میں نے دو سال پہلے بیٹے کی زندگی کا بیمہ کروایا تھا ۔ جس کے ہر سال پانچ ہزار یعنی کل دس ہزار اُن کو دیے جا چکے ہیں اس میں ایکسیڈنٹ کا بھی بیمہ تھا کہ بچے کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے تو وہ ہر جانہ دیں گے۔ ستمبر میں میرے اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ اس سے پہلے ہی میری نیت تھی کہ میں نے بیمہ ختم کروانا ہے۔ اب میں وہ رقم جتنی دی ہوئی ہے وہ اگر مجھے مل جائے، مجھے کافی ہے لیکن ایجنٹ لوگ یہی دلائل دیتے ہیں کہ یہ جائز ہے میں اگر بیمے کی رقم لوں یا لے کر کسی غریب کی مدد کر دوں تو کیا یہ میرے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہے؟
(۲)… میرے بھتیجے اور میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ موٹر سائیکل پر تھے گاڑی سے ٹکر ہوئی جس سے دونوں کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور میرے بیٹے کے دماغ میں بھی چوٹ لگی تھی اب ماشاء اللہ بہتر ہو رہے ہیں۔ وہ گاڑی والا اس وقت گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اب ہمارے بچے معاوضہ اُن سے مانگتے ہیں ، وہ تیس ہزار تک معاوضہ دیتے ہیں حالانکہ ہمارا تقریباً دونوں کا دو ،سوا دو لاکھ خرچ ہوچکا ہے۔ اگر ہم اُن سے معاوضہ لیں تو کیا یہ بھی جائز ہے؟
(۳)… بیوہ عورت قومی بچت سکیم بینک میں رقم رکھ کر منافع لے سکتی ہے یا نہیں؟
(۴)… کرائے کے مکان کی کمائی جائز ہے ؟ یعنی اپنا گھر اگر کرائے پر دے دیں؟ (بنت محمد حفیظ، گوجرانولہ)
بیمہ ناجائز اور حرام ہے خواہ زندگی کا ہو، خواہ دوکان کا ، خواہ مکان کا، خواہ فیکٹری و کارخانہ کا ، خواہ کاروبار کا ، خواہ بس ٹرک کا ر کا ، خواہ کسی اور چیز کا بیمہ اپنی تمام اقسام کے ساتھ حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں جوا، اور سود دونوں پائے جاتے ہیں ۔ اور معلوم ہے کہ اسلام میں یہ دونوں ناجائز اور حرام ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}[البقرۃ:۲۷۵][’’اور اس نے حرام کیا سود کو‘‘]{ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo} [المآئدۃ: ۹۰] [’’بے شک شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے الگ رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘]
رہی یہ بات کہ بیمہ لوگوں کے ساتھ تعاون کی ایک صورت ہے تو یہ بات بے بنیاد ہے جن لوگوں نے بیمہ نہیں کروایا ہوتا ان کو بھی حادثات پیش آتے ہیں ان کا بھی جانی اور مالی نقصان ہو جاتا ہے ان کی بیویاں بھی بیوہ ہو جاتی ہیں ان کے بچے بھی یتیم ہو جاتے ہیں کیا پھر بیمہ کمپنیاں ان کے ساتھ تعاون کرتی ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں1 آخر کیوں؟ صرف اسی لیے کہ انہوں نے بیمہ نہیں کروایا نہ وہ مخصوص رقم جمع کرواتے ہیں۔
ہاں اسلام کے نظام صدقہ زکوٰۃ کو تعاون کی ایک صورت قرار دے سکتے ہیں کیونکہ وہ مستحقین کو دیے جاتے ہیں ان سے اس کے معاوضہ میں کچھ وصول نہیں کیا جاتا بلکہ صدقہ زکوٰۃ دینے والوں پر پابندی ہے جن کو وہ صدقہ زکوٰۃ دے رہے ہیں انہیں کسی قسم کی اذیت نہیں پہنچانی اور نہ ہی ان پہ احسان جتلانا ہے ورنہ ان کا صدقہ زکوٰۃ باطل ہو جائیں گے۔
اگر کوئی بیمہ کو تعاون کی صورت قرار دینے پر مصر ہو تو اس کی خدمت میں گزارش ہے کہ اسلام نے تعاون کی اس صورت کو بوجہ جوا، اور سود ناجائز اور حرام قرار دے دیا ہے دیکھئے کوئی آدمی یا کمپنی کسی کا مال چوری کر کے یا چوری کروا کے لوگوں میں تقسیم کرے کچھ تھوڑ ا بہت معاوضہ قسطوں کی صورت میں ان سے لے لے اور اس کو تعاون و ہمدردی کا نام دے لے تو آیا تعاون کی یہ صورت جائزہو گی؟ نہیں ہر گز نہیں1 بالکل اسی طرح بیمہ بھی بجمیع اقسامہ ناجائز اور حرام ہے۔ جتنی رقم آپ نے جمع کروائی اتنی ہی واپس لے لیں او ربیمہ چھوڑ دیں۔
(۲)… اس معاوضہ کا نام اسلام میں دیت ہے اور دیت لینا دینا کتاب و سنت کی رُو سے درست ہے ، حلال اور جائز ہے ، لہٰذا آپ یہ معاوضہ دیت لے سکتے ہیں۔
(۳)… نہیں لے سکتی کیونکہ یہ بھی سود ہی ہے اور سود حرام ہے۔
(۴)… مکان زمین کا کرایہ وصول کرنا جائز اور درست ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زمین کرایہ پر دی جاتی تھی1 یہ سود کے زمرہ میں شامل نہیں جیسے اسلامی اصول کے مطابق بیع و شراء اور تجارت سود نہیں۔
۷/۱۰/۱۴۲۰ھ