقصد ہیر پھیر کا وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے چند سو یا چند ہزار روپے لاکھوں کروڑوں میں بدل جائیں ، اس لیے ان سکیموں میں اشیاء کی فروخت کا وجود یا عدم وجود تو ہو سکتا ہے لیکن تمام سکیموں میں تھوڑی ہیر پھیر کے ساتھ مارکیٹنگ کا وہ گورکھ اور پیچیدہ طریقہ لازمی اور مشترک ہے کہ جس کے بغیر کمپنی اور ممبران اپنے اصل مقصد یعنی معمولی رقم اور برائے نام محنت سے بے پناہ دولت کے مالک نہیں بن سکتے۔ چنانچہ انہی سب وجوہات کی بناء پر ان سکیموں کا ہم مفصل و مدلل جائزہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
ان کمپنیوں میں سے ایک ورلڈ ٹریڈنگ نیٹ ہے جس میں صرف ۳۰۵۰ روپے جمع کروا کر ممبر کو بالآخر بارہ لاکھ مل جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی چیز بیچنا نہیں پڑتی۔ صرف رقم کا لوگو ں میں ہیر پھیر ہے۔ اس کی تفصیل آگے علماء کے شرعی جائزہ میں آ جائے گی ۔ دوسری سکیم بزناس( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلم) کے نام سے انٹر نیٹ پر کچھ پیکج دے کر ممبر سازی کرتی ہے جس کے نتیجے میں اصل رقم سے کافی زائد رقم کا لالچ دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل بھی علماء کے شرعی جائزے میں ملاحظہ فرمائیں۔
تیسری کمپنی گولڈن کی انٹرنیشنل ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اسی سکیم سے تعارف حاصل ہوا۔ اس کے جس ممبر نے ہمیں تعارف کرایا وہ بڑا ہی خوبصورت ریلنگ والا ڈبہ اور ایک چمکتی دمکتی فائل لیے کھڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ اس کمپنی کی طرف سے ایک خاص قسم کا فوڈ سپلیمنٹ ہے جو ایک سفوف کی صورت میں ڈبے میں موجود ہے۔ یہ کمپنی سے ۱۹ ہزار روپے میں ملتا ہے۔ موصوف نے کہا کہ آپ بھی کمپنی جا کر اسے خریدیں تو نہ صرف اس سے آپ کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہو گا بلکہ اس طرح آپ کمپنی کے ممبر بن کر ایسے کاروبار میں شریک ہو جائیں گے کہ آپ تھوڑے ہی عرصے میں معمولی وقت لگا کر لاکھوں حاصل کر لیں گے۔ یہ سب سن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ہم نے جب سوال کیا کہ یہ آخر کون سی بیماریوں کا علاج ہے تو فرمایا کہ یہ شوگر ، بلڈ پریشر ، ہیپا ٹائٹس ، دل اور کینسر سمیت بہت سی بیماریوں کا علاج ہے اور کئی لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ ہم نے کہا: اگر کمپنی نے اتنی بڑی ایجاد کی ہے پھر تو اسے اخبارات میں فوراً اشتہار دینا چاہیے۔ اس سے تو طب و سائنس کے میدان میں ہلچل مچ جائے گی اور جو منافع کمپنی نے لمبے عرصے کے بعد حاصل کرنا ہے ، وہ اخبارات میں اشتہاردے کر بہت تھوڑے عرصے میں حاصل کر لے گی۔ اس پر موصوف کبھی تو جواب دیتے کہ کمپنی دراصل غریب عوام کی بھی بھلائی چاہتی ہے کہ نہ صرف انہیں صحت ملے بلکہ ہمارے مخصوص طریقہ کاروبار میں شامل ہو کر ایسا کاروبار بھی ملے کہ جس میں انہیں اپنی اصل رقم سے بھی کئی گنا زیادہ رقم واپس مل جائے۔ اور کبھی وہ کمپنی کی اشیاء اور طریقہ کاروبار پر ہمارے سوالات و اعتراضات پر کہتے کہ دراصل ہم آپ کو قائل نہیں کر سکتے۔ کمپنی کے دفتر میں نئے لوگوں کے لیے روزانہ لیکچر ہوتا ہے آپ وہاں ایک دفعہ آئیں۔ آپ کو ہر بات کلئیر ہو جائے گی۔
بعد کی ملاقاتوں میں آخر یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ انہیں دراصل زیادہ اعتراضات کا جواب نہ دینے کی ہی کمپنی سے ہدایت ہے کہ آپ خود قائل نہیں کر سکتے ۔ لوگوں کو کلاس میں لے کر آئیں۔بس اتنا ہی کافی ہے ۔ ہم حیران تھے کہ یہ خود بھی لیکچر سن چکے ہیں تو پھر اس لیکچر کا خلاصہ ہمیں یہیں کیوں نہیں بتا دیتے۔ بہر حال چار و ناچار حقیقت پانے کے لیے کمپنی ممبر کے ذریعے لاہور میں کمپنی کے دفتر پہنچے جو گلبرگ میں دو کنال کے قریب عالی شان کوٹھی میں قائم ہے۔ وہاں ہم یہ دیکھ کر حیران تھے کہ مخلوط ماحول اور فیشن ایبل نوجوانوں کے ساتھ بڑی بڑی داڑھیوں والے بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ کلاس میں جانے سے پہلے یہ بھی ہدایت تھی کہ بند جوتیوں یعنی بوٹ وغیرہ کے بغیر داخلہ ممکن نہیں۔ معلوم ہوا یہ پابندی پہلے نہ تھی ابھی کچھ دنوں سے لگی ہے۔ شاید کمپنی والوں کو ڈر تھا کہ داڑھی والے عام سی جوتیوں میں کہیں کمپنی کے ماڈرن ازم کے تاثر کو خراب نہ کر دیں اور اس کی ویلیو ڈاؤن نہ ہو جائے۔ کلاس میں جوں ہی داخل ہوئے تو چھوٹا سا ہال زبردست موسیقی سے تھرا رہا تھا۔ لیکچر میں پہلے ایک ڈائریکٹر صاحب نے کمپنی کی اشیاء یعنی رضی الله عنہجواب رضی اللہ عنہماسوالsکی منفرد انقلابی و طبی خصوصیات بتائیں۔ دوسرے لیکچر میں کمپنی کی مارکیٹنگ کا طریقہ سمجھایا گیا ۔ یہ طریقہ جسے ملٹی لیول مارکیٹنگ سسٹم کہتے ہیں ، اس قدر پیچیدہ اور گنجلک تھا کہ خود کمپنی کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ تو اس لیکچر کی بہت کم لوگوں کو پوری سمجھ آتی ہے چنانچہ کم پڑھے لکھے سادہ لوگ تو کیا ، اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس کو فوری نہیں سمجھ پاتے ، جبکہ دینی علم پڑھے ہوئے لوگ بھی چکرا کر رہ جاتے ہیں اور کوئی بھی اس سکیم کے جائز و ناجائز کا فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اب ہمیں بھی سمجھ آئی کہ ہمارے واقف ممبر ہمیں کیوں ہمارے سوالوں کے جواب دینے سے گریزاں تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ ابتداء میں عام ممبر کسی کو سمجھا کر قائل نہیں کر سکتا اور پھر کمپنی کی ہدایت تھی کہ آپ ایسے لوگو ں پر زیادہ وقت بھی ضائع نہ کریں جو زیادہ اعتراضات کریں۔ کلاس میں بھی صرف انہی لوگوں کو لائیں جو اس میں ’’مثبت‘‘ دلچسپی رکھتے ہوں ۔ اس پر اس قدر سختی ہے کہ لیکچر کے دوران ایک شخص کو تھوڑی سی اونگھ آ گئی تو اسے بھی دلچسپی نہ رکھنے والا مشکوک آدمی سمجھ کر نکال دیا گیا۔
لیکچر کے دوران بھی وقفے وقفے سے موسیقی جاری رہی ، یہ سب کچھ ہمیں برداشت کرنا پڑا۔ درمیان میں ہم نے سوال کرنے کی کوشش کی تو کہا گیا کہ سوال آخر میں کیجئے گا۔ لیکن آخر آتے ہی سوالوں کا موقع دیے بغیر کلاس ختم کر دی گئی۔
لیکچر میں بتایا گیا کہ اشیاء کی مارکیٹنگ کا یہ طریقہ ۶۲ سال پہلے امریکہ کے ہاورڈ بزنس سکول نے دوسری جنگ عظیم کے بعد متعارف کروایا۔ اس وقت امریکہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ اس سسٹم کی وجہ سے آج امریکہ امریکہ بنا ہوا ہے ۔ یہ اس کی معاشی و اقتصادی مضبوطی کا راز ہے۔بہت سے مغربی ملکوں میں کامیاب کاروبار کے بعد اب یہ سسٹم پاکستان آیا ہے جسے گولڈن کی انٹرنیشنل کے صدر جناب جاوید مجید نے دو سال قبل متعارف کروایا۔
انہوں نے یہ سسٹم تھائی لینڈ میں اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران سیکھا۔ کراچی ، حیدر آباد سے ہوتا ہو ااب یہ لاہور آیا ہے اور جلدہی ملتان ، فیصل آباد اور ملک کے دوسرے اہم شہروں میں بھی کمپنی کی برانچز کھلنے والی ہیں۔ کمپنی کا ماٹو صحت اور معاشی خوشحَالی یعنی رضوان اللہ علیھم اجمعین صلی الله علیہ وسلم !سوال صلی الله علیہ وسلم رضی الله عنہ رضوان اللہ علیھم اجمعین صلی الله علیہ وسلمlسوال رکھا گیا ہے۔ بہت سے لوگ سٹی بینک اور ایسے بڑے بڑے اداروں کی اعلیٰ ترین پوسٹیں چھوڑ کر یہی کاروبار کر رہے ہیں۔
کمپنی کے لٹریچر اور لیکچردونوں سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں جائز ذرائع سے کمانے کے طریقے بہت کم ہیں اور وہ صرف دو ہیں : (۱)…ملازمت ،(۲)… کاروبار۔
ملازمت میں اہلیت ، تعلیم ، تجربہ اور وقت کی پابندی لازمی ہوتی ہے ۔ تنخواہ بھی محدودسی ہوتی ہے چاہے محنت کم ہو یا زیادہ کاروبار میں سرمایہ ، تجربہ اور وقت توبیش بہا دینا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ اس سسٹم میں نہ تجربے کی ضرورت ہے ، نہ زیادہ تعلیم کی ، سرمایہ اور اہلیت کی اور نہ ہی بہت زیادہ وقت دینا پڑتا ہے ، بس معمولی سرمایہ اور معمولی وقت دے کر آپ اپنے سب خواب پورے کر سکتے ہیں ۔اس میں نوکری ، کاروبار کی طرح کوئی رسک بھی نہیں۔ کمپنی میں کوئی کسی کا باس نہیں ، سپر وائزر ، مینجر ، ڈائریکٹر وغیرہ کے عہدے محض اعزازی ہیں۔(ویسے حال ہی میں گولڈن کی والوں نے اخبارات میں اپنے ایک اعزازی ڈائریکٹر برہان بصری کو کمپنی کے مفاد کے منافی سرگرمیوں کی بناء پر برطرف کرنے کا اشتہار دیا۔ (ڈان ۱۱ /اگست ۲۰۰۲ئ) حیرانگی ہے کہ کمپنی میں جب کوئی باس نہیں تو انہیں کس نے برطرف کر دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زیادہ سرمایہ جمع کرلینے والوں کو یا کمپنی کے اصل حقائق تک رسائی پا جانے والوں کو کمپنی فوراً اپنے کاروبار سے الگ کر دیتی ہے۔ اس طرح تو کسی کے سرمائے اور منافع کی کوئی گارنٹی نہیں رہتی۔ ویسے کمپنی آئے دن اپنے دفاتر کی جگہ بھی بدلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے اور ایسی کمپنیاں کئی بار پیسے لے کر بھاگ چکی ہیں۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں یہ مضمون تیار ہونے تک گولڈن کی انٹر نیشنل کے ملتے جلتے طریقے پر کام کرنے والی انٹر نیٹ کی کمپنی بزناس کو حکومت نے غیر قانونی قرار دیا ہے اور اس کے نمائندے غائب ہو گئے ہیں۔ ڈان۳۰/۸/۲۰۰۲ئ)
اب سوال یہ ہے کہ جب یہ نوکری بھی نہیں کاروبار بھی نہیں، تو پھر آخر کیا ہے؟ ہم ایسے کتنے سوالات کا جواب چاہتے تھے اور پھر خاص طور پر انہوں نے مارکیٹنگ کا جو طریقہ بیان کیا ( جس کا ذکر آگے علماء کی آراء میں آئے گا) اس پر تو کتنے ہی سوالات جواب طلب تھے لیکن وہ سب تشنہ ہی رہے ۔ کلاس ختم کر د ی گئی۔
بعد ازاں ہم ان کے سر گرم ممبران سے بھی رابطہ کرتے رہے لیکن کوئی بھی ہم سے زیادہ بات کرنے کو تیار نہ تھا کیونکہ اس سے انہیں اپنے کاروبار کے وقت کا ضیاع محسوس ہوتا اور یہ بھی ڈر کہ بحث سے کوئی کمزور بات ہمارے ہاتھ نہ آ جائے ۔ایسے بندوں کے بارے کمپنی سے چونکہ پہلے ہی ہدایت ہے کہ آپ دلچسپی نہ لینے والوں پر یا معترضین پر قیمتی وقت ضائع نہ کریں ، اس پر سب ہی عموماً سختی سے عمل کرتے ہیں ۔ یہ ہدایت صرف گولڈن کی والوں کی طرف سے نہیں بلکہ ہر دوسری سکیموں کی طرف سے بھی اپنے ممبران کو یہی بات سختی سے بتائی گئی ہے۔ مثلاً ورلڈ ٹریڈنگ نیٹ ورک نامی سکیم کے کوپن میں بتایا گیا ہے:
‘‘آپ کوپن ہمیشہ ان لوگوں کو ہی دیں جو اس میں خود دلچسپی لیں اور اس کو آگے چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ آپ ہر گز ہر گز یہ کوپن کسی بھی شخص کو زبردستی نہ دیں‘‘
پھر ’’گولڈن کی ‘‘ کے لیکچر میں اور دوسری سکیموں میں بھی یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ زیادہ مخیر لوگوں کے پاس نہ جائیں۔ انہیں چونکہ دولت کی زیادہ ضرورت نہیں اس لیے وہ بھی اعتراض کر کے وقت ضائع کریں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس جائیں جو غریب یا متوسط ہوں البتہ کمپنی کی ڈیمانڈ کی حد تک رقم رکھتے ہوں اور اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہوں تاکہ آسانی سے کمپنی کو اپنی ساری جمع پونجی حوالے کر سکیں۔
صورتحال یہاں تک ہے کہ ماڈل ٹاؤن دفتر کے مسئول بھائی محمد رمضان نے ایک دفعہ کلاس میں ان کا لیکچر ٹیپ کرنے کی کوشش کی تاکہ علماء کو بطورِ ثبوت براہِ راست کمپنی کے ذمہ دار کی زبانی کمپنی کا طریقہ پیش کر کے ان کی رائے لی جا سکے تو کمپنی والوں نے ان کو پکڑ لیا اور ان سے کہا کہ وہ کیسٹ ہمیں دے دیں ورنہ ہم ٹیپ بھی واپس نہیں کریں گے ۔ کمپنی کے کافی لوگ جمع ہو گئے اور بالآخر انہیں دھمکیاں دے کر اور زدو کوب کر کے ان سے کیسٹ لے لی۔ مقصد یہ ہے کہ کسی کو کمپنی کے کام کی تفصیلات پورے ثبوت کے ساتھ نہ مل سکیں ۔ یہ اپنے کاروبار کی مکمل تفصیلات تحریری صورت میں بھی پیش نہیں کرتے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک تو علماء کو پوری حقیقت کاپتہ نہ چل سکے اور دوسرے ضرورت پڑنے پر وہ کسی ممبر کے ساتھ جو چاہے سلوک کر یں اور جو چاہے قانون بنا کر پیش کر دیں۔
ایسے ایک ممبر سے ہماری ملاقات ہوئی جو ایک بڑے غیر ملکی ادارے سے فارغ ہیں تو انہوں نے ہمارے سامنے اقرار کیا کہ یہ سکیم سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے لیکن انہوں نے اپنا نام مخفی رکھنے کی استدعا کی کہ ایسا نہ ہو کہ گھر والے کہیں تمہارے پاس تو رقم ہی نہیں تھی تو تم نے یہ ۲۵۰۰ روپے کہاں سے لے کر کہاں جا کر خرچ کر دیے ان صاحب کے پاس ایک کین اوپنر یعنی ڈبے کا ڈھکن کاٹنے والا آلہ تھا اور کچھ شیمپو تھے۔ وہ خود بتا رہے تھے کہ ان کی مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی خاص طورپر کین اوپنر کی جو انہوں نے کمپنی سے ۱۳۰۰ / روپے میں خریدا تھا۔ حالانکہ اگر ضرورت بھی ہو تو بازار سے سادہ سا ایسا آلہ بھی لیا جا سکتا ہے جو پچاس، سو روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ لیکن بقول اس بھائی کے اسے ممبر بننے اور کمپنی کا کم از کم مطلوبہ بزنس حجم پورا کرنے کے لیے یہ چیزیں خریدنا پڑیں۔
ایک اور ممبر اشرف صاحب سے ملاقات ہوئی جو ایک بزرگ ہیں۔ انہوں نے بھی اس سکیم کو دھوکہ اور فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں تو کمپنی کے ان ممبران کے کہنے پر ممبر بن گیاجن کو میں دینی و دنیاوی طور پر بڑا پڑھا لکھا سمجھتا تھا۔ لیکن انہوں نے مجھے باتوں میں لا کر اس کاروبار میں پھنسا دیا اور پھر خود ہی ممبر بننے اور کمپنی کا کم از کم مطلوبہ بزنس حجم پورا کرنے کے لیے مجھے ۲۰۰۰ / روپے کی ۴ ٹوتھ پیسٹیں(۵۰۰ روپے فی ٹوتھ پیسٹ) تھما ڈالیں۔ میں ان کا یہ طریقہ کار دیکھتے ہی اس سکیم کے مقاصد کو سمجھ گیا اور تائب ہو گیا۔ بزرگ محمد اشرف کا کہنا تھا کہ ۲۰۰۰/ روپے ضرور ضائع ہو گئے لیکن میں مزید اپنی آخرت خراب نہیں کر سکتا تھا اور دوسرو ں کو اسی طرح پھنسانا میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا ۔ میں نے ان ٹوتھ پیسٹوں کو تو ہاتھ تک لگانا گوارا نہیں کیا ۔ اب یہ بزرگ دوسرے ممبران کو اس سکیم سے نکلنے کے لیے سمجھاتے رہتے ہیں۔اسی طرح کئی اور ممبر جو اس سکیم کو حقیقتاً فراڈ سمجھتے ہیں لیکن کچھ تو دولت کی لالچ کی بناء پر خاموش ہیں اور کچھ کو یہ خوف بھی آجکل ہے کہ کمپنی کہیں ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کر دے خصوصاً کمپنی کی طرف سے ایک اعزازی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی برطرفی کے بعد یہ ممبر زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کمپنی نے اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کو شفا ہوئی ہے ۔ اپنی بزنس کٹ میں شفا پانے والے کچھ لوگوں کے نام پتے بھی دیے گئے ہیں۔ اب پہلی بات تو یہ تھی کہ جن کے نام دیے گئے تھے ، ان پر کسی کا پتہ نہیں تو کسی کا فون نمبر نہیں ، اگر ہے تو ساتھ کوڈ نہیں ، پھر اکثر کے نیچے یہ لکھا ہے کہ ان کو ۵۰فی صد یا ۷۰فی صد تک شفاء ہوئی ہے ۔ صرف ایک مریض کا پورا نام پتہ اور فون نمبر جمع کوڈ تھا۔ ان کا نام سید ناظم شاہ ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے جن بیماریوں کے لیے یہ دوا استعمال کی تو کیا آپ کو مکمل شفا ہو گئی ہے تو ان کا فرمانا تھا کہ دیکھیں شوگر مکمل طور پر تو کبھی ختم نہیں ہو سکتی لیکن حالت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ باقی بلڈ پریشر وغیرہ بھی اب ٹھیک ہے۔ ان سے بالآخر یہ معلوم ہوا کہ موصوف کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔
ایک اور ممبر نے اپنے والد کے دل کے مسئلہ کے لیے کمپنی کا فوڈ سپلیمنٹYجواب-Yجواب صلی الله علیہ وسلمn-Zجوابلیا جو ۱۲۰۰۰ / سے ۱۹۰۰۰ /میں ملتا ہے۔محترم پروفیسر حافظ ثناء اللہ خاں بتا رہے تھے کہ اس کے استعمال کے کچھ عرصے بعد جب انہوں نے مریض کو دیکھا تو ان کی حالت پہلے سے بھی خراب تھی۔
کمپنی کی بظاہر ان شفا بخش ادویات کے بار ے میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایسی دوائیاں اور فوڈ سپلیمنٹ وقتی طور پر جسم کی قوت مدافعت سوالرضوان اللہ علیھم اجمعین صلی الله علیہ وسلم رضوان اللہ علیھم اجمعینsisسوال صلی الله علیہ وسلم رضی اللہ عنہمارضوان اللہ علیھم اجمعین بڑھا دیتی ہیں اور کئی بیماریاں عارضی طور پر دب جاتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ وہ شفا یاب ہو رہا ہے ۔ کھلاڑی ،باڈی بلڈرز وغیرہ بھی ایسی دوائیاں اور خوراکیں استعمال کرکے سپر مین بن جاتے ہیں لیکن انہیں چھوڑتے ہی وہ مزید کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ باقی ۵۰ ، ۶۰ فیصد تک لوگ کوئی بھی دوائی استعمال کرنے سے وقتی طورپر ٹھیک ہو جاتے ہیں اور دوبارہ حالت وہی ہو جاتی ہے۔ اور یہ بھی کمپنی کا اپنا دعویٰ ہے کہ فلاں مریض کو اتنے فیصد شفا مل گئی ہے۔ کیا ان کے پاس کوئی ایسا آلہ ہے کہ جو یہ فیصد نکال سکے۔ ان کی دوائیں مشکوک ہونے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ ایک طرف تو یہ عام لوگوں کو اپنا فوڈ سپلیمنٹ بے شمار بیماریوں کا کامیاب علاج بتاتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے لٹریچر میں اس کے تعارف کے آخر میں چھوٹا سا لکھا ہے:
’’جب تک آپ yجواب-yجواب صلی الله علیہ وسلم جواب سے اچھے نتائج حاصل نہ کر لیں معمول کی ادویات لینا ترک نہ کریں۔ آپ ان کو آہستہ آہستہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ یو یو آن زو کے نتائج مختلف لوگوں میں مختلف باڈی فیکٹرز کی بناء پر مختلف ہو سکتے ہیں۔‘‘
قارئین کرام ! یہ تو حال ہے گولڈن کی انٹر نیشنل کی ادویات نما اشیاء کی حقیقت کا جس کی کچھ تفصیل آپ جناب ریاض الحسن نوری سابق مشیر وفاقی شرعی عدالت کے تبصر ے میں پڑھیں گے۔ اب ان کی مارکیٹنگ کے طریقہ کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے تو اس بارے میں اور دیگر کمپنیوں کی مارکیٹنگ کا تفصیلی شرعی جائزہ آپ علماء کے درج ذیل تفصیلی شرعی جائزے میں ملاحظہ فرمائیں:
اسلام وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ امام الانبیاء محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں اس کو مکمل کر کے قرآن مجید کے اندر اس کا اعلان فرما دیا۔ اب مسلمانوں پر قیامت تک کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں ان سے رہنمائی لینی ہی کافی ہے۔اب ان کو نہ کسی دوسرے دین کی ضرورت ہے اور نہ ہی محمد صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ کسی نبی کی ضرورت ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں خاتم النبیین بنا دیا۔
اب حلال صرف وہی ہے جسے اللہ رب العالمین نے اپنے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے حلال کر دیا اور حرام صرف وہی ہے جسے حرام کر دیا۔ اسی دین اسلام میں ہمارے لیے عقائد ، اعمال ، اخلاق کے علاوہ ہمارے انفرادی ، اجتماعی ، سیاسی ، اقتصادی ، معاشی تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ما بقی شیء یقرب من الجنۃ ویباعد من النار الا وقد بین لکم))
[المعجم الکبیر للطبرانی حدیث:۱۶۴۷]
’’کوئی چیز (اسلا م میں) ایسی نہیں بچی جو جنت کے قریب کر دینے والی ہو اور جہنم سے دور کرنے والی ہو مگر وہ تمہارے لیے بیان کر دی گئی ہے۔‘‘
لیکن امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ اسلام دشمنوں کی مسلسل فکری یلغار کی وجہ سے اسلام اجنبی اور غریب بن گیا ۔ غیر مسلم قوموں خصوصاً یہود و نصاریٰ اور اہل مغرب کی مادی ترقی سے مرعوب ہو کر باقی تمام اشیاء کے ساتھ معاشی اور اقتصادی طریقے بھی انہی کے اختیار کر لیے گئے جس کی بنیاد ہی سود پر ہے۔ یہ سودی سلسلہ زمانہ کے تطور کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں گرگٹ کی طرح بدلتا رہا۔ جب ایک سودی سکیم لوگوں میں فیل ہو جاتی ہے تو نئے نام سے دوسری کوئی سکیم ایجاد کر لی جاتی ہے جیسے آج کل کئی سودی سکیمیں شروع کی گئی ہیں۔
ایک سکیم راولپنڈی سے شروع کی گئی ہے جس کا نام ورلڈ ٹریڈنگ نیٹ(سوال) ہے ۔ ان کی سکیم یہ ہے کہ آپ ۳۰۵۰ / روپے ادا کر کے بارہ لاکھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ طریقہ کار یہ ہے کہ یہ لوگ ایک فارم دیتے ہیں جس پر پانچ خانوں میں پانچ ممبر ز کے نام و پتہ درج ہوتے ہیں ۔ ان سب کو درج کردہ مخصوص رقم منی آرڈر کرنا ہوتی ہے۔ جبکہ کمپنی کو ۸۰۰/ روپے منی آرڈر کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۰ / روپے چیرٹی باکس والے ایک خانے میں درج ممبر کو بھیجنے ہوتے ہیں ۔ یہ کل رقم ملا کر ۳۰۵۰/ روپے بنتی ہے۔ ان سب کے منی آرڈرز کی رسیدیں کمپنی کو بھیجنے پر کمپنی آپ کو ایسے پانچ فارم بھیج دیتی ہے ۔ اب ان فارموں میں پانچویں نمبر پر خود آپ کا نام آجائے گا۔ یہ فارم جب آپ آگے تقسیم کریں گے تو نئے ممبر بھی آپ کو اسی طرح منی آرڈر بھیجیں گے۔ جوں جوں یہ فارم آگے چلتا ہے ، ممبر ز بڑھتے رہتے ہیں تو آپ کا نام ترقی کرتا ہوا چوتھے نمبر پر ، پھر تیسرے ، پھر دوسرے اور پہلے نمبر پر آ جائے گا۔ یہاں تک پہنچ کر آپ کے پاس بارہ لاکھ جمع ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آپ کا نام فارم سے ختم ہو جائے گا۔ پھر دوسرے آ پ کی جگہ لیتے جائیں گے ۔ علاوہ ازیں کمپنی کی طرف سے یہ بھی گارنٹی ہے کسی ممبر سے فارم آگے نہ چل سکے تو وہ ہمیں درخواست لکھ دے ۔چیرٹی بکس والے خانے سے جمع ہونے والی رقم میں سے نمبر آنے پر اسے ۳۵۰۰/ روپے مل جائیں گے۔ یعنی ۴۵۰/ روپے پھر بھی زیادہ ملیں گے۔ اور خسارے کا کوئی امکان نہیں۔
یہ سکیم کئی وجوہات کی بنا ء پر غیر شرعی ہے۔
1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}[البقرۃ:۲۷۵] ’’اللہ نے بیع ( خرید و فروخت) کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ ‘‘(البقرۃ)جبکہ یہ سکیم تجارت کی صورت سے خارج ہے۔ تجارت میں لین دین کرنے والوں کے درمیان کوئی چیز ہوتی ہے جس سے مال اور اشیاء کا تبادلہ ہوتا ہے جبکہ یہاں کوئی چیز نہیں ہے۔ صرف لوگوں کو قائل کر کے اور کاغذ آگے بانٹ کر اس کمپنی کے چنگل میں پھنسانا ہوتا ہے۔ اگر اسے دلالی کی قیمت سمجھیں تو پھر بازارِ حسن کی طوائفوں کی دلالی کرنے والے اور اس پر وقت اور محنت صرف کرنے والے کے کاروبار کو بھی حلال اور تجارت ماننا پڑے گا۔ کیونکہ دونوں میں صورت ایک سی ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیا ہے اور ادھر بدکاری ایک حرام فعل ہے۔
2 دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سود بھی خوفناک ظلم کی صورت ہے کہ اس نے تو اپنی رقم کمپنی کے کھاتہ میں اور کچھ دوسرے افراد میں تقسیم کی ہے جبکہ اسے جو کچھ ملتا ہے ، وہ نہ کمپنی کی طرف سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان افراد کی طرف سے جن کو اس نے رقم منی آرڈر وغیرہ کی ہے ۔ جو کچھ ملتا ہے ، وہ ان نئے افراد کی طرف سے ملتا ہے ، جن کو صرف ایک کاغذ دے کر پیسے لیے جاتے ہیں ۔ سود میں تو یہ ظلم ہے کہ قرضہ وغیرہ دے کر مقروض سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاتا ہے لیکن یہاں اس شخص سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے جس کو کچھ دیا ہی نہیں۔
اور سود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلمکے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور سودی کاروبار میں ملوث، لینے ، دینے والے اور لکھنے ، گواہی دینے والے سب برابر کے لعنتی ہیں۔ (مسلم)1
اور نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: (( دِرْھَمُ رِبًا یاْ کُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِیْنَ زَنِیَّۃً)) ’’ سود کا ایک درہم جسے آدمی کھاتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سود ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں چھتیس(۳۶) مرتبہ زنا سے بھی زیادہ سخت ہے (یعنی برا ہے)‘‘ (صحیح الجامع الصغیر:۳۳۷۵)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم؍کتاب البیوع؍باب لعن آکل الربا وموکلہ۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی اکل الربا۔
اور یہ بھی فرمایا: ((اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ بَابًا أَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہٗ))1 (الجامع الصغیر:۳۵۴۱) ’’سود کے ستر دروازے ہیں ، سب سے معمولی دروازہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنی والدہ سے نکاح کرلے۔‘‘
تیسری وجہ: … اس سکیم کو بیع تسلیم بھی کر لیں تب بھی سود ہے کہ اس میں زیادہ پیسوں کی کم پیسوں کے ساتھ بیع کی جاتی ہے اور وہ بھی اُدھار۔ صحیح بخاری اور مسلم میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان:2
(( لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ اِلاَّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوْا بَعْضَھَا عَلیٰ بَعْضٍ وَلَا تَبِیْعُوْا الوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مِثْـلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوْا بَعْضَھَا عَلَی بَعْضٍ وَلَا تَبِیْعُوْا مِنْھَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ))
’’سونا سونے کے بدلے نہ بیچومگر برابر برابر اور زیادہ کم مت بیچو اور چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر ، ایک طرف زیادہ اور دوسری طرف کم نہ ہو اور نہ ایک طرف اُدھار ، دوسری طرف نقد۔‘‘
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا::
(( اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ فَمَنْ زَادَ اَوِاسْتَزَادَ فَقَد اَرْبَی اَلَآخِذُ وَالْمُعطِیْ فِیْہِ سَوَائٌ))3
’’سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی …‘‘
اس حدیث کے آخر میں ہے ، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا، وہ سود میں پڑ گیا ، لینے والا اور دینے والا برابر ہے۔
اس مذکورہ سکیم میں بھی آدمی کم رقم دے کر بغیر کوئی چیز فروخت کرنے کے محنت کے زیادہ رقم لے لیتا ہے جو سراسر سود اور غیر شرعی ہے۔
مغربی سودی اور قماری سکیموں کو زیادہ مقبول شکل میں پیش کرنے کے لیے ایک بہت بڑا حیلہ اختیار کیا گیا ہے جسے گولڈن کی سکیم کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں بظاہر ممبرز کو کمپنی ایک چیز فروخت کرتی ہے لیکن کمپنی اور ممبرز محض چیزوں کی عام مروجہ اور شفاف طریقہ فروخت سے زیادہ دولت اکٹھی نہ کر سکتے تھے چنانچہ اس سکیم میں فروخت کا بھی ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ ممبر ز تھوڑی سی رقم لگا کر بہت زیادہ دولت اکٹھی کر سکیں جبکہ کمپنی بھی آسانی سے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب التغلیظ فی الربا
2 بخاری؍کتاب البیوع؍باب بیع الفضۃ بالفضۃ۔ مسلم؍کتاب البیوع؍باب الربا۔
3 مسلم؍کتاب البیوع؍باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقداً
کروڑوں اربوں روپیہ سمیٹ سکتی ہے۔ کمپنی کی طرف سے ممبران کو بہت مہنگی اشیاء بیچی جاتی ہیں ۔ مثلاً ایک ٹوتھ پیسٹ کی قیمت بھی کم از کم ۷۵۰/ روپے ہے ، ایک شیونگ کریم (جیل) کی قیمت ۹۰۰/ روپے ہے ۔ سب سے زیادہ ممبران کو جو چیز خریدنے کی رغبت دی جاتی ہے ، یہ ایک پاؤڈرہے جسے کینسر ، شوگر ، ہیپا ٹائٹس سمیت بہت سی بیماریوں کا جادوئی علاج بتایا جاتا ہے ۔ اس کی قیمت ۱۹۰۰۰ / روپے ہے ۔ یہ تقریباً انر جائل کے ڈبے سے کچھ بڑے سائز میں ایک سفوف سا ہوتا ہے ایک کین کٹر یا ڈبہ کٹر کی قیمت ۱۳۰۰/ روپے ہے۔ بے بی لوشن ۷۵۰/ روپے کا ہے۔ اسی طرح باقی چیزوں کی قیمتوں کا حال یہی ہے ۔کمپنی کے مطابق اس کی سب اشیاء ناقابل علاج بیماریوں کا علاج بھی ہیں لیکن کمپنی یہ اشیاء عام مارکیٹ میں نہیں رکھتی بلک صرف کمپنی کے جاری کردہ ایک خاص طریقہ کاروبار میں شامل ہونے والے ممبران کو ملتی ہیں یا ان ممبران کے ذریعے کمپنی سے ملتی ہیں ،ممبران خود کوئی چیز نہیں بیچتے ۔ ان کے طریقہ کاروبار میں بھی کم از کم صرف ۴۵۰۰/ روپے خرچ کرنے سے ممبر کو بالآخر لاکھوں روپے ملتے ہیں۔ اس کا طریقہ بتایا جاتا ہے کہ کمپنی کو ۱۵۰۰ / روپے ممبر شپ فیس ادا کرنا ہے جس کے عوض بڑے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں ، اعلیٰ تجارتی اداروں اور فضائی سفر میں ان کا کارڈ دکھانے پر کچھ رعایت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کارڈ کا کوئی فائدہ نہیں۔ظاہر ہے اس سہولت سے عام غریب لوگ کم ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ تاہم کمپنی کے کاروبار میں شمولیت کے لیے کمپنی سے کم از کم مزید ۳۰۰۰ / روپے کی کوئی چیز خریدنا ہوتی ہے۔ اس طرح ممبر کا ۳۰۰۰/ بزنس حجم ہو جاتا ہے اور اسے ۵ فیصد کمیشن یا ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے ۔ اب اگر یہ پہلا ممبر( صلی الله علیہ وسلم)دو مزید ایسے ممبر بنائے کہ بزنس حجم ملا کر ۰۰۰،۱۰/ ہو جائے تو اس کے بعد ممبر صلی الله علیہ وسلمکو ۱۵فی صد ملے گا۔ اس پہلے ممبر صلی الله علیہ وسلمکو اب سپر وائزر کا نام دیا جائے گا۔ جب اگلے دو ممبر مزید آگے ممبر بنائیں گے اور وہ ۶۰ ہزار کا بزنس حجم بنا لیں تو اس کے بعد پہلے ممبر صلی الله علیہ وسلمکو ۲۵ فیصد ملے گا اور وہ مینجر کہلائے گا۔ اس طرح ہر نیا ممبر مزید آگے ممبر بناتا رہے گا اور جب بزنس حجم دو لاکھ چالیس ہزار کا ہو جائے گا تو پہلا ممبر صلی الله علیہ وسلمڈائریکٹربن جائے گا اور اسے ۴۰فیصد ملے گا۔ پھر ۲۰ لاکھ کا بزنس حجم ہونے پر پہلا ممبر ایگزیکٹو ڈائریکٹر بن جائے گا۔ اسے۴۳فیصد ملے گا۔ کمپنی کی طرف سے گاڑی ، بنگلہ ، غیر ملکی ٹورز اور بونس وغیرہ بھی ملیں گے۔ یہ تمام طریقہ کمپنی کے لٹریچر پر چھپا ہوا موجودہے البتہ تفصیلات صرف وہ کمپنی کے دفتر میں ہونے والی روزانہ کلاس میں بتاتے ہیں۔یہ عہدیدار اپنے نیچے بننے والے عہدیدار کو بھی اپنے کمیشن سے اتنا دے گا جو ہر ایک کے لیے مقرر ہے ۔ مثلاً ڈائریکٹر ۴۰فیصد لے گا تو ۲۵/ فیصد اپنے نیچے مینجر کو بھی دے اور مینجر ۲۵فیصدلے گا تو اپنے نیچے بننے والے سپروائز کو بھی ۱۵فیصد دے گا۔
یہ سکیم بھی سراسر حرام ہے اور اس کی حرمت کی کئی وجوہات ہیں:
8 گولڈن کی والوں نے اپنے لٹریچر میں یہ وضاحت کی ہے کہ ہماری اس کمپنی کا ممبر بننے میں خسارے کا کوئی امکان نہیں ۔ No Riskکے الفاظ ان کے لٹریچر پر لکھے ہیں۔ اور یہ سراسر سود ہے جس کو اللہ رب العالمین نے حرام کیا ہے۔ اس کو تجارت اور منافع قرار دینا سود کے مفہوم سے جہالت یا تجاہل کا نتیجہ ہے (جس سے ان کی حیلہ سازی کا ثبوت بھی مل رہا ہے)
کیونکہ انسان کے لیے منافع کے حصول کی عموماً تین صورتیں بنتی ہیں:
1 اپنا مال کسی دوسرے شخص کے سپرد کر دے کہ آپ اس مال سے تجارت کریں اور جو فائدہ ہو گا ، اسے ہم آپس میں ایک متعین مقدار پر تقسیم کر لیں گے۔ یہ صورت صرف مال سے منافع حاصل کرنے کی ہے۔ اس میں مال اور محنت دونوں کے ضائع چلے جانے کا امکان بھی رہتا ہے۔
اس صورت میں منافع اور سود میں فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سودی کاروبار میں پہلے منافع کی شرح متعین ہوتی ہے اور وہ یقینی ہوتا ہے جیسا کہ یہ کمپنی والے خود اقرار اوراعلان کر رہے ہیں کہ آپ کا منافع بے حساب اور یقینی ہے جبکہ تجارت میں منافع یقینی بھی نہیں ہوتا اور اس کی شرح متعین بھی نہیں ہو سکتی۔
2 انسان خود اپنے مال کے ساتھ تجارت کرے اور اسے اس سے جو نفع حاصل ہو یا اپنا مال کسی دوسرے کو دے اور اس کے ساتھ خود بھی کام کرے۔ اس صورت میں بھی سود تجارت سے مختلف ہے ۔ کیونکہ تجارت میں مال والا اپنی محنت صرف کرتا ہے ۔ جبکہ سودی کاروبار میں مال والا کوئی محنت نہیں کرتا جیسا کہ گولڈن کی والوں کی سکیم میں بھی واضح ہے کہ جب پہلا ممبر صلی الله علیہ وسلم بن جاتا ہے تو وہ کم از کم پہلی دفعہ دو ممبرز( رضی اللہ عنہ. رضی اللہ عنہما) بلا واسطہ بناتا ہے اور کے بعد ( رضی اللہ عنہ. رضی اللہ عنہما) آگے اسی طرح ممبرز بناتے ہیں۔اسی طرح آگے جتنے بھی ممبر بنیں گے ، ان سب کے کمیشن میں بھی ممبر صلی الله علیہ وسلمشریک ہو گا ۔ حالانکہ اگلے ممبرز ( رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما)نے بنائے ہوتے ہیں ان سے اگلے دوسروں نے کیونکہ آگے بنیادی ذمہ داری بھی رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہمااور پھر ان کے بعد کے ممبران کی ہوتی ہے نہ کہ صلی الله علیہ وسلمکی لیکن ممبر صلی الله علیہ وسلم ، ممبرز رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما کے بعد آخر تک بننے والے ممبرز کے منافع / کمیشن میں بھی شریک ہو جاتا ہے جبکہ ان سب پر ممبر صلی الله علیہ وسلم کی عمومی طور پر محنت نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں کوئی مال دیا ہوتا ہے ۔
یہ سب اس لیے کہ کام کو زیادہ پرمشقت بنانا ایسی قماری کمپنیوں کے فلسفے کے ہی خلاف ہے۔ وہ تو بار بار اپنے لٹریچراور طریقہ کار میں یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ اس طریقہ کاروبار کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ برائے نام وقت اور بہت معمولی محنت سے بہت زیادہ دولت کما سکتے ہیں۔
گولڈن کی والوں کے مطابق ممبر صلی الله علیہ وسلم پہلے دو ممبر رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما بنانے کے بعد بھی آخری ممبر تک کچھ نہ کچھ محنت ضرور کرتا ہے اگرچہ اگلے ممبرز بنانے کی بنیادی ذمہ داری رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما اور ان کے بعد کے ممبران کی ہوتی ہے لیکن ممبر صلی الله علیہ وسلم اگلے تمام ممبران کو ممبرز بنانے کے لیے ضرورت پڑنے پر ترغیب و رہنمائی تو دیتا ہے حالانکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ ممبر صلی الله علیہ وسلم پہلے دو ممبران( رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما) بنائے اور اگلے ممبران پر محنت نہ بھی کرے اور صرف اگلے ممبران ہی محنت کرتے رہیں کیونکہ آگے بنیادی ذمہ داری اگلے ممبران ہی کی ہوتی ہے تو ممبر سازی کا سارا نیٹ ورک بھی مکمل ہو جائے گا اور نیچے اسی طرح کے مطلوبہ ممبرز اور مینجرز وغیرہ پیدا ہو جائیں گے اور یوں ممبر صلی الله علیہ وسلم کو پورا مقررہ کمیشن مل جائے گا۔
ؐ3 ایک تیسری صورت ہے کہ بندہ صرف کام ہی کر لے اس کا اپنا کوئی مال اس میں لگا ہو انہ ہو ۔جیسے کوئی شخص مضاربت پر محنت کر رہا ہے یا کسی اور شخص کے کام میں شریک ہے کہ نفع آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ اس صورت میں بھی آدمی اپنی محنت کے نتیجہ میں نفع حاصل کر رہا ہے۔ جبکہ کمیٹی کا ممبر دوسروں کی محنت کے نفع میں شریک ہوتا ہے۔ لہٰذاا ن وجوہات کی بناء پر اس کمپنی کا تمام کاروبار سود کے زمرہ میں آتا ہے۔
8 پھر شریعت اسلامیہ کا مسلمہ ضابطہ ہے کہ کسی بھی کام اور معاملے پر حکم اس کے مقصد کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے۔ اگر کام حلال ہے مگر جس مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے ، وہ خلاف شریعت ہے اور حرام ہے تو اس کا حکم اور ہو گا اور اگر وہ حلال موافق شریعت مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے تو اس کا حکم اور ہو گا۔ انگور کی تجارت کرنا اور اسے فروخت کرنا حلال ہے لیکن جب اس کے بارے میں یقین ہو گا کہ وہ شراب کشید کرنے کے لیے خریدنا چاہتا ہے تو اس کا حکم اور ہو گا ۔ مکلف کے تمام قولی اور فعلی معاملات میں یہی اصول ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو:
’’گولڈن کی ‘‘ کمپنی والوں کے کاروبار کا ایک حصہ وہ ہے جسے وہ اپنی مصنوعات کہتے ہیں جن میں اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ رکھی ہوئی ہیں ، دوسرا حصہ ممبر بنانا ہے اور اپنے بننے والے ممبروں کو اپنی آمدن میں شریک کرنا۔‘‘
ان دونوں میں سے کمپنی کا اصل مقصد ممبر بنانا ہے مصنوعات تو صرف بطورِ حیلہ اور لوگوں کو دکھانے کے لیے ہیں کہ وہ صحیح اسلامی حلال تجارت کر رہے ہیں ۔ اس بات کی واضح دلیل یہ ہے کہ کمپنی اپنی مصنوعات کو کھلی مارکیٹ میں نہیں لاتی ۔ صرف اپنے بننے والے ممبروں کو دیتی ہے ۔ اگر کوئی ممبر بننے کے بغیر لینا چاہے تو بھی بلاواسطہ نہیں بلکہ ممبر کے واسطہ سے مل سکتی ہے حتی کہ مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ ان کے کمپنی دفتر میں بھی کوئی شخص ممبر شپ کارڈ دکھا کر ہی جا سکتا ہے یا اسے ممبرز کے ذریعے جانا پڑتا ہے۔ اگر ان کا اصل مقصد اپنی مصنوعات کو فروغ دینا ہوتا تو لازماً وہ اس کو مارکیٹ میں پیش کرتے اور ممبروں کے علاوہ جو بھی خریدنا چاہتا ، اس کو فروخت کرتے اور مال کماتے۔یہ تجارت کا شفاف طریقہ تھا لیکن اس کو چھوڑ کر ایسا گورکھ غیر شرعی طریقہ اسی لیے اختیار کیا گیا تاکہ کمپنی زیادہ سے زیادہ مال کمائے ، ممبران کو بھی زیادہ دولت کمانے کا لالچ ملے ، چاہے عوام کا اس میں عملی طور پر کتنا ہی بیڑہ غرق ہو جائے اور انہیں عام سستی اشیاء کی بجائے مہنگی ترین اشیاء خریدنے پر مجبور کیا جائے ، چاہے انہیں اس کی ضرورت ہی نہ ہو لیکن وہ زیادہ دولت کمانے کے لالچ میں انہیں خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے پورے معاشرے پر بالآخر کیا تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے؟ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے والے ایسے حیلے اسلام کے اندر جائز نہیں۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے حیلہ کے ذریعے اس کو جاری رکھا۔ انہی حیلوں کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل بندر بنا دیاتھا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلمکی تعلیمات سے جان چھڑانے کے لیے حیلوں کو اختیار کرنا ، اللہ تعالیٰ کی لعنت کا باعث ہے ۔ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ((قاتل اللہ الیہود لما حرم اللہ علیھم شحومھا جملوھا ثم باعوھا فاکلوھا)) (صحیح بخاری/کتاب التفسیر، حدیث:۴۶۳۳)1
’’اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے جب اُن پر گائے وغیرہ کی چربی حرام کی گئی تو انہوں نے ( حیلے سے) اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔‘‘
8 یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان کمپنیوں کے دعوے کے مطابق اگر برائے نام وقت صرف کر کے آپ لاکھوں کروڑوں میں کھیل سکتے ہیں تو پھر مسلم نوجوان اپنے زیادہ تر فارغ وقت کا کیا کریں گے۔ یقیناً پھر وہ سارا وقت بے کار رہنے کی وجہ سے زمین پر دنگا فساد اور اخلاقی جرائم کا باعث بنیں گے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
8 سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تمام لوگ سکیم کے ممبر بن جائیں تو یقیناً سارا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ پھر جب کوئی ممبر بننے والا ہی نہ رہے گا ( یعنی سب ممبر بن چکے ہوں گے) تو سینکڑؤں نئے ممبرز کی رقوم کا کیا بنے گا۔ کیونکہ جب تک بڑی تعداد میں ممبر نہ بنتے رہیں گے تو زیادہ کمیشن نہیں مل سکتا۔ اس لیے کمپنی والے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب التفسیرسورۃ الانعام۔ باب قولہ اولٰئک الذین ھد اللہ فبھدا ھم اقتدہ۔ مسلم؍کتاب البیوع؍باب تحریم بیع الخمر والمیتۃ والخنزیر والاصنام۔
کہتے ہیں کہ فائدہ میں وہی رہے گا جو پہلے ممبر بنے گا۔ زیادہ عرصے کے بعد ممبر بننے والے زیادہ فائدہ نہ اُٹھا سکیں گے کیونکہ پھر مزید ممبر بننے کے لیے بہت کم لوگ رہ جائیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کافی دیر بعد ممبر بننے والوں کا کیا قصور؟وہ کمپنی کی محض پروڈکٹ خریدنے کے لیے تو ممبر نہیں بنے ہوئے۔ ممبر تو ان کے کمیشن در کمیشن کے چکر میں شریک ہونے کے لیے ہی بنا جاتا ہے اور یہ کئی بھائیوں کے مشاہدے کی بات بھی ہے کہ لوگوں کی اکثریت کمپنی کی اشیاء خریدنے کے لیے نہیں بلکہ لا محدود کمیشن حاصل کرنے کے لیے ممبر بنتی ہے۔ دوسری طرف اگلے ممبرز نہ بننے کے باوجود کمپنی اپنے پیسے برابر وصول کرنے میں کامیاب ہو گی ۔ اسے کافی عرصہ بعد ممبر کم بننے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
8 اس سکیم میں زیادہ پیسوں کی کم پیسوں کے ساتھ بیع ہے کیونکہ ممبر ( صلی الله علیہ وسلم)اپنی کچھ رقم خرچ کر کے کمپنی کی بنائی ہوئی چیز خریدتا ہے ۔(اب یہ محض آگے دو ممبر رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما بنا کر انہیں کمپنی سے خریداری کی ترغیب دیتاہے لیکن اس کے بعد اگلے ممبرز بنانا رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما کا کام ہوتاہے کہ وہ آگے ممبرز بنائیں ہر ممبر کے لیے پہلے دو ممبر بنانا ضروری ہوتا ہے ۔ اس طرح ممبرز کا یہ سلسلہ بڑھتا ہے۔ ( رضی اللہ عنہ, رضی اللہ عنہما)کے بعد صلی الله علیہ وسلم نے باقی ممبرز پر عموماً کوئی محنت نہیں کی ہوتی اور نہ ہی انہیں کوئی مال دیا ہوتا ہے۔ لیکن ممبر صلی الله علیہ وسلم آخر تک بننے والے ممبرز کی محنت کے منافع میں بھی شریک ہوتا ہے اور اس طرح تھوڑی رقم لگا کر اصل رقم سے بہت زیادہ رقم بغیر محنت کے حاصل کرتا ہے حالانکہ زیادہ تر رقم جن کے ذریعے ملتی ہے انہیں ممبر صلی الله علیہ وسلم نے کچھ دیا بھی نہیں ہوتا۔ یہ تھوڑے مال کی زیادہ مال کے ساتھ بیع کی واضح صورت ہے۔
8 اس میں جوئے کی بھی صورت ہے کہ ممبر پہلے اپنا بینک اکاؤنٹ کھلواتا ہے اور پھر کمپنی اس میں ممبر کا بننے والا منافع منتقل کرتی رہتی ہے لیکن کمپنی جب چاہے اپنا کاروبار سمیٹ کر غائب ہو جائے یا ممبر بننے کے لیے کوئی رہ نہ جائے تو آخری نئے ممبرز منہ دیکھتے رہ جائیں۔
8 کمپنی کے اپنے لٹریچر کے مطابق یہ سکیم امریکہ کے ہارورڈ بزنس سکول سے لی گئی ہے ، جب ان سے بات کی جاتی ہے کہ آپ کی اشیاء اگراتنی سائنسی ، انقلابی اور شفا بخش ہیں تو انہیں عام مارکیٹ میں پیش کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ عام غریب لوگوں کا بھلا چاہتے ہیں ۔ پہلے امریکہ اور کئی یورپی و ایشیائی ممالک میں یہ کاروبار ہو چکا ہے اب وہ پاکستانی مسلمانوں کی صحت اور معاشی خوشحالی چاہتے ہیں۔ کیا غیر مسلموں کی بنائی گئی سکیمیں اور منصوبے مسلمانوں کی خوشحالی کے لیے بنائے جاتے ہیں؟ اگر کسی کو اس بارے میں کوئی خوش فہمی ہے تو وہ ان پروگراموں کا حشر دیکھ لیں جو مغربی ادارو ں نے ہماری خوشحالی کے لیے بنائے۔ ان کے نتیجے میں آج پاکستان ۳۸ ارب ڈالر کا مقروض ہے ۔ قرآن کا واضح ارشاد ہے:
{یٰٓـأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا وَّ دُّوْا مَا عَنِتُّمْ}
[آل عمران:۱۱۸]
’’ اے ایمان والو! تم اپنا خیر خواہ ایمان والوں کے سوا کسی اور کو نہ بناؤ۔( تم تو ) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑو۔‘‘
8 انٹر نیٹ پر کچھ پیکج دینے والی بزناس ( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلمs)کمپنی بھی گولڈن کی ‘‘ کے ہی ملتے جلتے طریقے پر کام کرر ہی ہے۔ یہ کاروبار بھی تقریباً انہی وجوہات کی بناء پر حرام ہے۔ علاوہ ازیں فیوچر اسٹر سٹیجین نامی سکیم ، بیسٹ فیوچر پلان نامی انعامی سکیم۔ فیوچر کنگ نامی انعامی سکیم اور پینٹا گو نو نامی انعامی سکیمیں بھی انہی سے ملتے جلتے طریقہ کاروبار کی وجہ سے ناجائز ہیں۔
دفتر میں ہر داخل ہونے والے کا کارڈ چیک کیا جاتا ہے اور بغیر ممبر کے اندر داخل ہونے کی ممانعت ہے ( اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد اشیاء کی فروخت نہیں بلکہ اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت ممبر سازی کرنا ہے)
مرد حضرات کا بغیر بوٹ داخلہ منع ہے اور گولڈن کی انٹر نیشنل کے مینجر کے لیے کالا کوٹ زیب تن کرنا ضروری ہے (آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا)
مین دروازے کے بالکل سامنے ایک وسیع ہال ہے جس میں ٹیبل اور کرسیاں موجود ہیں جن میں ۵۰۰ افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے اس ہال میں مخلوط گپ شپ کا ماحول دیا گیا ہے جس میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
ہال میں تقریباً ہر وقت انگلش میوزک چلتا رہتا ہے۔
آڈیٹوریم کھلتے ہی لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھنا شروع ہو گئے ۔ ایکو ساؤنڈ پر کانوں کے پردے پھاڑدینے والا تیز انگلش میوزک چل رہا تھا۔
یو یو آن فوڈ سپلیمنٹ کے فوائد ثابت کرنے کے لیے دورانِ لیکچر دو کپوں میں انڈے توڑے گئے اور ہال میں دو افراد ایک عورت اور ایک مرد کو اسٹیج پر بلایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو شکوہ ہے کہ انہیں موقع نہیں ملتا۔ گولڈن کی انہیں مردوں کے برابر حق دیتا ہے۔
اسٹیج پر عروج سلطانہ اور فرحان اللہ خان آئے اور انہوں نے انڈا پھینٹا مگر اس کا ریشہ ختم نہیں ہوا۔ ڈاکٹر مسعود نے گولڈن کی کے پروڈکٹ کا ۴گرام والا ساشہ ایک کپ میں ڈال کر بتایا کہ اس نے انڈے کا ریشہ ختم کر دیا ہے۔
محمد وسیع نے جب ہال میں موجود ۲۰۰ سے زائد افراد سے سوال کیا کہ کون صرف اپنی صحت کے لیے ہماری اشیاء خریدنے آیا ہے تو تقریباً ۶ ہاتھ بلند ہوئے اور جب کاروبار کی نیت سے آنے والوں کا پوچھا تو پورے ہال نے ہاتھ بلند کر دیے۔
محمد وسیع نے بتایا کہ ملک میں حلال رزق کمانے کے صرف دو طریقے ہیں ۔ کاروبار یا نوکری ۔دونوں کے نقصانات گنوائے۔ اس کے بعد گولڈن کی کو کاروبار یا نوکری کے ساتھ ملا کر کرنے کا طریقہ اور فائدہ بتایا۔ اپنی گفتگو کے دوران وہ بہت بازاری قسم کی زبان استعمال کر تا رہا۔ اور سامنے بیٹھی خواتین کو مخاطب کر کے محلے کے آوارہ لڑکوں کے بارے میں جو ان کے کہنے پر سودا سلف لا کر محلے والوں کی خدمت کرتے ہیں ،کے بارے میں تصدیق کرواتا رہا۔
نمائندہ مجلہ الدعوۃ باہر ایک ٹیبل پر موجود مینجر لیاقت کے پاس گیا جہاں کچھ لوگ اس سے یو یو آن زو کے فائدہ مند ہونے کی یقین دہانی کروانا چاہتے تھے جس پر لیاقت انہیں مطمئن نہ کر سکا۔ آخر اس نے کہا کہ اس دوائی نے میرے والد اور ماموں کو تو فائدہ دیا مگر بھائی کو فائدہ نہیں ہوا۔
نمائندہ مجلہ الدعوۃ نے جب اس طریقے کے اسلامی ہونے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے ادارہ منہاج القرآن لاہور کا دو لائنوں پر مختصر فتویٰ دکھایا۔ جس کے بعد لیاقت نے کہا کہ اگر میں بھی مولویوں کی باتوں میں آکر فتووں کے چکر میں پڑ جاتا تو آج اس کرسی پر بیٹھا ۵۰ ہزار ماہانہ نہ کماتا۔
نرسری فرنیچر مارکیٹ کراچی کے دوکاندار منیب احمد جو شیشے کا کاروبار کرتے ہیں ، نے نمائندہ مجلہ الدعوۃ کو بتایا کہ گولڈن کی انٹر نیشنل نے خاندانوں میں جدائیاں ڈال دی ہیں۔ اس کی وجہ سے رشتہ داریاں خراب ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب مجھے کمپنی کا علم ہوا تو میں نے کلاس لی جس میں انہوں نے مالی فائدے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ پیسے کے لالچ اور گھر کی بیماریوں کو دیکھتے ہوئے میں۰۰۰،۱۹ / روپے والی دو ممبر شپ یعنی ۳۸۰۰۰/ روپے ضائع کر کے ’’گولڈن کی ‘‘ کی دوائی گھر لایا جو میں نے اپنے والد کو جوڑوں کے درد اوروالدہ کو معدے کی بیماری کے لیے استعمال کرائی مگر انہیں کچھ افاقہ نہ ہوا ۔ میں نے ۴ ممبر بنائے ، سب متنفر ہو گئے ۔ ان کی وجہ سے مجھے ساڑھے چار ہزار کی کچھ رقم تو واپس مل گئی مگر جب ان کے کسی مریض کو افاقہ نہ ہوا تو اب وہ مجھے برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اب میں ان سے ملنے سے بھی گریز کرتا ہوں ۔ اس کام میں محنت اور جھوٹ بہت ہے مگر آؤٹ پٹ کچھ نہیں۔
بیکن لائٹ گرامر ہائی اسکول گرین ٹاؤن کراچی کے پرنسپل ایڈووکیٹ ملک نعیم اختر نے نمائندہ مجلہ الدعوۃ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گولڈن کی پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے ۔ بشرطیکہ بندہ سامنے والے کو اپنی چرب زبانی سے شیشے میں اُتار لے۔ ان کی پروڈکٹ خریدی تو تھی مگر استعمال نہیں کی لہٰذا نتائج کا علم نہیں۔ اس کمپنی کے مینجر شہزاد نے میرے سامنے ۱۰ ہزار روپے کا فراڈ کیا ۔ جب میں نے کمپنی سے شکایت کی تو انہوں نے اس کی تصویر دفتر میں آویزاں کر کے مجھے ٹھنڈا کر نے کی کوشش کی ۔ میں ایک ایڈووکیٹ ہونے کے ناطے سے عدالت میں گھسیٹ سکتا تھا مگر محلے داری کی وجہ سے خاموش ہو گیا۔ اس گیم میں آپ کو شامل کرنے والے محلے دار ، دوست یا رشتہ دار ہوتے ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک عورت جو کرایہ کے مکان میں رہتی تھی ، اُدھار رقم لے کر آئی کہ میں ممبر بننا چاہتی ہوں مگر میں نے اسے سمجھایا کہ یہ فراڈ ہے ۔ میرے کہنے پر وہ باز آگئی۔ مجھے بد دعا سے بہت ڈر لگتا ہے۔
محمد یوسف جو محمود آباد میں ایک ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں ، نے نمائندہ مجلہ الدعوۃ کو بتایا کہ میرے ماموں کا لڑکا گولڈن کی کا ممبر بنا اور اس کی دعوت پر میں نے بھی ۰۰۰،۱۹/ روپے دے کر ممبر شپ حاصل کی ، مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ کو ممبر بننے کے بعد ہر ماہ ۱۲۵۰ روپے کا چیک ملے گا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ مجھے بیوقوف بنایا گیا ہے ۔ ۰۰۰،۱۹/ روپے خرچ کر کے حاصل ہونے والا سفوف زیادہ سے زیادہ ۱۲۰۰/۱۰۰۰ روپے کا ہے اور ۱۲۵۰ روپے کا چیک بھی ایک ممبر لانے پر ایک مرتبہ ملے گا۔
نئے لوگ مشکل سے بنتے ہیں مگر کمپنی کے مالکان لاکھوں کروڑوں روپے ہضم کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری ٹریننگ کے دوران ایک ڈائریکٹر نے بتایا کہ میں کسی کمپنی میں مینجر تھااور میری تنخواہ ۲۳۰۰۰ روپے علاوہ بونس تھی میں وہ چھوڑ کر یہاں آیا ہوں اور لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہوں مگر اگلے ہی روز مجھے معلوم ہوا کہ وہ گولڈن کی کا ملازم ہے اور پرانے ماڈل کی سی ڈی ۷۰ کا مالک ہے ۔
اس کمپنی نے عوام کو ایسا بیوقوف بنایا ہے کہ کوئی ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔
(مولانا تقی عثمانی کی تصدیق سے دار العلوم کراچی کا فتویٰ)
سوا ل میں ذکر کردہ کمپنی کے کاروبار پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کاروبار کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
8 کمپنی اپنی جو اشیاء فروخت کرتی ہے واقعتا کمپنی کا مقصد یہی اشیاء فروخت کرنا ہو ، اور ان چیزوں کی بازاری قیمت بھی واقعی وہی ہو جس پر وہ فروخت کر رہے ہیں تو اس مذکورہ کاروبار کی صورت یہ ہوگی کہ کمپنی اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اپنے گاہک مہیا کرنے والوں کو ایک خاص انداز سے کمیشن دیتی ہے اور اس طرح گاہک مہیا کر کے کمیشن لینا شرعاً جائز ہے ۔
8 دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کا مقصد اشیاء فروخت کرنا نہ ہو بلکہ لوگوں کو کمیشن کے حصول کی اس مخصوص صورت میں جوڑنا مقصود ہو اور بظاہر اس سوال کی تفصیلات سے اور سائل نے زبانی جو صورتِ حال بتائی تھی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی کا اصلی مقصد وہ چیز فروخت کرنا نہیں ، کیونکہ اتنی معمولی چیز جس کی مقدار بقول سائل کے ۶۰۰ گرام ہے اور چند فروٹون کے پوڈر پر مشتمل دوائی نما چیز ہے جو ۱۷۲۰۰ روپے کی نہیں ہو سکتی اور صرف اس چیز کو استعمال کرنے کے لیے کوئی بھی ۱۷۲۰۰ خرچ نہیں کرے گا۔ بلکہ اصل مقصد اس کمپنی کا ممبر بن کر نفع کماناہے۔ اگر صورتحال یہی ہے تو یہ سارا کاروبار در حقیقت قمار( جوا) ہے او رناجائز ہے کیونکہ اصل قیمت کی حد تک تو اس چیز کی خرید و فروخت درست ہو گی اور خریدنے والا اس چیز کا مالک ہو گیا مگر اس سے زائد رقم جو ادا کی گئی ہے وہ داؤ پر لگی ہوئی ہے ، اگر خریدار کوئی گاہک مہیا نہ کر سکا تو اس کو رقم واپس نہیں ملے گی ، اور اگر گاہک مہیا کر لے تو اس جمع کردہ رقم پر نفع ملے گا اور یہی جوا اور قمار ہے ۔ لہٰذا اس صورت کے پیش نظر اس میں شامل ہونا ، اور اس طرح نفع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
محمد افتخار بیگ عفی عنہ دار الافتاء دار العلوم کراچی ۱۴
الجواب الصحیح الجواب الصحیح الجواب الصحیح
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ(مفتی) احقر محمود اشرف غفرلہ (نائب مفتی) اصغر علی ربانی
۱۴۲۲ھ۔۵۔۲۲ ۱۴۲۲ھ۔۲۔۲۰ ۱۴۲۱ھ۔۲۔۲۰
جامعہ فاروقیہ کراچی کا اعلان
الجواب حامد امصلیا
اصل جواب لکھنے سے قبل بطور تمہید کمپنی کا طریقہ کار لکھا جاتا ہے۔اس کے بعد شرعی حکم۔
کمپنی (گولڈن کی انٹرنیشنل )کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کوئی شخص کمپنی سے دوائی خریدتا ہے تو اسے کمپنی اپنا مستقل ممبر بناتی ہے اور اسے کمپنی کی اصطلاح میں’’سپر وائزر ‘‘کہا جاتا ہے،جب سپروائزر پانچ ممبر کمپنی کو فراہم کرتا ہے تو وہ ’’مینجر ‘‘بن جاتا ہے۔مینجر جب چوبیس ممبر بناتا ہے تو اسے’’ڈائریکٹر ‘‘کہا جاتا ہے۔
اب یہ ایک جماعت بن گئی، اگر مذکورہ جماعت اوردیگر ممبروں کے تعاون وکو شش سے بننے والوں کی تعداد دو سو تک پہنچ جاتی ہے تو مذکورہ جماعت کا ڈائریکٹر ’’ایگزیکٹو ڈائریکٹر‘‘بن جاتا ہے۔
کمپنی کی طرف سے ممبر مہیا کرنے پر سپروائزر کو دس ہزار روپے کا پندرہ فیصد یعنی پندرہ سوروپے ،مینجر کو ۲۵فیصد یعنی دو ہزار پانچ سوروپے اور ڈائریکٹر کو چالیس فیصد یعنی چار ہزار روپے اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو تینتالیس فیصد یعنی چار ہزار تین سو روپے بطور کمیشن دیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا ممبران میں سے کوئی بھی اگر مہینہ بھر ممبر فراہم نہ کر سکے تو ان میں سے کسی کو بھی کمیشن نہیں ملتا(کمیشن اسی ماہ ملے گا جب ممبران کوئی ممبر فراہم کریں گے)کمپنی کے مذکورہ بالا طریقہ کار میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی نقطۂ نگاہ سے اس کا روبار کی دو صورتیں ہیں۔
پہلی صورت تو یہ ہے کہ کمپنی کا مقصد دوائی ہی بازاری قیمت کے مطابق فروخت کرنا ہے۔محض کاروبار کو وسعت دینے کی غرض سے اپنے ممبر کو گاہک فراہم کرنے پر کمیشن دیتی ہے اور کمیشن بھی طے شدہ ومتعین ہے تو یہ صورت جائز اور درست ہے جیسا کہ ہمارے سابقہ فتویٰ میں تحریر ہے۔
دوسری صورت یہ کہ کمپنی کا مقصد دوائی فروخت کرنا نہیں بلکہ کمیشن کے حصول کے لیے لوگوں کو اس مخصوص طریقہ کار میں جوڑنا اور نفع کمانا مقصد ہو تو یہ کاروبار جائز نہیں ،نہ تو کمپنی کے لیے جائز ہے کہ وہ یہ کاروبار کرے اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی کا مقصد دوسری ہی صورت ہے اور اس پر قرینہ درج ذیل چند باتیں ہیں:
۱۔ دوائی اتنی اعلیٰ اور معیاری نہیں کہ صرف دوائی کے لیے کوئی شخص کسی ڈاکٹر یا طبیب کی تجویز کے بغیر اتنی بڑی رقم خرچ کرے بلکہ گاہک کا مقصد کمپنی کا ممبر بن کر نفع کمانا ہے۔
۲۔ نفع حاصل کرنے کے لیے کچھ رقم داؤ پر لگائی جاتی ہے اگر ممبر نے مزید گاہک فراہم کر لیا تو کمپنی یہ رقم مخصوص کمیشن کے ساتھ واپس کرے گی اور اگر گاہک فراہم نہ کر سکا تو داؤپر لگائی گئی رقم ڈوب جائے گی۔شریعت مطہرہ نے اسی کو سود اور جوا قرار دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ کاروبار سوداور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس مخصوص طریقہ کار میں شامل ہو کر نفع کمانا نہ تو کمپنی کے لیے جائز ہے نہ ہی کسی ممبر کے لیے۔اس لیے ہمارے سابقہ فتویٰ کا سہارا لے کر مذکورہ کمپنی کے ممبر بننے کی ترغیب دینے سے اجتنا ب کیا جائے ۔فقط
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب کتبہ عبدالباری غفرلہ۔
دارالافتائ،جامعہ فاروقیہ کراچی(۱۴۲۳ھ۔۴۔۲۵)
گولڈن کی انٹر نیشنل نے لوگوں کو لوٹنے کے لیے پر اسرار طریقہ اختیار کیا ہے
(شیخ الحدیث مولانا محمود الحسن حفظہ اللہ جامعہ ستاریہ اہلحدیث کراچی)
صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ دستیاب معلومات اور قرائن وشواہد کی روشنی میں درج بالا کاروبار کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کتاب وسنت کی رُو سے یہ کاروبار درج ذیل وجوہ کی بناء پر ناجائز اور حرام ہے:
۱۔ یہ کہ یہ سودی لین دین ہی کی ایک شکل ہے جسے بعض اشیاء خصوصاً ایک دوائی نما سفوف بیچنے کے پردے میں چھپایا گیا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس دوائی میں ایسی کون سی خوبی اور خصوصیت ہے کہ اسے اتنے بڑے پیمانے پر سپلائی کرنے اور عوام میں مشتہر کرنے کے لیے عام کاروباری طریقہ سے ہٹ کر یہ پرُاسرار وپرپیچ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔لگتا ہے اس کے پیچھے اصل کاروبار کچھ اور ہے جس کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے لیے کمیشن کی ترغیب دے کر لوگوں سے پیسہ بٹوراجارہا ہے۔یہ دراصل کمیشن نہیں ہے بلکہ ربوٰ (سود)ہے جو مختلف لوگوں کو ان کے فراہم کردہ سرمایہ کے تناسب سے ادا کیا جارہا ہے اور ((کل قرض جر منفعۃ فھو ربا))1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ حدیث ضعیف ہے دیکھیے بلوغ المرام ؍کتاب البیوع ؍ابواب السلم والقرض والرھن
کے تحت یہ سود ہے ۔یہ وہی روش ہے جو نبی اکرم ؐ کے دور کے سود خوروں نے اختیار کی تھی اور کہا تھا کہ {اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا}’’بیع سودہی کی طرح ہے ۔‘‘(البقرۃ۲۷۵) کہ انہوں نے اپنے سودی لین دین کو اسلامی طرز تجارت سے تشبیہ دینے کی کوشش کی تھی جس کے جواب میں قرآن نے کہا: {وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}[البقرۃ:۲۷۵]’’اللہ نے (اسلامی طریقہ پر) تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ مزید برآں اپنے پرُاسرار طریقہ کار کی بناء پر اگر یہ کاروبار صراحاً سودی نظر نہ بھی آئے تو اس میں سود کا شائبہ ضرور ہے،اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہکا فرمان ہے کہ ((فدعوا الربوا والربیۃ))’’سود اور شک والی چیز کو چھوڑدو۔‘‘1
۲۔ کاروبا ر کی یہ شکل اصطلاح میں بیع النجش کہلاتی ہے جس سے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلمنے منع فرمایا ہے۔((عن ابن عمر قال نہی النبی صلی الله علیہ وسلمعن النجش ))2ترجمہ:’’نجش کی بیع سے آپ صلی الله علیہ وسلمنے منع فرمایا ہے۔‘‘
نجش کی تعریف یہ ہے کہ (( ھو ان یزید فی الثمن لارغبۃ بل لیخدع غیرہ))(مجمع البحار) یعنی اس میں گاہک کسی چیز کی قیمت اس لیے بڑھ چڑھ کر نہیں لگاتا کہ اسے اس چیز کے خرید نے میں دلچسپی ہے بلکہ محض اس لیے کہ اس طرح دوسروں کو دھوکہ دے اور اس کاروبار کے جال میں پھنسائے ۔امام بخاری نے اس پر باب منعقد کیا ہے کہ ((باب النجش ومن قال لا یجوز ذالک البیع))پھر صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہکا قول نقل کیاہے ۔فرماتے ہیں:
((وقال ابن أبی أوفی الناجش اکل الربوا خائن وھو خداع باطل لا یحل قال النبی صلی الله علیہ وسلم الخدیعۃ فی النار ومن عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد) )3
’’عبداللہ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں ،بیع نجش کرنے والا،سود کھانے والا،خائن ہے اور وہ دھوکہ دینے والا باطل ہے۔حلال نہیں ۔نبی صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:دھوکہ دینے والا جہنم میں ہو گا اور جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں وہ عمل مردود ہے۔‘‘
۳۔ قرآن کا ارشاد ہے:
{یٰٓـأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَا طِلِ} [النساء :۹۲]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1سنن ابن ماجہ ؍کتاب التجارات ؍باب التغلیظ فی الربا
2صحیح بخاری؍ جلد اوّل،ص۲۸۷،بخاری ؍کتاب البیوع ؍باب النجش ومن قال لایجور ذالک ،مسلم؍کتاب البیوع ؍باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ وسومۃ علی سومۃ]
3 صحیح بخاری ؍جلد اوّل ،ص۲۸۷
’’اے ایمان والو1تم اپنے اموال باطل وحرام طریقہ سے نہ کھاؤ۔ ‘‘
{یٰٓـأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْآ اَمَانَتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن}
[الانفال ۲۷]
’’اے ایمان والو!نہ تم خیانت کرو اللہ اور رسول ( صلی الله علیہ وسلم)سے اور نہ خیانت کرو امانتوں میں اور تمہیں اس کا علم ہے۔‘‘
مندرجہ بالا کا روبار میں خیانت در امانت بھی ہے اور اکل المال بالباطل ’’ناجائز طریقہ سے مال کھانا‘‘بھی ہے کہ اگر دوائی کا خریدار مقررہ مدت میں مطلوبہ ممبر فراہم نہ کر سکا تو اس کی رقم ڈوب جائے گی۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے پھلوں کے پکنے اور تیار ہونے سے پہلے پھل دار درخت کا سودا کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ((ارایت ان منع اللہ الثمرۃ بم یاخذ احدکم مال اخیہ))1 ’’ذرابتاؤ اگر اللہ نے پھل کو روک لیا یعنی اس پر کوئی آفت آگئی یا کیڑا وغیرہ لگ گیا اور وہ پکنے سے پہلے ہی ضائع ہو گیا تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بنیاد پر لے رہا ہے۔‘‘ [بخاری ،ج۱،ص۲۹۳]صحیح مسلم میں ہے :((لوبعت من اخیک ثمرا فاصابتہ جائحۃ فلا یحل لک ان تاخذ منہ شیئا بم تاخذ مال اخیک بغیر حق))2علاوہ ازیں یہ دھوکہ اور مجبوری کا سودا ہے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمنے اس قسم کے سودے سے منع فرمایا ہے: ((عن علی قال نہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمعن بیع المضطر وعن بیع الغرر))3’’آپ صلی الله علیہ وسلمنے مجبوری کی بیع سے منع فرمایا اور دھوکہ کی بیع سے بھی منع فرمایا۔
((عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہقال نہی رسول اللہ عن بیع الحصاۃ وبیع الغرر))4
’’آپ صلی الله علیہ وسلمنے کنکری(پانسے )کی بیع سے اور دھوکا کی بیع سے منع فرمایا۔‘‘
۴۔ اور اسراف مت کرو۔بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اسراف یہی ہے کہ عام استعمال کی چیزیں مارکیٹ میں سستی موجود ہونے کے باوجود مذکورہ کمپنی سے محض کمیشن کے لالچ میں مہنگی خریدی جائیں جب کہ ان کی دوائی نما چیزوں کی اعلیٰ کوالٹی کی تصدیق کوئی مستند وماہر طبیب بھی نہ کرتا ہو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1بخاری؍ کتاب البیوع؍ باب اذا باع الثمار قبل ان یبدو صلاحھا
2مشکوۃبحوالہ ۲۴۷،مسلم؍ کتاب البیوع؍باب وضع الجوائح
3ابوداؤد ؍کتاب البیوع ؍باب فی بیع المضطر
4مسلم ؍کتاب البیوع ؍باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر
۵۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:
{لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ} [البقرۃ :۲۷۹]
’’نہ ظالم بنو اور نہ مظلوم۔‘‘
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکا ارشاد ہے :
((لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام))[مشکوۃ]
اسلام میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں اور جان بوجھ کر خود نقصان اُٹھانا بھی جائز نہیں۔
اس کاروبار میں دونوں صورتیں موجود ہیں۔ایک تو خود بلاضرورت مہنگی چیزیں خریدی جاتی ہیں،دوسرے ممبر در ممبر کے طریقے میں پہلا ممبر آخر تک ایسے ممبر کی محنت کے منافع میں بھی شریک ہوتا ہے۔جس پر اس نے عموماً کوئی محنت نہیں کی ہوتی اور نہ ہی اسے کوئی مال دیا ہوتا ہے جو سراسر ناجائز ہے۔
۶۔ یہ کاروبار قمار ومیسر(جوئے)کی ایک شکل ہے کہ جس میں ایک فریق کی رقم کمیشن کے لالچ اور ممبر سازی کی ترغیب میں داؤ پر لگی ہوئی ہے۔بنا بریں یہ ناجائز ہے ۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:
{یٰٓـأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِنَّمَاالْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیَطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن} [المائدۃ :۹۰]
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ،بے شک شراب اور جوئے اور بتوں کے نام پر چڑھا وے چڑھانا اور قسمت آزمائی کرنا یہ پلیدی ہے ۔شیطان کے کاموں میں سے ہے۔پس اس سے بچ جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
{اِنَّمَا یُرِیْدُالشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْن} [المائدہ:۹۱]
’’بے شک شیطان چاہتا ہے کہ ڈال دے تمہارے درمیان عداوت ودشمنی اور بعض کو شراب اور جوئے میں ڈال دے اور رو کے تمہیں اللہ کی یاد کرنے سے اور نماز سے ۔پس کیا تم باز نہیں آتے؟
محمود الحسن
۱۴۲۳۔۶۔۲۱
(ابوحمزہ ظفر اقبال فاضل مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب)
کمپنی کی مارکیٹنگ کا طریقہ اگر چہ بجائے خود غیر شرعی ہے لیکن اس بحث سے قطع نظر کمپنی کی طرف سے ایک بڑا مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ عام کمپنیوں کی مارکیٹنگ کے طریقے میں کمپنی کی مصنوعات پہلے ایڈور ٹائز،ڈسٹری بیوٹر،ریٹیلر سے ہو کر پھر صارف تک پہنچتی ہیں۔اگر کسی چیز کی لاگت ۲روپے ہے تو صارف تک پہنچتے پہنچتے یہ ۸،۹روپے کی ہو جاتی ہے کیونکہ درمیان میں ان سب کو بھی کمیشن؍خرچ دینا پڑتا ہے،جب کہ گولڈن کی انٹر نیشنل کی مصنوعات کمپنی سے براہ راست صارف تک پہنچتی ہیں درمیان میں کوئی خرچ؍کمیشن نہیں کیونکہ ہر صارف ممبر براہ راست کمپنی سے خریداری کرتا ہے ،اور ممبر وغیرہ کو کمپنی اپنی چیزیں بیچنے کے لیے نہیں دیتی چنا نچہ ان کی مصنو عات کی قیمت زیادہ نہیں بڑھ سکتی حالانکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ اتنا خرچ بچانے کے باوجود کمپنی لوگوں کو ان کی روز مرہ استعمال کی چیزیں پھر بھی مارکیٹ سے کئی گنا مہنگی دے رہی ہے۔
مثلاً ایک ٹوتھ پیسٹ کی قیمت بھی ۷۵۰ روپے ہے۔یہ بھی ممبر کے لیے قیمت ہے ورنہ یہ قیمت۹۵۰ روپے ہے۔اس کی قیمت میں بھی یہ چیز ممبر کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔اب اگرکمپنی یہ کہے کہ اس کی چیزیں خاص سائنسی طریقوں سے تیار ہوتی ہیں اور ایسی چیزیں عام ما رکیٹ میں کہیں نہیں ہیں تو یہ دعویٰ تو ہر کمپنی کرتی ہے کہ اس کی چیزیں باقی سب سے بہتر ہیں لیکن پھر بھی ان کی قیمتوں میں کئی سو گنا کا فرق نہیں ہوتا۔پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کمپنی کے دعویٰ کے مطابق وہ اپنی اشیاء براہ راست صارف تک پہنچا نا چاہتی ہے تو اس کا کوئی عملی ثبوت بھی اسے فراہم کرنا چاہیے تھا ،مثلاً اپنی اشیاء کی فہرست میں چند ایسی اشیاء بھی رکھتی جن کی کوالٹی بے شک عام مارکیٹ کی اشیاء کے برابر ہوتی لیکن انہیں صارف تک براہ راست کم قیمت میں پہنچا کردنیا پر ثابت کیا جاتا کہ دیکھیں یہ ہے مارکیٹنگ کا کامیاب جدید طریقہ جس کے نتیجے میں غریبوں کو سستی اشیاء ملنا ممکن ہو گئی ہیں۔اس سے ان کی غریب پروری تو کم ازکم ظاہر ہو جاتی لیکن کمپنی نے ایسی غلطی کی کوشش نہیں کی جس سے ان کے اصل پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں رہ گیا ،کہ وہ صارف کو اپنی اشیاء کی خصوصیات بڑھا چڑھا کر بیان کر کے اور اپنی مارکیٹنگ کے طریقے کو غریب پرور طریقہ ثابت کر کے محض فراڈ کر رہے ہیں اور دراصل اس طرح وہ دھوکے سے عام استعمال کی اشیاء پہلے سے بھی کئی سو گنا زیادہ قیمت پر فروخت کر کے اربوں سمیٹ رہے ہیں۔ایسی ہی بیع کے متعلق صحیح مسلم کی مستند حدیث میں آتا ہے:
((نہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمعن بیع الحصاۃ وبیع الغرر ))1
’’رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے کنکری(پانسے مارنے )کی بیع سے اور دھوکے کی خریدوفروخت سے منع فرمایا۔‘‘
یعنی جس بیع میں سود ا بظاہر بہت اعلیٰ دکھایا جا رہا ہو لیکن حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو یا طریقہ فروخت ایسا بتایا جا رہا ہو کہ اس سے قیمت بہت کم پڑنے کا دعویٰ ہو لیکن عملاً کئی سو گنا سے بھی زیادہ قیمت وصول کی جا رہی ہو تو یہ صاف بیع الغرر ہے۔پھر مسلمانوں خصوصاً اس کمپنی میں شامل دینداروں کو تو ایسی ٹوتھ پیسٹیں وغیرہ خریدنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔انہیں تو سنت نبوی صلی الله علیہ وسلمکے مطابق عام مسواک کو ہی کافی سمجھنا چاہیے جسے طبی طور پر سب ڈاکٹروں نے ٹوتھ پیسٹ سے بہتر چیز قرار دیا ہے چہ جائیکہ وہ اتنی مہنگی ٹوتھ پیسٹیں خرید کر ان کمپنیوں کے ہاتھوں لٹتے پھریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے پھریں۔ العیاذ باللہ۔
جماعت اسلامی کے شیخ الحدیث
مولانا عبدالمالک کابزناس بارے استفسار کا جواب
محترمی ومکرمی جناب عاشق علی خان صاحب قیم جماعت اسلامی ضلع ابن قاسم کراچی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ1
فیکس کے ذریعے جناب کا استفسار ملا ،جواب درج ذیل ہے:
رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلمsکے نام سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی یا نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی کے کاروبار کے بارے میں آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب یہ کہ لوگوں سے ۴۵۰۰روپے فیس لے کر انہیں ممبر بنانا اور پھر وہ ممبر ز بنانے پر ۵۰امریکی ڈالر کا چیک بطور کمیشن پیش کرنے اور پھر بنائے ہوئے ممبران کے بنائے جانے والے ممبر ان میں سے ہر ۹ممبرز کی تعداد پر ۵۰ ڈالر کا چیک پیش کیے جانے کا لالچ سب کاغذی کارروائی ہے۔ہر شخص کو لالچ دے کر ۴۵۰۰روپے وصول کیے جاتے ہیں۔اس کے بعد وہ آدمی اپنے ادا کردہ۴۵۰۰روپے کے عوض ان لوگوں کو ممبر بنا کر حاصل کرتا ہے۔جن کو اس نے کچھ نہیں دیا ،وہ ان میں سے ہر ایک سے ۴۵۰۰روپے کاغذی کمپنی کو دلاتا ہے۔اس طرح کاغذی کمپنی لالچ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو اپنے لیے کمائی پر لگا دیتی ہے اور جو کمائی حاصل کرتی ہے شاید ان میں سے چند آدمیوں کو کچھ ادا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1مسلم ؍کتاب البیوع ؍باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر
بھی کر دیتی ہو شاید اِکا دُکا آدمیوں کو کچھ مل جاتا ہو، فی الحقیقت اسے فراڈ اور چالبازی سے رقمیں جمع کرنے کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ایک کاغذی ادارے کے ممبر بننے کے لیے۴۵۰۰روپے دینے ہیں اور ۹ممبرز بنا کر کل رقم ۴۵۰۰ روپے دیں گے اور اس کے عوض اتنی رقم میں سے ۵۰ ڈالر یعنی ۳۰۰۰روپے ممبر بنانے والے کو ملتے ہیں باقی رقم کمپنی کے بانی عمران خان اور شارجی صاحب ہڑپ کر لیتے ہیں اس طرح لوٹ کھسوٹ کا ایک جال ہے جو بناجاتا ہے ایک آدمی دھوکہ سے ایک شخص کی رقم ہتھیا کر دوسرے کو دینے میں استعمال ہوتا ہے یہ کام عرصہ سے مختلف کاغذی کمپنیاں کر رہی ہیں لیکن ان نوسر بازوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔یہ اس طرح سے چند ماہ میں لاکھوں کروڑوں روپے کما کر غائب ہو جاتے ہیں۔ابھی تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور اس لوٹ کھسوٹ کا حساب نہیں لیا گیا۔حکومت اپنے سیاسی مخالفین یا مجاہدین کو گرفتار کرنے اور انہیں ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔تنخواہ پاکستان سے اور اضافی الاؤنسز امریکہ سے ملتے ہیں اور کام امریکہ کا کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو لوٹنے والوں کا احتساب کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں ہے۔
والسلام
مولانا عبدالمالک
مدیر شعبہ استفسار ات
ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور
وجامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ
بزناس یادین ودنیا کا ناس
(مولانا مفتی ڈاکٹر عبدالواحد جامعہ مدینہ لاہور)
(انٹرنیٹ پر کچھ پیکج فروخت کر کے ممبر بنانے والی بزناس کمپنی کا طریقہ کار بھی’’گولڈن کی‘‘سے بنیادی طور پر ملتا جلتا ہے۔اس میں بھی ایک دفعہ پہلے ممبر صلی الله علیہ وسلمکو کچھ پیکج فروخت کر کے آگے مزید ممبر در ممبر بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔’’گولڈن کی‘‘کی طرح اس میں بھی زیادہ ممبر بننے پر پہلا ممبر ترقی کرتا ہے اور اسے کمیشن زیادہ ملتا ہے۔حالانکہ پہلے دو ممبرز کے سوا اس میں بھی اگلے ممبران پر ممبر صلی الله علیہ وسلمنے عموماً کوئی محنت نہیں کی ہوتی،اور نہ ہی انہیں کوئی مال دیا ہوتا ہے ،لیکن وہ اگلے ممبران کے نفع میں شریک ہوتا ہے۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ’’گولڈن کی‘‘میں پہلے دو ممبر ان سے ہی کمیشن ملنا شروع ہو جاتا ہے۔جب کہ بزناس میں اس سے زیادہ مطلوبہ تعداد میں ممبرز ملنے کے بعد ہی کمیشن ملنا شروع ہوتا ہے۔بزناس کو الحمد للہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔(ڈان۲۰۰۲۔۸۔۳۰)
(اگر چہ مفتی عبدالواحد صاحب کا فتویٰ بزناس سے متعلق ہے لیکن اس سے ملتی جلتی تمام قماری سکیموں کے متعلق بھی یہ فتویٰ قابل استفادہ ہے)
کچھ عرصہ سے بزناس( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلم)کے نام سے ایک کمپنی کام کر رہی ہے ۔کراچی اور اسلام آباد کے بعد اس نے لاہور میں زور پکڑا ہے اور یہ کمپنی انٹر نیٹ(سوالرضوان اللہ علیھم اجمعین رضوان اللہ علیھم اجمعینسوال)پر کام کرتی ہے۔اور ستر ڈالر کی فیس کے عوض ممبر کو کمپیوٹر کے کچھ کورس اور ویب سائٹ کی پیش کش کی جاتی ہے ۔اس حد تک تومعاملہ بظاہر ٹھیک نظر آتا ہے کیونکہ جس کو پیش کش سے فائدہ اُٹھانے میں دلچسپی ہو گی، وہ فیس دے تو معاملہ جائز ہے۔
لیکن اس کمپنی کے کام کے پھیلاؤ کا راز اس کے کام کے دوسرے رخ کی وجہ سے ہے۔وہ رخ یہ ہے کہ ستر ڈالر کی فیس دے کر بننے والے ممبر کو کمپنی آگے کمائی کرنے کی پیش کش کرتی ہے۔جس کے مطابق اگر یہ ممبر براہ راست اور بلاواسطہ دو مزید ممبر بنائے اور ان دونوں میں سے ہر ایک آگے مزید دو دو ممبر بنائے یہاں تک کہ بالآخر کم از کم نو ممبر بن جائیں تو کمپنی پہلے ممبر کو اپنی کمائی میں حصہ دار بنا لیتی ہے۔
کمپنی والے کہتے ہیں کہ کل ممبر جب مثلاً چودہ ہو جائیں گے تو کمپنی آپ کو پچاس ڈالر دے گی اور جب کل تیس ہو جائیں تو وہ آپ کو سو ڈالر دے گی(اسی طرح ممبر ان بڑھنے کے ساتھ لاکھوں کے حساب سے کمیشن بن جاتا ہے)اور بلاواسطہ مزید ممبر بنانے پر وہ آپ کو پانچ ڈالر فی کس دے گی۔
حکم:…یہ کاروبار مکمل طور پر ناجائز ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ یہ دلالی کی صورت ہے لیکن اس میں دلالی کی شرائط مفقود ہیں۔دلال( رضی اللہ عنہ رضوان اللہ علیھم اجمعین)کو اپنی محنت پر دلالی ملتی ہے۔لیکن بزناس کے گورکھ دھندے میں اپنی محنت پر اوّلاً کوئی اجرت نہیں ملتی۔اگر اجرت ملتی ہے تو دوسرے کی محنت کی شرط پر،مثلاً اوپر دئیے گئے نقشے کے مطابق زید نے اپنی محنت سے دو ممبر بنائے یعنی بکر اور خالد لیکن فقط اس محنت پر جو کہ زید کی اپنی محنت ہے،زید کو کوئی اجرت وکمیشن نہیں ملتی۔اگر زید آگے مزید محنت نہ کرے اور صرف بکر اور خالد محنت کریں اور ممبر بنائیں اور وہ بھی آگے ممبر بنائیں یہاں تک کہ دئیے گئے نقشہ کے مطابق کم از کم نو ممبر بن جائیں ۔تب زید کو کمیشن ملے گا، جو کہ تمام ممبران کے عدد کے تناسب سے ہو گا اور اگر بکر اور خالد بھی آگے محنت نہ کریں اور ممبرز سازی کا سلسلہ آگے نہ چلے تو زید کو اپنی محنت پر بھی کچھ نہ ملے گا۔حاصل یہ ہے کہ معاملہ میں مندرجہ ذیل خرابیاں ہیں:
۱۔ زید کی اپنی محنت کی اجرت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آگے سات ممبر اور بنیں اور وہ بھی وہ سات ممبر خود دوسروں نے بنائے ہوئے ہوں۔اُجرت کو اس طرح کی شرط کے ساتھ مشروط کرنے سے خود معاملہ فاسد اور ناجائز ہو جاتا ہے۔
۲۔ زید دو ممبر بنانے کے بعد بالکل محنت نہ کرے ،بنائے ہوئے ممبر آگے محنت کریں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے تو دوسروں کی محنت کے معاوضہ میں زید بھی شریک ہوتا ہے۔اس لیے کمپنی چودہ ممبر پورے ہونے پر زید کو پچاس ڈالر دیتی ہے اور تیس ممبر مکمل ہونے پر زید کو سو ڈالر دیتی ہے۔یہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔
عام طور پر یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ آگے جو ممبر بنے،آخر اس کی بنیاد زید ہی کی تو محنت تھی۔اگر وہ بکر اور خالد کو ممبر نہ بناتا تو آگے سلسلہ کیسے چلتا۔علاوہ ازیں زید اب بھی دوسروں کو محنت کی ترغیب تو دیتا ہے۔اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ محض محنت کی ترغیب دینا تو خود محنت نہیں ہے جس کا عوض ہو الاّ یہ کہ کسی کو اس کام پر ملازم رکھ لیا جائے۔دوسروں کو کام کرنے کی ترغیب دینے کو دلالی نہیں کہتے۔اس لیے زید صرف اپنی محنت پر عوض کا حقدار ہو سکتا ہے۔اس کی بنیاد پر آگے جو دوسرے لوگ کام کریں،ان کی محنت میں شریک نہیں ہو سکتا۔
تنبیہ:…شریعت کا ضابطہ ہے کہ(( الامور بمقاصدھا )) یعنی کاموں اور معاملات کا دارمدار مقاصد پر ہوتا ہے۔جب ہم بزناس( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلم)کمپنی کے کام کی نوعیت کو دیکھتے ہیں تو اس کے دو حصے ہیں۔ایک حصہ جس کو وہ اپنی( رضی الله عنہجواب رضی اللہ عنہماسوالs)کہتے ہیں یعنی کمپیوٹر کے ٹریننگ کورس اور ویب سائٹ کی فراہمی،دوسرا وہ حصہ جس کو وہ( صلی الله علیہ وسلم رضوان اللہ علیھم اجمعینسوال علیہ السلام)یعنی ممبر سازی کا حصہ ہے اور( رضی الله عنہجواب رضی اللہ عنہماsسوالs)کا حصہ تو محض یہ دکھانے کے لیے ہے کہ وہ فی الواقع تجارتی بنیادوں پر کام کر رہی ہے ۔ہمارے اس دعوے پر یہ مشاہدہ کافی دلیل ہے کہ اس کمپنی کے جو لوگ ممبر بن رہے ہیں،ان میں سے اکثریت کے پاس تو اپنے کمپیوٹر ہی نہیں ہیں۔اور ان کو کمپیوٹر کی الف ب سے بھی کوئی واقفیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کمپیوٹر کورس یا ویب سائٹ سے ان کو کوئی دلچسپی ہے یا اس سے ان کا کوئی بھی مفاد وابستہ ہے۔غرض کمپنی کا اصل مقصد تو مارکیٹنگ ( صلی الله علیہ وسلم رضوان اللہ علیھم اجمعینسوال علیہ السلام)ہے اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں ہم وضاحت سے بتا چکے ہیں کہ وہ ناجائز اور حرام ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔اس سے ملتے جلتے طریقے پہلے بھی چلائے گئے اور چلائے بھی جارہے ہیں۔یہ سب درحقیقت لوٹ کھسوٹ کے طریقے ہیں،البتہ حکمت یہ اختیار کی ہے کہ لوٹ کھسوٹ میں دوسروں کو شریک کر لیا تا کہ اصل جرم لوگوں کی نظروں میں نہ آئے بلکہ وہ خود مال کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کروائیں۔
گولڈن کی انٹر نیشنل والے یہ کہتے ہیں کہ جس طرح عام کمپنیاں اپنے ڈسٹری بیوٹر،ہول سیلرر یٹیلر کو کمیشن؍منافع دیتی ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے ممبر،سپروائزر،مینجر،ڈائریکٹر وغیرہ کو کمیشن دیتے ہیں،البتہ یہ سب صارف ہی ہوتے ہیں جنہیں یہ کمیشن ملتا ہے۔اس لحاظ سے یہ عام کمیشن کے کاروبار سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کوئی غیر شرعی بات نہیں حالانکہ وہ محض مغالطہ ڈال رہے ہیں۔عام کمپنیوں کے کاروبار میں ایک بار کمپنی ہول سیلر کو جب اپنا مال دیتی ہے تو اس کو اصل قیمت پر جتنا کمیشن دینا ہوتا ہے،دے دیتی ہے۔اس کے بعد ہول سیلر بھی ریٹیلر سے اصل قیمت پر جتنا کمیشن چاہتا ہے لے لیتا ہے،لیکن پھر ایسا نہیں ہوتا کہ ریٹیلر جس قیمت پر چیز بیچے تو اس کو ملنے والے منافع؍کمیشن میں اس کے اوپر ہول سیلر،ڈسٹری بیوٹریا کوئی اور شریک ہو جن کے توسط سے اسے نیچے تک مال ملا ہو جب کہ گولڈن کی انٹر نیشنل کے طریقہ کاروبار میں پہلا ممبر آخری ممبر کے منافع؍کمیشن میں بھی شریک ہوتا ہے حالانکہ پہلے ممبر نے آخری ممبر پر عموماً محنت نہیں کی ہوتی ہے۔وہ دوسروں کی محنت کے منافع میں شریک ہوتا ہے۔اس لیے’’گولڈن کی‘‘کا طریقہ کاروبار کسی طرح بھی عام شرعی تجارتی طریقہ نہیں۔
(ماہر معاشیات منظور احمد)
جناب منظور احمد یورپ میں مختلف کمپنیوں کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور معاشی واقتصادی معاملات اور باریکیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ایک ملاقات میں گولڈن کی اور ایسی دوسری کمپنیوں کے طریقہ کاروبار پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ سراسر سود اور جوئے کی شکلیں ہیں جو دنیا کے کئی ملکوں میں بھی بروئے کار رہی ہیں۔انہیں( صلی الله علیہ وسلم رضی الله عنہ s صلی الله علیہ وسلم!رضوان اللہ علیھم اجمعین)یعنی مخروطی طریقہ فروخت کہا جاتا ہے جس میں ممبران کی بیس( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلمsرضوان اللہ علیھم اجمعین) جس قدر بڑھتی ہے،اوپر اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ان سکیموں کا زیادہ تر نشانہ ترقی پذیر اور غریب ممالک ہوتے ہیں۔البانیہ انہی کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا تھا کیونکہ ان سکیموں میں لوگوں کی بہت زیادہ رقوم غیر ضروری چیزوں کی فروخت کے نام پر ان کمپنیوں کے پاس جمع ہو جاتی ہیں۔لوگ زیادہ کمیشن کے لالچ میں یہ غیر ضروری چیزیں کافی مقدار میں خرید لیتے ہیں اور اس آس میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ملک کی اصل ترقی وتجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے،ان سے مسلمانوں کو ہر صورت ہوشیار رہنا چاہیے اور بچنا چاہیے۔