کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام اس مسئلہ کے بار ے میں زید نامی شخص جو سعودیہ عربیہ میں بطورِ مزدوری کام کرتا ہے اور جنسیہ پاکستانی ہے ۔ ایک شخص بکر جو پاکستان میں ہی رہتا ہے اس نے زید کو چالیس ہزار (۴۰۰۰۰)روپیہ پاکستانی ویزہ کے لیے اس طریقہ سے دیا کہ زید نے کسی آدمی سے سعودیہ میں چار ہزار ریال نقدی حاصل کرلیا اور بکر نے چار ہزار ریال کے جتنے پاکستانی روپے بنتے تھے بینک سے پتہ کر کے اُتنے ہی اُن چار ہزار ریال کے بدلے (۴۰۰۰۰) روپیہ پاکستانی جو اُس وقت کرنسی کی شرح تھی ادا کر دیا۔ عرصہ تین سال تک ویزہ نہ مل سکا تو بکر نے اپنی رقم کا مطالبہ کیا ۔ زید نے اس کو چالیس ہزار روپیہ واپس دے دیا لیکن بکر اس سے ساٹھ ہزار بلکہ اس سے اوپر مانگتا ہے ۔ پہلا دعویٰ کرتا ہے کہ اگر میں بینک میں رکھتا تو اتنے پیسے بن جاتے، پھر کہتا ہے کہ میں تجارت کرتا تو اتنا منافع ہوتا ۔ زید کہتا ہے نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے اور میں قسم کھاتا ہوں کہ تمہارے پیسے سے میں نے ایک چوانی کا فائدہ لیا ہو ، بلکہ یہ میرا سب نقصان ہو گیا ویزہ کے لیے سعودی کو چار ہزار ریال دیا نہ ویزہ ملا نہ رقم ۔ بڑی مشکل سے منت سماجت کر کے دو ہزار ریال نکالا ہے وہ بھی اس کے باپ سے ۔ آپ جناب سے یعنی حافظ صاحب سے گزارش ہے واپسی جواب ارسال فرما کر ممنون فرمائیں۔ (محمد یوسف)
جواب:…صورتِ مسئولہ میں چالیس ہزار پاکستانی واپس کیا اور لیا جائے گا کیونکہ ویزہ کے لیے جو رقم دی اور لی گئی وہ چالیس ہزار پاکستانی ہی تھی۔ اب کے اس سے زائد لینا دینا سود کے زمرہ میں آتا ہے اور سود حرام ہے۔ {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا} [البقرۃ:۲۸۵][’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] دیکھیں اگر آج سے تین سال قبل کوئی کسی کو چالیس ہزار پاکستانی بطورِ قرض دیتا تو آج تین سال بعد اس نے چالیس ہزار پاکستانی ہی وصول کرنا ہے زیادہ وصول نہیں کر سکتا کیونکہ یہ زائد پیسے سود ہیں۔ واللہ اعلم۔ ۱۷/۱/۱۴۲۲ھ