میں نے نئی موٹر سائیکل ۶۰۰۰۰ / روپے میں خریدی اور انشورنس کروائی۔ میں نے انشورنس کا چھ ہزار جمع کروایا اور گاڑی دو ماہ بعد مجھ سے چھن گئی۔ مجھے انشورنس کمپنی نے۶۰۰۰۰/ روپے ادا کردیے۔ کیا میں اس رقم کی دوسری گاڑی لے سکتا ہوں؟ (سید راشد علی ،سکھر)
آپ جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}[البقرۃ:۲۷۵] [’’اور اس نے حرام کیا سود کو۔‘‘]اور رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((دِرْھَمُ رِبًا یَأکُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِیْنَ زِیْنَۃً))2 [’’سود کا ایک درہم جس کو کوئی آدمی کھاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ ]
پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ}[البقرۃ:۲/۲۷۹] [’’ اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لیے تمہارے مالوں کا اصل ہے۔‘‘ ]
لہٰذا گاڑی کی انشورنس میں جو آپ نے ساٹھ ہزار وصول کیے ان سے صرف چھ ہزار جو آپ نے جمع کروائے وہی لے سکتے ہیں باقی چون ہزار روپے آپ کے لیے حلال نہیں حرام ہیں۔ اس لیے آپ انہیں کسی بھی مصرف میں صرف نہیں کر سکتے جن کے ہیں انہیں واپس کر دیں رہی یہ بات وہ ان پیسوں کے ذریعے غلط کام کریں گے تو اس کے آپ ذمہ دار نہیں اس میں وہ خود مسئول ہیں۔ آپ انہیں وعظ و نصیحت فرما دیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر والا فریضہ ادا کر دیں۔ ۹/۱۲/۱۴۲۱ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2مشکوٰۃ/کتاب البیوع/ باب الربا/ الفصل الثالث۔ قال الشیخ الالبانی وإسنادہ صحیحٌ۔