احکام و مسائل ص:۳۶۳ میں زمین مذکورہ حدیثوں میں شامل کی ہے جن سے رہن شدہ سواری اور لویری سے بعوض خرچہ کے نفع جائز ہے ۔ خط میں حدیثوں کو بند کیوں کیا جانور پر؟ علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ غیر منصوص مسائل میں عرف و رواج معتبر ہے بشرطیکہ وہ نص کے خلاف نہ ہو۔
قرض پر اضافہ لیا جاتا تھا اور میعاد میں اضافہ سے سود میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔(مؤطا امام مالکؒمع تنویر الحوالک جلد۲،ص:۸۰)
ربا میں دو شرطیں لازم ہیں : قرض پر اضافہ بطورِ شرط لیا جائے ، (۲) مہلت کے ساتھ قرض میں اضافہ ہوتا رہے ۔(شرح المعانی الاثار از امام طحاوی جلد۲،ص:۲۳۲۔ احکام القرآن) (صوبیدار محمد رشید ، قصور)
۱۔ آپ فرماتے ہیں : ’’احکام و مسائل ص:۳۶۳ میں زمین مذکورہ حدیثوں میں شامل کی ہے جن سے رہن شدہ سواری اور لویری سے بعوض خرچہ کے نفع جائز ہے خط میں حدیثوں کو بند کیوں کیا جانور پر؟ تو محترم مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس فقیر الی اللہ الغنی نے احکام و مسائل کے ص:۳۶۳ پر کسی اور صفحہ پر اور اپنی کسی کتا ب کے کسی صفحہ پر ارض مرہونہ کو مرہون جانور سے بعوض نفقہ فائدہ اُٹھانے والی حدیث میں شامل نہیں کیا۔ دیکھئے جناب نے خود احکام و مسائل کی عبارت نقل فرمائی ہے کہ ’’سواری اور لویری پر خرچہ کے عوض نفع تو نص میں جائز ہے اس کے علاوہ اشیاء مرہونہ سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے زمین بھی ان میں شامل ہے بشرطیکہ وہ سود نہ ہو۔‘‘ آپ کی اس نقل کردہ عبارت میں بھی ارض مرہونہ کو مرہون جانور والی حدیث میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ ’’ اس کے علاوہ اشیائ… الخ‘‘ کہہ کر ارض مرہونہ کو مرہون جانور والی روایت سے خارج کیا گیا ہے اور ربا و سود کو حرام قرار دینے والی نصوص ، آیات و احادیث کے پیش نظر ’’ وہ سود نہ ہو‘‘ والی شرط لگائی گئی ہے۔ لہٰذا آپ کا مکرر لکھنا ’’احکام و مسائل ص:۳۶۳ میں زمین کو مذکورہ حدیثوں میں شامل کیا ہے…الخ‘‘ سراسر کج بحثی ہے شرح صدر سے شرع سمجھنے والی کوئی بات نہیں۔
آپ لکھتے ہیں’’ربا کی تعریف:… قرض پر اضافہ لیا جاتا تھا اور میعاد میں اضافہ سے سود میں بھی اضافہ ہوتا تھا‘‘ ’’ربا میں دو شرطیں لازم ہیں : قرض پر اضافہ بطورِ شرط لیا جائے ، (۲) مہلت کے ساتھ قرض میں اضافہ ہوتا رہے‘‘ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سونے کے ساتھ سونے کی ، چاندی کے ساتھ چاندی کی متفاضلانہ نقد بنقد بیع اور ردی کھجور کے دو صاعوں کی برنی کھجور کے ایک صاع کے ساتھ بیع کو ربا سود قرار دیا ہے ۔ جبکہ جناب والی تعریفوں کے مطابق یہ تینوں صورتیں ربا سود نہیں تو جناب بتائیے آپ کی تعریفیں درست ہیں؟ کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکا ان تینوں صورتوں کو ربا سود قرار دینا درست ہے؟ شرح صدر کا کیا تقاضا ہے؟ جناب کاہی پیش کردہ شعر ہے
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بین سے وہ رند بادہ خوار اچھا
اس فقیر الی اللہ الغنی نے پوری پوری کوشش کی ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا کلمہ استعمال نہ کیا جائے جو جناب کی طبیعت پر گراں گزرے تاہم انسان ہوں کوئی بات ایسی ہو گئی ہو تو معذرت خواہ ہوں امید ہے آپ محسوس نہیں فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ تبارک و تعالیٰ جل و علا۔ ۲۴/۱۱/۱۴۲۳ھ
محترم و مکرم حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ۔
حافظ صاحب 1 آپ کو یاد ہو گا کہ انتفاع بالرھن کے مسئلے پر ہمارے درمیان نصف درج خطوط کا تبادلہ ہوا لیکن میری تسکین(رضوان اللہ علیھم اجمعینسوالisfرضوان اللہ علیھم اجمعین رضی اللہ عنہماسوال)نہیں ہوئی ۔ تھوڑی سی نصیحت دینے کی گستاخی کر رہا ہوں ۔ اکثر بلکہ سب اہل حدیث سوائے آپ کے ،جواب دینے سے کترا گئے ہیں ( آپ سے ایسی ……)
ا…وفاقی شرعی عدالت سے احکام و مسائل کے صفحہ ۳۶۳ پر سوال و جواب کی وضاحت کرالیں وہاں ہم دونوں اپنے اپنے دلائل دیں گے کہ زمین سے انتفاع سود ہے یا نہیں؟
ب…اپنی عدالت بنا لیں یعنی ایک شخص آپ نامزد کریں ایک میں کرتا ہوں اور ایک غیر جانبدار کوئی وکیل یا جج ہو۔ اپنے اپنے دلائل زبانی یا تحریری اُن کے سامنے رکھیں اور فیصلہ کرالیں ۔ میری طرف مولانا محمد حسین شیخو پوری اور جناب محمد نواز چیمہ صاحب میں سے کوئی ایک ، دونوں میں سے جو بات منظور ہو لکھیں تاکہ اگلی کارروائی شروع کردیں۔
اس با ت کا میں پھر یقین دلاتا ہوں کہ یہ تحقیق ہے کج بحثی ہر گز نہیں ۔ ویسے آپ کے خطوط میں دلائل کا مآخذ درج نہیں ہے۔واللہ یہ مسئلہ ہار جیت کا بھی نہیں بلکہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے ۔ ما شاء اللہ آپ تو شیخ الحدیث ہیں آپ کو یاد ہو گا ترمذی شریف جلد ۲ … وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ اور بھی ہیں دلائل وقت آنے پر عرض کروں گا ۔
اعلامُ الموقعین از ابن قیم kجلد ۲ اُردو انتفاع بالرھن سے منع کرنے کو حدیث دشمنی لکھا ہے۔ہم تو اہل حدیث ہیں آپ نے یہ مسئلہ لیا کہاں سے ؟ حالانکہ دو مماثل مسئلوں کا حکم ایک ہو گا بہر حال تو بعد میں عرض کروں گا اب صرف یہ لکھیں دونوں میں کس بات پر رضا مند ہیں۔ رضا مند
ان شاء اللہ مجھے اُمید ہے کہ جواب لکھنے میںتاخیر نہیں کریں گے۔ (صوبیدار محمد رشید ، قصور)
w
از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب، حفظہما اللہ الحمید المجید
وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اما بعد1 خیریت موجود عافیت مطلوب۔ بوجہ بیماری جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی اُمید ہے محسوس نہیں فرمائیں گے۔ یہ بندۂ فقیر الی اللہ الغنی تلمیذ الحدیث ہے آپ جیسے دوستوں بزرگوں نے طرح طرح کے القاب دینے شروع کر دیے ہیں جن کو یہ بندہ فقیر الی اللہ الغنی پسند نہیں کرتا۔
آپ نے دو تجویزیں پیش فرمائیں جن کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ متعلقہ موضوع پر میری تحریرات آپ کے پاس موجود ہیں جس عادل و منصف عالم دین کو آپ پسند فرمائیں میری تحریرات ان سے پڑھوا کر فیصلہ لے سکتے ہیںـ۔ باقی مجھے طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریرات آپ دکھا سکتے ہیں۔
رہی ترمذی شریف کی روایت : وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُتو وہ ضعیف و کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں سیف بن ہارون نامی راوی ضعیف ہے۔ صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں:
(( قولہ: عن (سیف بن ہارون)البرجمی قال فی النیل :ھو ضعیف متروک۔ وقال فی تھذیب التھذیب فی ترجمتہ: روی لہ الترمذی و ابن ماجہ حدیثا واحدا فی السؤال عن الفراء ، و السمن ، والجبن الحدیث۔(۳؍۴۴)۔
حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں لکھتے ہیں: سیف بن ہارون البرجمی بضم الموحدۃ والجیم أبو الورقاء الکوفی ضعیف أفحش ابن حبان القول فیہ من صغار الثامنۃ أیضاً‘(۱۴۲)
خود امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(( ھذا الحدیث غریب لانعرفہ مرفوعام لا من ھذا الوجہ ، وروی سفیان و غیرہ عن سلیمان التیمی عن أبی عثمان عن سلمان قولہ: وکأن الحدیث الموقوف أصح۔))
آپ لکھتے ہیں: ’’اور بھی ہیں دلائل وقت آنے پر عرض کروں گا ‘‘سابقہ دلائل کا حال تو لکھا جا چکا ہے آپ کے پاس میری تحریرات موجود ہیں ان میں دیکھ سکتے ہیں۔ لاحقہ دلائل جب آپ عرض کریں گے اس وقت ان کا حال بھی پیش کر دیا جائے گا ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔
جناب محترم لکھتے ہیں: ’’اعلام الموقعین از ابن قیم جلد ۲ اُردو انتفاع بالرھن سے منع کرنے کو حدیث دشمنی لکھا ہے‘‘ آپ سے درخواست ہے اعلام الموقعین سے حافظ ابن قیم کی عربی عبارت لکھیں مہربانی ہو گی کیونکہ اُردو ترجمہ کرنے والے بسا اوقات ترجمہ میں خطا کر جاتے ہیں۔
پھر آپ لکھتے ہیں: ’’ہم تو اہلحدیث ہیں آپ نے یہ مسئلہ لیا کہاں سے حالانکہ دو مماثل مسئلوں کا حکم ایک ہو گا‘‘ اس فقیر الی اللہ الغنی نے یہ مسئلہ جہاں سے لیا اس کی وضاحت اپنی تحریرات میں کر دی ہے جو آپ کے پاس موجود ہیں ان میں دیکھ لیں۔ باقی ’’ دو مماثل مسئلوں کا حکم ایک ہو گا‘‘ کے اثبات میں قرآن مجید کی کوئی آیت یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی صحیح یا حسن حدیث پیش فرمائیں کیونکہ آپ لکھتے ہیں: ’’ہم تو اہل حدیث ہیں‘‘ بڑی مہربانی ہوگی۔
تمام احباب و اخوان کی خدمت میں تحیۂ سلام پیش فرما دیں۔ ۲؍۲؍۱۴۲۵ھ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ خیریت دارم و خیریت خواھم۔ آپ کی ناساز طبیعت کا جان کر بہت صدمہ ہوا۔ اللہ پاک آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے ۔ آمین۔مسلسل خطوط کا باقاعدہ جواب دینے پر آپ لائق صد آفرین ہیں اور علماء حق کی یہ بنیادی خوبی ہے۔ جس معیار کی آپ نے دلیل مانگی ہے وہ تو آپ کے تمام خطوط میں بھی نہیں ہے یعنی الانتفاع بالرھن کے ناجائز ہونے کی ، اگر ہے تو نشاندہی فرمائیں۔ حافظ صاحب میں ایک دفعہ پھر بحالت ایمان و یقین یاد کروا دوں کہ میں تحقیق کر رہا ہوں ، ہاں مقلد میں نہیں ہوں ، خدا شاہد ہے کہ میں حق آنے پر ذرا پس و پیش کیے بغیر مان لوں گا کہ آپ حق پر ہیں مگر دلیل سے اور یہی میں آپ سے اُمید رکھتا ہوں ۔ یہ کوئی اَنا کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔ گزشتہ رمضان میں بندہ ناچیز کو ارض القرآن جانا نصیب ہوا۔ وہاں بھی میں نے یہ مسئلہ اُٹھایا تو انہوں نے اُسے جائز کہا۔
المائدۃ:۸۷۔ ’’ایمان والو نہ حرام کرو پاک چیزیں جو حلال کیں اللہ پاک نے واسطے تمہارے اور نہ بڑھو حد سے۔‘‘
النحل:۱۱۶۔’’یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے وہ حرام ہے تو ایسے حکم لگا کر اللہ پاک پر جھوٹ نہ باندھو۔‘‘
الحجرات:۱۔ ’’ایمان والو1 اللہ پاک اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلمسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔‘‘
ان آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
مشکوٰۃ جلد ۳، از ابن عباس رضی اللہ عنہ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنہُ
مشکوٰۃ :…وَمَا سَکَتَ عَنْ اشیاء من غیر نسیان فلا تبعثوا عنھا… الخ
ترمذی شریف والی آپ نے غریب لکھ دی ان پر بھی غور فرما لیں۔ باقی دلائل کا بھی وزن کریں۔
امام جلال الدین سیوطیk ’’الاشباہ والنظائر ‘‘ میں مسند بزار ، ترمذی ، طبرانی کے حوالے سے کئی حدیثیں نقل کی ہیں۔ اور مذکورہ حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں: ((الاصل في العادات ان لا یحظر الاما حظرہ اللہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد۱،ص:۲۶۳)) پھر لکھتے ہیں: ((دل علی ان الاصل فی اشیاء الاباحۃ)) یہ حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ چیزوں میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ نص میں منع ہو۔ ابن عابدین رسالہ ثانیہ جلد ۱،ص:۴۴ میں لکھتے ہیں: ((والحدیث في شرع لہ اعتبار… ولذ علیہ الحکم یدار … الخ)) مجھے افسوس ہے کہ ابن قیم کی کتاب عربی نہیں اُردو کاپی بھیج رہا ہوں۔ ویسے مترجم اتنی بد دیانتی نہیں کر سکتا کہ متن ہی بدل دے۔بہر حال آپ عربی دیکھ لیں اور تسلی کر لیں۔ صحیح بخاری کی شرح از مولانا داؤد راز کی فوٹی کاپی بھی بھیج رہا ہوں۔
میں نے اچھے بھلے معتبر لوگوں سے آپ کا فتویٰ خط والا اور کتاب والا پڑھایا تو سب نے اس میں تضاد پایا۔ ذرا آپ بھی غور فرما لیں دوبارہ ۔جانور والی حدیثیں کتاب میں کھلی ہیں مگر خط میں بند بغیر کسی دلیل کے۔ ایسی توقع مجھے آپ سے ہر گز نہیں ہے ۔ آپ کی بند والی دلیل لغو ہے۔ اکابرین اہل حق امام ابن تیمیہ l اور ابن قیم l الانتفاع بالرھن کو جائز ثابت کرتے ہیں ۔ آپ بتائیں کہ کس بنیاد پر حرام کرتے ہیں اگر مذکورہ عالم آپ کو اپنے سے کم علم نظر آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ …… کوئی تلخ و ترش بات ہو تو معذرت ۔ جلد جواب کا منتظر (رشید)