رہن کی تعریف
مقروض قرض کے تحفظ کے لیے کوئی چیز قرض خواہ( قرض دینے والے) کے پاس رکھتا ہے ، تاکہ وہ عدم ادائیگی کی صورت میں یہ چیز یا اس کی قیمت سے قرض منہا کر لے ( کاٹ کر وصول کر لے) مثلاً ایک شخص نے کسی سے قرض طلب کیا ، قرض دینے والا مطالبہ کرتا ہے کہ قرض کے تحفظ(دوسرے لفظوں میں میری تسلی) کے لیے تو میرے پاس ( اپنی کوئی چیز) یا جانور یا زمین وغیرہ گروی رکھ ، جب ’’ادائیگی قرض ‘‘ کا وقت آئے گا اور مقروض قرض ادا کر سکے گا تو قرض خواہ( یا تو قرض وصول کر کے گروی چیز مقروض کو واپس کر دے گا یا اسی) گروی چیز میں سے اپنا قرض وصول کر لے گا۔ قرض خواہ کو ’’مرتہن‘‘ کہتے ہیں اور مقروض کو’’راہن‘‘ اور گروی رکھی ہوئی چیز کو ’’رہن ‘‘ یا ’’مرہون‘‘ کہا جاتا ہے۔
قرض میں کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌمَّقْبُوْضَۃٌ ط} [البقرۃ:۲/۲۸۳]
’’اگر تم سفر میں ہو اور ( قرضے کی دستاویز) لکھنے والا نہ پاؤ تو گروی چیز قبضہ میں کر لی جائے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((لَا یُغْلَقُ الرَّھْنُ مِنْ صَاحِبِہِ الَّذِیْ رَھَنَہٗ ، لَہُ غُنْمُہٗ وَعَلَیْہِ غُرْمُہٗ ))1
’’رہن اس کے مالک ’’راہن‘‘ سے نہ روکی جائے۔ اس کی بڑھوتری اس کی ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘ (وضاحت آ رہی ہے)
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(( رَھَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم دِرْعًا عِنْدَ یَھُوْدِيٍّ فِي الْمَدِیْنَۃِ وَأَخَذَ مِنْہُ شَعِیْرًا لِأَھْلِہٖ))2
’’رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک یہودی کے پاس زرہ’’رہن‘ ‘ رکھی اور اس سے اپنے گھر کے لیے جو ( بطورِ قرض) حاصل کیے۔‘‘
1 ’’مرتہن‘‘ کا ’’گروی رکھی گئی چیز‘‘ پر قبضہ کرتے ہی گروی رکھی گئی چیز’’ راہن‘‘ کو لازم ہوجاتی ہے(یعنی راہن پر لازم ہے کہ اسے مرتہن کے پاس رہنے دے) بنا بریں’’راہن‘‘ اگر واپس لینا چاہے تو نہیں لے سکتا ، مگر ’’مرتہن‘‘ اسے واپس کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اس لیے کہ رہن سے اس کا حق وابستہ ہے۔
2 جو چیزیں فروخت کرنا درست نہیں ان کا ’’رہن ‘‘ رکھنا بھی صحیح نہیں ہے ۔ البتہ کھیتی اور پھل جو ابھی پکے نہیں ہیں ، کی ’’بیع‘‘ درست نہیں ، مگر گروی رکھے جا سکتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں ’’مرتہن‘‘ کو دھوکا نہیں لگے گا۔ جبکہ کھیتی یا پھل تباہ بھی ہو جائے تو قرض ’’راہن‘‘ کے ذمہ ثابت ہے۔
3 ’’رہن‘‘ کی میعاد ختم ہونے پر ’’مرتہن‘‘ قرض کا مطالبہ کرے۔ اگر ’’راہن ‘‘ ادائیگی کر دے تو ’’رہن‘‘ واپس کر دے ، ورنہ اس میں سے اپنا حق وصول کر لے ۔ا گر کاروبار کی وجہ سے ’’گروی‘‘ میں آمدنی اور اضافہ حاصل ہوا ہے ، تو اسے فروخت کر کے اپنا حق رکھ لے اور زائد واپس کر دے۔ لیکن اگر ’’رہن‘‘ کی فروخت سے پورے حق کی ادائیگی نہیں ہوتی تو بقیہ’’ راہن‘‘ کے ذمہ قرض ہے۔
4 ’’رہن‘‘ ’’مرتہن‘‘ کے ہاتھ میں امانت ہے ، اگر اس کی کوتاہی یا زیادتی سے تلف ہو جائے تو وہ ’’ضامن‘‘ ہو گا ، ورنہ ’’ضامن‘‘ نہیں ہے اور قرض ’’راہن‘‘ کے ذمہ باقی رہے گا۔
5 ’’رہن‘‘ کو ’’مرتہن‘‘ کے علاوہ کسی امین شخص کے پاس بھی رکھا جاسکتا ہے ، اس لیے کہ ’’رہن‘‘ کا اصل مقصد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند شافعی ، سنن دار قطني و سنن ابن ماجۃ وھو حسن لکثرۃ طرقہ۔
2 بخاری؍کتاب البیوع ؍باب شراء النبی صلی الله علیہ وسلم بالنسیئۃ
قرض کا تحفظ ہے اور امین شخص کے پاس اس کو رکھنے سے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
6 اگر ’’راہن‘‘ یہ شرط لگائے کہ قرض کی ادائیگی کی میعاد آنے پر رہن کو فروخت نہیں کیا جا سکے گا تو ’’رہن‘‘ باطل ہے ۔ اسی طرح اگر ’’مرتہن‘‘ یہ شرط لگائے کہ میعاد آنے پر قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں ’’رہن‘‘ کا مالک’’مرتہن‘‘ ہو گا تو اس سے بھی ’’رہن‘‘ باطل ہو جائے گا ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((لَا یُغْلَقُ الرَّھْنُ لِمَنْ رَھَنَہٗ ، لَہُ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہٗ ))1
’’گروی رکھی گئی چیز کو روکا نہ جائے ، یہ ’’رہن‘‘ رکھنے والے کی ملکیت ہے اور اسی کے لیے اس کا نفع ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘
7 قرض کی مقدار میں ’’راہن‘‘ اور ’’مرتہن‘ ‘ کے مابین اختلاف ہو جائے تو حلف کے ساتھ ’’راہن‘‘ کی بات معتبر ہو گی ، الا یہ کہ ’’مرتہن‘‘ اس کے خلاف ثبوت پیش کر دے اور اگر ’’رہن‘‘ میں اختلاف ہو جائے مثلاً ’’راہن‘‘ کہتا ہے کہ میں نے تیرے پاس جانور اوراس کا بچہ گروی رکھا تھا اور ’’مرتہن‘‘ کہتا ہے صرف جانور تھا تو حلف کے ساتھ ’’مرتہن‘‘ کی بات معتبر ہو گی۔ الا یہ کہ ’’راہن‘‘ اس کے خلاف ثبوت پیش کر دے ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( اَلبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِيْ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ أَنْکَرَ)) 2
’’ثبوت مدعی پیش کرے اور قسم اس پر ہے جو انکار کرے۔‘‘
* اگر ’’مرتہن‘‘ دعویٰ کرے کہ میں نے ’’مرہون‘‘ چیز واپس کر دی ہے اور ’’راہن‘‘ انکار کرے تو راہن کی حلفیہ بات تسلیم کی جائے گی ، الا یہ کہ ’’مرتہن‘‘ اپنے دعوٰی میں ثبوت پیش کر دے۔
( ’’مرتہن‘‘ گروی رکھی ہوئی سواری پر سوار ہو سکتا ہے اور اس کا دودھ پی سکتا ہے ۔ مگر خرچ کے حساب سے ( جو وہ جانور کی ضروریات پر کرتا ہے) اس بار ے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے اور خرچ سے زائد فائدہ حاصل نہ کرے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( اَلظَّھْرُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا ، وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا ، وَعَلَی الَّذِيْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ))3
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 رواہ ابن ماجۃ بسند حسن والدار قطني وغیرھما۔2 رواہ البیھقي بسند صحیح وأصلہ في الصحیحین۔بخاری؍کتاب الرھن؍باب اذا اختلف الراھن والمرتھن ونحوہ۔
3 صحیح بخاري /کتاب الرھن؍باب الرھن مرکوب و محلوب ترمذی ؍کتاب البیوع؍باب الانتفاع بالرھن
’’مرہون جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جا سکتی ہے او ر اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سوار ہو گا اور دودھ پیے گا ،وہ( اسی حساب سے جانور کی ضروریات کے لیے ) خرچ ادا کرے گا۔‘‘
) گروی چیز کی آمدنی ، اُجرت ، محصول ، نسل وغیرہ سب ’’راہن‘‘ کی ملکیت ہے اور وہی ان تمام چیزوں کا انتظام کرے گا ، جن سے گروی چیز کی بقاء ہے ، مثلاً پانی پلانا وغیرہ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکا فرمان ہے:
(( اَلرَّھْنُ لِمَنْ رَھَنَہٗ ، لَہٗ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہٗ )) 1
’’مرہون چیز ’’راہن‘‘ کی ملکیت ہے، وہی اس کے نفع کا مالک ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘
صلی الله علیہ وسلم اگر ’’مرتہن‘‘ نے ’’راہن‘‘ کی اجازت کے بغیر حیوان وغیرہ پر خرچ کر دیا ہے تو وہ ’’راہن‘‘ سے مطالبہ نہیں کر سکتا ، ہاں اگر اس کے لیے دور کی مسافت کی وجہ سے فوری طور پر اجازت لینا ممکن نہیں ہے تو پھر وہ اس کا مطالبہ کر سکتا ہے ، بشرطیکہ اس نے ’’راہن‘‘ سے وصول کرنے کی نیت سے خرچ کیا ہو ، ورنہ نہیں۔ اس لیے کہ جس نے نیکی سمجھ کر خرچ کیا ہے وہ وصول نہیں کر سکتا۔
رضی اللہ عنہ شکستہ اور ویران مکان کو اگر ’’مرتہن‘‘ نے راہن کی اجازت کے بغیر مرمت اور آباد کر دیا ہے تو وہ ’’راہن‘‘ سے کچھ نہیں لے سکتا۔ ہاں لکڑی ، پتھر وغیرہ جن کا اُتارنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، کا حساب ’’راہن‘‘ سے لے سکتا ہے۔
رضی اللہ عنہما ’’راہن‘‘ کے فوت یا مفلس ہونے کی صورت میں ’’مرتہن‘‘ کا استحقاق دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ ہے۔ چنانچہ ’’میعاد ادائیگی‘‘ آنے پر وہی رہن فروخت کر کے اپنا قرض وصول کرے گا اور جو زائد ہے اسے واپس کرے گا اور اس کی فروخت سے قرض پورا نہیں ہوا تو وہ باقی قرض میں دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہے۔]