گروی جانور پر سواری کرنا اور اس کا دودھ پینا درست ہے
(( وَقَالَ مُغِیْرَۃُ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ: تُرْکَبُ الضَّالَّۃُ بِقَدْرٍ عَلَفِھَا ، وَتُحْلَبُ بِقَدْرِ عَلَفِھَا ، وَالرَّھْنُ مِثْلُہٗ ))
’’اور مغیرہ نے بیان کیا اور ان سے ابراہیم نخعی نے کہ گم ہونے والے جانور پر( اگر وہ کسی کو مل جائے تو) اس پر چارہ دینے کے بدلے سواری کی جائے( اگر وہ سواری کا جانور ہے) اور ( چارے کے مطابق) اس کا دودھ بھی دوہا جائے ( اگر وہ دودھ دینے کے قابل ہے)ایسے ہی گروی جانور پر بھی۔‘‘
(( حَدَّثَنَا أَبُوْ نُعِیْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا عَنْ عَامِرٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: ’’الرَّھْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہِ ، وَیُشْرَبُ لَبَنُ الدَّر إِذَا کَانَ مَرْھُونًا)[طرفہ فی:۲۵۱۲]
’’ ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا ، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا گروی جانور پر اس کا خرچ نکالنے کے لیے سواری کی جائے ، دودھ والا جانور گروی ہو تو اس کا دودھ پیا جائے۔‘‘
(( حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ أَخْبَرَنَا زَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم (الرَّھْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُونًا ، وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُونًا ، وَعَلَی الَّذِیْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ)) [راجع:۲۵۱۱]
’’ ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں زکریا نے خبر دی ، انہیں شعبی نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پیے وہی اس کا خرچ اُٹھائے۔‘‘
o:…شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ lاور امام ابن قیم kاور اصحاب حدیث کا مذہب یہی ہے کہ مرتہن شے مرہونہ سے نفع اُٹھا سکتا ہے۔ جب اس کی درستی اور اصلاح اور خبر گیری کرتا رہے۔ گو مالک نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور جمہور فقہاء نے اس کے خلاف کہا ہے کہ مرتہن کو شے مرہونہ سے کوئی فائدہ اُٹھانا درست نہیں۔ اہلحدیث کے مذہب پر مرتہن کو مکان مرہونہ بعوض اس کی حفاظت اور صفائی وغیرہ کے رہنا ، اسی طرح غلام لونڈی سے بعوض ان کے نان اور پارچہ کے خدمت لینا درست ہو گا۔ جمہور فقہاء ا س حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے ۔ اہلحدیث کہتے ہیں اوّل تو یہ حدیث ضعیف ہے ۔
اعلام الموقعین
۷۲ ویں مثال ، ستاونویں حدیث:
جس کے پاس کوئی جانور رہن ہو اور اس کا چارہ اسی کے ذمے ہو اسے جائز ہے کہ اس پر سواری لے اور اس کے تھن کا دودھ پیے۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: رہن کے خرچ کی بناء پر سواری کی جائے گی جبکہ وہ رہن میں ہے اور تھن کا دودھ بھی ، اسی خرچ کی بناء پر پیا جائے گا جبکہ وہ رہن میں ہے سواری کرنے والے اور پینے والے پر خرچ ہے ۔ یہ حدیث بخاری شریف کی ہے صحیح ہے ، صاف ہے ، صریح ہے ، سراسر عدل و انصاف والا یہ حکم ہے ، اگر اسے ٹال دیا جائے تو علاوہ اس کے کہ ایک حکم شرع ٹلے گا۔ ایک قانون الٰہی بدلے گا ،ایک سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمترک ہو گی ، عدل و انصاف کا بھی خون ہو گا اور رہن رکھنے والا رہن رکھوانے والا دونوں مصیبت میں آجائیں گے۔ مثلاً کسی نے اپنا جانور دس بیس روپے بدل کسی کے پاس گروی رکھا اب یہ روپیہ لے کر کہیں چل دیا جس کے پاس جانور رہن رکھا ہے اسے تم وہ حکم اور حق نہیں دیتے جو حدیث نے دلوایا ہے تو اب بتلاؤ اس کے لیے کس قدر مشکلات ہیں؟ایک طرف رقم رُکی دوسری طرف جانور کھونٹے سے بندھا ہوا بھوکا پیاسا کھڑا ہے اس کی سنبھال، اس کی خوراک اس پر نہ صرف مشکل ہے بلکہ سوہانِ روح بنی ہوئی ہے ، دوسری مصیبت میں آ پڑا ہے۔ نہ کھلائے تو بے زبان جانور کی آہ نکلے ، کھلائے تو کس سے لینے جائے؟ وہاں تو اصل رقم کے ابھی تک لالے پڑے ہوئے ہیں ، اب یہ کس حاکم کے پاس جائے کہاں سے اس کا ثبوت لائے کہ یہ جانور فلاں کا ہے اتنی رقم وہ مجھ سے لے گیا یہ میرے پاس رہن رکھ گیا اب وہ ملتا نہیں ، اللہ جانے کہاں چلا گیا ہے پھر یہ حساب کسی منشی سے جڑوائے کہ آج اس نے اتنا کھایا اور دودھ اتنا دیا۔ جناب حاکم صاحب توجہ فرمائیں اور مجھے حکم دیں۔
آہ! کن مشکلات میں اُمت کو ان قیاسی حضرات نے ڈال دیا ہے اللہ کے آسان اور سہل دین کو ان لوگوں نے کتنا مشکل اور سخت کر دیا ہے؟ کس قدر حرج اور مشقت انسانوں پر ڈال دی ہے۔ شارع علیہ السلامکے قربان جائیں اس کا فیصلہ کتنا پیارا، کس قدر سادہ، کتنا صاف اور عقل کے مطابق ہے جس میں نہ اس کو حرج نہ اس پر مشقت۔ صاف لفظوں میں فرمایا کہ دودھ پیو اور سواری لو اور جانور کے اخراجات برداشت کرو۔ اگر ان قیاسی حضرات کے ذہن بگڑے ہوئے نہ ہوتے اگر ان کی عقل میں گھن لگا ہوا نہ ہوتا تو صحیح قیاس بھی یہی تھا۔ جو حدیث میں ہے اگر بالفرض یہ حدیث نہ بھی ہوتی تو بھی ہر عاقل یہی حکم لگاتا جس میں سہولت اور عدل ہے دیکھئے اس میں دو اصل ہیں جن پر حکم نکلا ہے ، اصل اوّل جانور جس کے پاس رہن ہے وہ جو خرچ کرتا ہے اور جو اسے چارہ دیتا ہے وہ دراصل جانور والے کے ذمے اُدھار ہے اس کی ادائیگی اسی پر ہے یہ ظاہر ہے کہ ہر وقت دانے چارے پر گواہ مقرر کرنا حاکم کی اجازت لینا دشوار ہی نہیں بلکہ تقریباً محال ہے پس شارع علیہ السلام نے اسے جائز کر دیا کہ یہ اپنا قرض اس جانور کی سواری سے اور اس کے دودھ سے وصول کر لے اسی میں دونوں کی مصلحت اور آسانی ہے ، اگر یہ سواری چھوڑ دے دودھ نہ نکالے تو جانور بگڑ جائے گا۔ دودھ نکال کر پھینک دے تو ’’ تو کونہ مو کو چولے میں جھونکو ‘‘ ہو گا۔ نہ اس کے مکھ پڑے گا نہ اس کے ہاتھ لگے گا۔ دونوں کا نقصان ہو گا اور بے زبان جانور الگ تباہ ہو گا۔ کہاں ہر وقت حاکم کی اجازت لیتا رہے گا۔ کون سا حاکم ان بے جان باتوں کے لیے اجلاس میں بیٹھا رہے گا پھر آپ اسے بھی تو دیکھئے کہ عموما بکریاں دیہاتوں اور گاؤں میں گروی رکھی جاتی ہیں وہاں کون سے حاکم اور عدالتیں ہیں اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلمنے ان معاملات کو خود طے کر دیا اور حکام اور عدالتوں کی ضرورت ہی نہ رہنے دی خواہ وہ ہوں یا نہ ہوں؟ اصل دوم دومعاوض ہیں جن میں سے ایک حاضر نہیں پس اس کی عدم موجودگی میں معاوضہ لے لینا اس لیے جائز قرار دیا گیا کہ ضرورت ہے اور مصلحت ہے بیچنے والے کی رضا مندی بغیر حق شفعہ سے لے لینے سے تو یہ زیادہ اولیٰ ہے ، اس معاوضہ سے نہ لینے میں جو حرج اور نقصان ہے وہ اس سے بہت بڑا اور بہت سوا ہے جو حق شفعہ کے بدل لینے کے چھوڑنے میں ہے جس کے پاس جانور رہن ہے وہ اس کی حفاظت کر رہا ہے تاکہ سند اور چیز بدلے کی محفوظ رہے جس سے اس کی رقم واپس ہو یہ اسی وقت ممکن ہے جب جانور باقی رہے اور جانور کی بقاء اس پر موقوف ہے کہ اس کا دانہ جاری رہے اور یہ اسکی گرہ کے روپے پیسے سے ہی آئے گا اس لیے جس طرح شرعاً یہ جائز ہے معلوم ہوا کہ عرفاً اور عادۃً بھی اسے جائز ہی ہونا چاہیے ورنہ دنیا کے دھندے خراب ہو جائیں گے۔
عرف و عادت بھی قائم مقام الفاظ کے ہے:
سو سے زائد وہ مقامات ہیں جہاں یہ بات برابر پائی جاتی ہے مثلاً: (۱)جس جگہ جو سکہ رائج ہے بول چال میں جب مطلق کہا جائے گا وہاں کا جاری سکہ ہی مراد لیا جائے گا۔ گو الفاظ نہ کہے گئے ہوں۔ (۲) مہمان کے سامنے کھانا رکھا جاتا ہے اس کے کھا لینے کی اجازت ہو گی گو لفظ نہ بولے جائیں۔ (۳)گری پڑی چھوٹی ادنیٰ چیز کھانے پینے کی مل جائے تو اس کا استعمال جائز ہی ہو گا۔ گو لفظ میں اجازت نہ ہو۔ (۴) پانی اگر کسی نالی یا نالے سے گزر رہا ہو تو اسے پی لیا جائے گا گو پانی والے سے لفظوں میں اجازت نہ بھی ملی ہو۔ (۵)حمام میں بلا اُجرت ٹھہرائے چلے جانا۔ (۶)اسی طرح کسی کھیت میں سے گزر رہا ہے اور پاخانہ کی حاجت ہوئی تو بے شک وہیں کر لے کیونکہ عرف عام میں یہ ہے کھیتی والے سے اجازت اگرچہ لفظاً نہ بھی ہو ۔ جملہ اُمور کی جگہ نہیں ملتی یا ملتی ہے لیکن وہ راستہ آباد ہے۔ (۷)ٹھیک ا سی طرح کسی کے کھیت میں بوقت نماز نماز پڑھ لینا۔ (۸)یا وہاں کی مٹی سے تیمم کر لینا کہ یہ سب چیزیں بلا اجازت مالک دستور عام کے مطابق ہوا کرتی ہیں ، پس شرع نے اس میں کوئی حرج نہیں کی۔ (۹)اسی طرح دیکھتا ہے کہ کسی کی بکری مر رہی ہے اس نے اُٹھ کر چھری پھیر دی کہ اس کا گوشت ہی اس کے مالک کے کام آئے ، اس کی اجازت نہیں لیکن چونکہ عرف عام میں یہ بھلائی ہے اس لیے شرعاً بھی جائز ہے گو بعض خشک فقہاء نے اسے ناجائز کہا ہے کہ یہ غیر کی ملک میں تصرف ہے۔
الغرض عرف کے بدلے احکام کا تبدل یقینی چیز ہے ۔ جب عرف و دستور پلٹ گیا تو تم کتاب کے کیڑے اور اگلوں کے مقلد بن کر ہی نہ رہو ، فتوے کو بھی بدل دو۔ خیال رہے کہ کوئی بیرون ملک کا سائل تیرے ہاں آئے تو تو اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اسے روپیہ دے دیا کر بلکہ اس کا عرف اور محاورہ معتبر مان کر اس سے دریافت کر لے اور اسی پر فتوی دے نہ کہ اپنے ہاں کے عرف پر اور نہ اپنے اگلے فقہاء کی تقلید پر یہی حق بات ہے ۔ اگلوں کی کتابوں پر اوندھے پڑے رہنا اور مکھی پر مکھی مارتے چلے جانا۔ اس سے بد تر گمراہی تو کوئی نہیں یہی ہے علماء سلف صالحین اور مسلمین کے مقاصد کو نہ سمجھنا۔ پس اس قاعدے پر ہو سکتا ہے کہ صراحت کنایت ہو جائے اور کنایت کسی وقت صراحت میں آ جائے پس جبکہ کسی نے کہا کہ بیعت کی قسمیں مجھ پر لازم ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ ان اگلے بادشاہوں کی اصطلاح ہی معتبر مانی جائے جبکہ اس مسکین کی نیت و قصد میں وہ چیز ہی نہیں اگر ایسا ہے تو ان کے وقت کے بیو پار تجارت کے قانون کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ ہر جگہ کا مروج سکہ اور مروج ناپ تول وغیرہ کو کیوں لے لیا گیا ہے ۔ پس عرف کے مطابق حکم کرو کوئی قرینہ ہے تو اس پر حمل کر دو ، نیت اور بساط کا ضرور اعتبار کرو۔ اگر یہ چیز نہیں تو خواہ مخواہ اسے فتوے کے بوجھ تلے نہ دبا لو۔ جو شخص قرائن ، عادات ، عرف ، دستور کو دیکھے بغیر صرف کتب فقہ کے فتووں پر فتوے دیتا ہے اس سے بڑھ کر گمراہ اور گمراہ کرنے والا کوئی نہیںـ۔ اس دین الٰہی کو جو نقصان پہنچے گا وہ یقینا اس نقصان سے سینکڑوں حصہ زیادہ ہے جو ایک جاہل طبیب کے ہاتھوں مختلف مزاج اور مختلف ملک کے رہنے والوں کو اس صور ت میں پہنچ سکتا ہے کہ وہ ایک ہی کتابی نسخہ سب کو دیتا ہے یہ جاہل طبیب لوگوں کی جانوں کا دشمن ہے اور یہ جاہل فقیہ مسلمانوں کے ایمان کا دشمن ہے۔
سلف صالحین کے زمانے میں یہ غلیظ قسمیں نہ تھیں۔ یہ بدعتی قسمیں تو ان جاہلوں نے نکال رکھی ہیں اسی لیے اہل علم کی ایک جماعت کا قول ہے کہ ان واہی قسموں سے کوئی چیز لازم نہیں ہوتی۔ علماء کرام کی ایک جماعت کا یہی فتوی ہے اور متاخرین میں سے تا ج الدین ابو عبداللہ ارموی مصنف کتاب الحاصل کا فتوی بھی یہی ہے۔
از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب ، حفظہما اللہ الحمید المجید۔وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اما بعد! خیریت موجود عافیت مطلوب۔ آپ کا سورۂ مائدہ کی آیت ۸۷، سورۂ نحل کی آیت : ۱۱۹ اور سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱ بزعم شما کو اس موقع پر چسپاں کرنا بے محل ہے ، اسی طرح مشکاۃ والی احادیث اس مقام پر پیش کرنا مفید نہیں۔ جلال الدین سیوطی کی بات بھی نفع بخش نہیں کیونکہ ربا و سود کو تو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح ملا علی قاری کی بات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سود و ربا کی حرمت پر نص موجود ہے۔ اسی طرح ابن عابدین کی بات آپ کے لیے تب مفید ہو سکتی ہے جبکہ آپ نے پہلے ثابت کر دیا ہو کہ ارض مرہونہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے دور میں فائدہ اُٹھایا جاتا تھا اور راہن ارض مرتہن کو پیسے بھی پورے ادا کرتا تھا اور یہ چیز ابھی تک آپ نے ثابت نہیں فرمائی۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو عبارات آپ نے پیش فرمائی ہیں ان کا سیاق و سباق اسی چیز پر دلالت کرتا ہے کہ حافظ صاحب ان عبارات میں سواری اور لویری کے مرہون ہونے کی صورت میں ان سے فائدہ اُٹھانے سے انکار کرنے والوں کا رد فرما رہے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کر رہے ہیں ، حافظ ابن قیم کی ان عبارات میں ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے کے جواز والی کوئی بات نہیں ۔ باقی حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عبارت آپ نے پیش نہیں فرمائی۔
صحیح بخاری مترجم کا آپ نے ایک صفحہ فوٹو کاپی کرا کے بھیجا ہے تو اس میں باب ہے ’’ گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے۔‘‘ باب کے نیچے دو حدیثیں بیان ہوئی ہیں ان میں بھی یہی بیان ہو اکہ گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدلے سواری کی جائے اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدلے اس کا دودھ پیا جائے ‘‘ تو باب اور حدیث میں جانور گروی ہونے کی بات ہے وہ سواری کا جانور ہو خواہ دودھ کا جانور ہو۔ ارض مرہونہ کی بات نہ باب میں ہے نہ حدیث میں۔
باقی رہی نیچے مولانا داؤ صاحب راز رحمہ اللہ تعالیٰ کی تشریح تو اس میں انہوں نے مذاہب ذکر کیے ہیں ، آپ خود ہی لکھتے ہیں: ’’ہاں مقلد میں نہیں ہوں‘‘ مولانا موصوف نے کوئی آیت یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی کوئی حدیث کہ ’’ارضِ مرہونہ سے فائدہ اُٹھایا جائے اور قرض دیے ہوئے پیسے بھی پورے لیے جائیں‘‘ پیش نہیں فرمائی۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں’’جمہور فقہاء ا س حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ اہلحدیث کہتے ہیں اوّل تو یہ حدیث ضعیف ہے ۔‘‘ یہ روایت تو واقعی ضعیف ہے تو آیا اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک لاکھ قرض دے کر سوا لاکھ وصول کر ے تو سود نہیں ؟ وہ کون سے اہل حدیث ہیں ان کے نام تو ذکر فرمائیںـ۔ اور معلوم ہے کہ ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے والے اور قرض دیے ہوئے پیسے پورے وصول کرنے والے لاکھ دے کر سوا لاکھ وصول کرنے والوں میں شامل ہیں ، مرہون جانور سواری یا لویری سے خرچہ کے بدلے فائدہ اُٹھانے کی نص صحیح آ گئی ہے اس لیے وہ درست ہے۔
میری کتاب احکام و مسائل اور آپ کو ارسال کردہ مکتوبات میں کوئی تضاد تعارض نہیں دونوں میں یہی بات ہے ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانا سود نہ بنے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔ جانور والی حدیثیں جیسی کتاب میں ہیں ویسی خط میں اور جیسی خط میں ویسی کتاب میں۔ ذرا غور فرمائیں بات واضح ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
آپ لکھتے ہیں ’’ آپ کی بند والی دلیل لغو ہے‘‘ آپ کے کہنے سے تو کوئی چیز لغو نہیں ہو جائے گی ، آپ فرماتے ہیں: ’’ اکابرین اہل حق امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم الانتفاع بالرھن کو جائز ثابت کرتے ہیں‘‘ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی تو کوئی عبارت آپ نے ابھی تک پیش ہی نہیں فرمائی اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو عبارات آپ نے پیش فرمائی ہیں وہ مرہون جانور سواری یا لویری سے انتفاع پر دلالت کرتی ہیں۔ اور ان کی کوئی ایسی عبارت جو ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے اور قرض دیے ہوئے پیسے بھی پورے لینے پر دلالت کرتی ہو ابھی تک آپ نے پیش نہیں فرمائی۔ آپ لکھتے ہیں:’’آپ بتائیں کہ کس بنیاد پر حرام کرتے ہیں‘‘ پہلے بھی لکھ چکا ہوں ، اب بھی کہ ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانا سود نہ بنے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔ تو سود کی بنیاد پر حرام کہتا اور لکھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}
آپ لکھتے ہیں:’’اگر مذکورہ عالم آپ کو اپنے سے کم علم نظر آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ … الخ۔‘‘ دیکھئے امام مالک ، امام شافعی ، امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ تعالیٰ کئی ایک چیزوں کو حلال کہتے ہیں اور آپ انہیں حرام سمجھتے ہیں کیونکہ آپ کسی کے مقلد نہیں تو آپ سے بھی یہ کہا جائے’’ ’’اگر مذکورہ عالم آپ کو اپنے سے کم علم نظر آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ … الخ۔ ‘‘آیا یہ انصاف ہے؟ مذکورہ عالم حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ تعالیٰ کی ابھی تک آپ نے کوئی عبارت پیش نہیں فرمائی جس میں یہ ہو کہ ارض مرہونہ سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے در انحالیکہ قرض دی ہوئی رقم بھی پوری کی پوری وصول کی جائے گی۔ واللہ اعلم
تمام احباب و اخوان کی خدمت میں تحیۂ سلام پیش فرما دیں۔ ۱۷؍۴؍۱۴۲۵ھ
جناب شیخ الحدیث علامہ حافظ عبدالمنان نور پوری کی طرف منجانب صوبیدار ( ر) محمد رشید ، تحصیل و ضلع قصور
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ خیریت موجود خیریت مطلوب
آپ کا نصیحت نامہ ملا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بات بَغْیًام بَیْنَھُمْ والی بن گئی ہے۔ورنہ آپ من گھڑت باتیں میر ے ذمے نہ لگاتے ۔
(۱)ایک لاکھ کے بعد سوا لاکھ لینے کس کافر نے صحیح کہا ہے۔ اگر یہ قول میرا ہے تو فوٹو کاپی بھیجیں میں معافی مانگنے آپ کے دروازے پر آؤں گا۔ جناب فاؤل پلے (جواب صلی الله علیہ وسلم) نہ کریں آپ کاشتکاری کا معروف طریقہ چھوڑ کر (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات نہ کریں) فرضی باتیں نہ کریں۔ وہ شاعر نے کہا تھا کہ
مگس کو باغ میں نہ جانے دینا
ناحق خون پروانے کا ہو گا
لگتا ہے آپ کو انگور میں شراب نظر آرہی ہے اور آپ نے انگور حرام کر دیے۔ سرکار عقول( عقل) کا انحصار قصود( قصد) پر ہوتا ہے ۔ فعل کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے نوعیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ غلط علمی پندار میں حافظ ابن قیم جیسے اکابرین کو رگڑ دیا کہ ان کا قیاس غلط ہے۔حالانکہ ان کا قیاس سو فیصد صحیح ہے اور آپ کا قیاس ایک سو ایک فیصد غلط ہے۔
(۲) آپ کی کتاب اور خط میں صاف تضاد موجود ہے ۔ کہو تو چند وکیلوں اور پروفیسروں کے وضاحتی نوٹ بھیج دوں یہ عام اُردو ہے کوئی پیچیدگی نہیں خط میں حدیث بنداور کتا ب میں جو حکم جانور کا وہی زمین کا ۔ سود بننا نہ بننا الگ بات ہے ۔ آپ اُسے سود ثابت کر دیں کسی ثالث کے سامنے تو سر آنکھوں پر ۔ جناب دل سے آپ مانتے ہیں کہ کاشتکاری میں خرچہ آتا ہے ، فصل تباہ ہونے کا احتمال موجود ہوتا ہے اور اس سے نفع اگر ہو تو سود نہیں بنتا ورنہ فرضی بات لاکھ سوا لاکھ والی میر ے ذمے لگانے سے اجتناب کرتے ۔ یہ خیانت ہے۔
(۳) حافظ ابن قیم کا یہ قیاس ایسے ہی درست ہے جیسے آپ کا دم والی حدیث ( خاص تناظر سے اُٹھا کر) سے نماز ، امامت ، خطابت ، تعلیم قرآن ، نکاح پڑھانے کی اُجرت تک کو صحیح و جائز کہہ دینا۔ بلکہ آپ کا یہ قیاس باطل ہے کیونکہ سارا قرآن پاک اور ذخیرہ حدیث مذکورہ کام کی اُجرت نہ لینے پر شاہد ہے۔ اُف میرے اللہ! یہ ہیں انبیاء کے وارث جو خود نہیں بدلتے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ قریب قریب سار ے انبیاء علیہ السلامکی زبان سے کہلوایا گیا کہ لوگوں دین کی تبلیغ میں میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور یہ میرے حق پر ہونے کی دلیل ہے۔آپ ذرا زحمت اُٹھائیں اور مشکوٰۃ جلد ۱ کا باب علم نکالیں آپ کو سب کچھ نظر آ جائے گا۔ ضد کرنا دوسری بات ہے حق بات حق ہے کوئی مانے نہ مانے۔
(۴) بات تو صرف اتنی ہے کہ کاشتکاری کا مروّجہ طریقے کے بعد اگر نفع ہو تو سود بنتا ہے یا نہیں؟ لیکن اللہ پاک کے دین میں اتنی تروڑ مروڑ کر دی کہ انگور کے اندر شراب نظر آگئی اور حرام لکھ دیا۔ ورنہ لاکھ کے بدلے سوا لینے کی من گھڑت بات میرے ذمے لگانے سے ڈرتے۔ میرے سارے خطوط کی نقلیں موجود ہیں اگر آپ اسے ثابت کر دیں تو پانچ ہزار بطورِ کفارہ آپ کی نذر کروں گا۔
(۵) کتاب میں آپ نے سائل کو معلق چھوڑا ہے۔ اتنی صاف باتوں سے انکار آپ کو زیب نہیں دیتا۔ اس پر بھی وضاحتی نوٹ بھیج دوں۔اتنی دیدہ دلیری اور علماء سے ؟؟؟
(۶) آپ میر ے اُٹھائے گئے ۶،۷،۸،۹ کا جواب لکھنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔آپ کو تحت الشعور میں جواب آتا ہو گا مگر آپ لکھ نہیں سکتے کیوں نہیں لکھ سکتے یہ آپ کو معلوم ہے ۔
(۷) ترہیب کے لحاظ سے بار بار وہ بات آ رہی ہے، اگر لاکھ کے سوا لاکھ لینے سال بعد میں نے جائز لکھا ہے تو مجھ جیسا بے ایمان کوئی نہیں ہے ، اگر آپ غلط طور پر میرے سر لگا رہے ہیں تو اللہ پاک سننے والا اور دیکھنے والا ہے ، وہی اس کا فیصلہ کرے گا ۔ حافظ صاحب آپ کو ڈر نہیں لگتا اتنی علمی خیانت کرتے ہوئے ۔ اللہ اکبر۔ یہ ہیں انبیاء کے وارث عالم؟؟؟
(۸) قصداً گستاخی و بے ادبی سے اللہ پاک کی پناہ مانگتا ہوں۔ لیکن پھر بھی تلخ و ترش باتوں سے معذرت لیکن خلاف واقعہ کوئی ثابت نہیں کر سکتے آپ11
(۹) جو حق سے اعراض کرے وہ یقینا مجرم ہے اور ہم اس سے ضرور انتقام لیں گے۔(القرآن الحکیم)
اللہ پاک ہمیں حق سمجھنے اور اسے مان لینے کی توفیق دے۔ آمین
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسے ایمان سے گزر ایسی نماز سے گزر (اقبال)
(صوبیدار رشید ، قصور)
از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب ، حفظہما اللہ الحمید المجید۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اما بعد! خیریت موجود عافیت مطلوب۔ آپ کا حالیہ مکتوب پڑھا تو آپ کے اسلوب بیان سے اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ سے خط و کتابت کا کوئی فائدہ نہیں۔ واللہ اعلم
تمام احباب و اخوان کی خدمت میں تحیہ ٔ سلام پیش فرما دیں۔ ۹؍۱۰؍۱۴۲۵ھ
منجانب محمد رشید صوبیدار بطرف جناب حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ آپ کا نصیحت نامہ ملا ۔اسلوب نگارش سے ملال کا مجھے دُکھ ہوا۔ لیکن میں بہت پہلے پیشگی معذرت کر چکا ہوں۔جتنی سخت باتیں لکھیں وہ میر ے لیے تھیں۔ آپ کس نیت سے جواب لکھتے ہیں وہ اللہ پاک کے حوالے ہے۔ لیکن یہ بات تو بہر حال ہے کہ آپ سیدھے اور صاف سوال کے جواب سے کترا رہے ہیں ورنہ بات صرف اتنی ہے کہ صور ت مذکورہ سود بنتی ہے یا نہیں؟ خط و کتاب کا سلسلہ منقطع نہ کریں اور سوال سوالرضوان اللہ علیھم اجمعین سوال جواب دیں مہربانی ہو گی۔ سود پر بہت کچھ لکھا ہوا ہے کہیں سے کوشش کریں اور دلیل لائیں۔ حافظ صاحب جو سود کو قصداًجائز سمجھتا ہے وہ بھلا کہاں مسلم ہے؟ آپ خفا نہ ہوں اور حق و باطل کو نہ کریں۔ ایک اور طرح سے دیکھیں۔ عرف شرع میں معتبر ہے نا امام ابن تیمیہ ’’الصراط المستقیم ‘‘ میں لکھتے ہیں: ((الاصل في العادات ان لا یحظر الاما حظرہ اللہ )) ابن ہمام’’فتح القدیر ‘‘ میں لکھتے ہیں: ((العرف بمنزلۃ الاجماع عند عدم النص)) حدیث مبارک میں آتا ہے نا درھم و دینار کا بندہ …… تو کوئی کہہ سکتا ہے اب درھم و دینار تو نہیں ہیں۔ اب تو کاغذ کے ٹکڑے(نوٹ) ہیں۔ تویہ حدیث معطل ہو گئی۔ نہیں بلکہ اس وقت عرف درھم و دینار تھا اب بدل کر ( نوٹ) ڈالر، پونڈ ہو گئے تو یہ بھی اسی حکم میں لازماً ہیں۔ جب عرف جانور رہن کا تھا ٹھیک تھا اب عرف زمین ، مکان ، کار ، سونا وغیرہ ہے تو ان کا بھی یہی حکم ہونا عقل و دانش کا تقاضا ہے۔آپ ذرا غور فرمائیں: سواری اور لویری گروی دینا زمین کی نسبت زیادہ تکلیف دہ ہے۔ مذکورہ چیزوں سے چند گھنٹے بعدنفع مل گیا ، مثلاً لویری کو 20 روپے کا گھاس ڈالیں اور 24 گھنٹوں میں 200 روپے کا دودھ جائز ہے یا نہیں؟ زمین سے فوری نفع کا کوئی امکان نہیں ، بلکہ چھ ماہ بعد فائدہ ہو نہ ہو ، دونوں باتیں ہو سکتی ہیں۔ میں عرض کرتاہوں کہ ان کا موازنہ کریں اور اگر لازماً آپ نے اُسے حرام ہی کہنا ہے تو پہلے سواری ، لویری سے فائدہ کو حرام کریں ورنہ یہ مضحکہ خیز بات بنتی ہے۔ یہ بات نصاً ، علماً ، عقلاً ، شرعاً ، عرفاً اسی کی ( رضی الله عنہرضوان اللہ علیھم اجمعین صلی الله علیہ وسلم رضی الله عنہ) کرتی ہے۔کسی چیز کو جائز یا ناجائز اس کی علت غائیہ کی وجہ سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً عورت کو جھنکار والا زیور پہن کر باہر نکلنا منع ہے۔ لیکن بذاتِ خود زیور پہننا کوئی معیوب نہیں ،لیکن اس سے خطرہ ہے کہ زنا کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔اس لیے منع ہے ۔ کسی کی طرف ہتھیار سیدھا کرنا منع ہے اس کی علت منع کسی کا زخمی ہو جانا ہے ، چلیں اسے بھی رہنے دیں ، آپ کے دو مایۂ ناز شاگرد ہیں ، مبشر ربانی صاحب اور نواز چیمہ صاحب ۔یہ شاگرد آپ کے ہیں میں اُن کو حکم مانتا ہوں ، آپ اتنی تو زحمت کر لیں کہ صورت مذکورہ ثابت نہ سہی صرف لکھا دیں کہ یہ سود ہے ۔ دونوں سے میںمزید کوئی بات نہیں کروں گا۔ پھر یہ مقدمہ اللہ پاک کی عدالت میں چلے گا کہ حرام کیسے ہے اور حلال کیسے ؟ وہاں کے لیے دلائل جمع کریں گے یا پھر دیانت داری سے تمام من و عن خطوط اپنے بھی اور میرے بھی ، اپنی کتاب کی دوسری جلد میں شائع کرا دیں ، قارئین خود فیصلہ کرلیں گے۔ اگر آپ کے پاس خطوط کی نقلیں نہ ہوں تو مجھے بتائیں میں بھیج دوں گا۔ ان شاء اللہ ۔ اگر کوئی بات ناگوار لگے تو معذرت قبول کریں ۔ اور میں اللہ پاک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی یا کسی مسلمان کی قصداً توہین کروں۔ دوسرے مسلمان کو حقیر جاننا ہی سب سے بڑا سود ہے۔ یہ حدیث یاد ہو گی آپ کو۔ تمام احباب کو سلام عرض ہے۔ اُمید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے اور حسب روایت لازماً جواب دیں گے ۔ اللہ پاک صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (جواب کا منتظر ، محمد رشید )
از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب ، حفظہما اللہ الحمید المجید۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اما بعد! خیریت موجود عافیت مطلوب۔ آپ کی تمام باتوں کا جواب یہ فقیر الی اللہ الغنی اپنی تحریرات سابقہ میں دے چکا ہے مگر آپ تسلیم نہیں کرتے ، اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔
آپ نے مولانا مبشر احمد صاحب ربانی اور مولانا محمد نواز صاحب چیمہ کا تذکرہ فرمایا ہے تو جناب کی خدمت عالیہ میں گزارش ہے کہ میری تحریرات آپ کے پاس موجود ہیں تو میری اور اپنی تحریرات ان دونوں عالموں یا کسی اور عالم کو پڑھا کر پوچھ لیں۔ آپ کو کھلی چھتی ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ پر کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمام احباب کی خدمت میں تحیہ ٔ سلام پیش فرما دیں۔ ۵؍۱۱؍۱۴۲۵ھ
منجانب رشید بطرف جناب حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا خط ملا ، حالات سے آگاہی ہوئی ، آپ کا واضح جواب سے گریز میر ے لیے تشویش کا سبب بنا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ اس سے گریز کر رہے ہیں ، میں نے پورے خطوں کی فائل کئی بار پڑھی ہے ۔ رہن زمین سے فائدہ اُٹھانا سود ایسے بنتا ہے کسی خط میں نہیں لکھا ہوا۔ مجھے آپ کے اخلاص پر مان ہے ، آپ مہربانی فرما کر دوبارہ ہی سہی لیکن جواب دیں کہ اس طرح سود بنتا ہے ۔ آپ کے شاگردوں سے میری بات ہو چکی ہے ، آپ کی سہولت کے لیے میں نے لکھا تھا کہ چیمہ صاحب تو آپ کے پاس ہیں ۔ انہیں بلا کر لکھوا کر مجھے بھیج دیں کہ زمین سے الانتفاع یوں سود بنتا ہے ۔ حشر میں حساب نیّتوں کے مطابق ہو گا۔ ہم میں سے جو بھی ایسا ہوا جو قصداً صحیح بات سمجھنے سے اعراض برت رہا ہے ، وہ یقینا اچھا آدمی نہیں ہے ۔ اللہ پاک ہمیں صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
نواز چیمہ صاحب ہمارے ثالث ٹھہرے۔ حضرت صاحب! آپ نے مباحثہ سے گریز کیا ۔ شرعی کورٹ سے فیصلہ لینے میں آپ نے تعاون نہ کیا ۔ ثالثوں کے سامنے اپنا اپنا مؤقف بیان کرنا آپ نہ مانے ، پھر آپ اپنے تحریر شدہ جواب کی وضاحت سے انکار کر رہے ہیں۔ آخری دونوں خطوں میں کوئی بات لکھی ہی نہیں موضوع کے متعلق۔ میں پھر التماس کرتا ہوں کہ صرف اتنا بتا دیں کہ زمین سے الانتفاع سود ہے یا نہیں؟ کیونکہ سود کی بنیاد پر ہی آپ اُسے حرام کہہ رہے ہیں۔ اگر آپ نے حسب سابق میرے خط کشیدہ الفاظ کا جواب نہ لکھا تو ان شاء اللہ بروز حشر و نشر اللہ پاک کے سامنے عرض کروں گا کہ آپ کے صاحب علم عالم سے میں نے بہت دفعہ پوچھا مگر انہوں نے متعین جواب دینے سے قصداً ٹال مٹول کیا ۔ پلیز حافظ صاحب اس دفعہ مایوس نہ کریں۔
نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے یارب یہ میری بات
دے دل ان کو اور یا دے مجھ کو زبان اور (غالب)
نوٹ:… نواز چیمہ صاحب گواہوں کے سامنے آپ کی بات کی تردید کر چکے ہیں کہ یہ سود ہرگز نہیں بنتا۔ آپ خود معلوم کر لیں۔ ہم میں سے جو غلط ہو وہ اب کسی لا علمی کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ باہمی ضد کی وجہ سے ہو گا۔ العیاذ باللہ۔
ان شاء اللہ مجھے اُمید ہے کہ آپ مثبت جواب دیں گے ہو سکتا ہے میں غلط ہوں ، ایک مومن دوسرے کے لیے آئینہ کی مانند ہے ۔(حدیث )جیسے آئینہ لباس و چہرے کے نقائص بتاتا ہے ، دکھاتا ہے ، مومن دوسرے کی غلطیاں بتاتا ہے اور یہی تحقیق ہی جہاد کی طرح ہے۔ (حدیث)
از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب ، حفظہما اللہ الحمید المجید۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اما بعد! خیریت موجود عافیت مطلوب۔ آپ کی تمام باتوں کا جواب میری تحریرات میں موجود ہے جو تحریرات آپ کے پاس پہنچ چکی ہیں ۔ باقی آپ نہ سمجھیں تو اس میں میرا قصور؟
پھر آپ کا لکھنا ’’صرف اتنا بتا دیں کہ زمین سے الانتفاع سود ہے یا نہیں؟ ‘‘ ان الفاظ کے نیچے خط لگا کر آپ کا لکھنا ’’ میرے خط کشیدہ الفاظ کا جواب نہ لکھا تو …… الخ کس چیز کی غمازی کرتا ہے؟
تمام احباب و اخوان کی خدمت میں تحیہ ٔ سلام پیش فرما دیں۔ ۲۴؍۱۱؍۱۴۲۵ھ