محترم مولانا صاحب1 میں ایک پرائیوٹ کمپنی (I رضی اللہ عنہماI) میں آفیسر ہوں کمپنی نے زرعی ادویات کی ایڈوانس بکنگ کے لیے انعامی سکیم تیار کی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
ایک لاکھ روپے ڈیلر سے لیا جائے گا اس کو اس لاکھ روپے کی رسید دی جائے گی جس پر ایڈوانس ریٹ پر زرعی ادویات مہیا کی جائیں گی اس کے علاوہ ہر ڈیلر کو ایک کلر ٹیلی ویژن اور اسلام آباد ہوٹل میں ایک دن کا قیام اور دس(۱۰) موٹر سائیکل قرعہ اندازی کے ذریعے نکالے جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ چار یا پانچ سو ڈیلروں میں سے دس(۱۰) حضرات کا اس طرح انعام کا نکالنا شرعاً ٹھیک ہے یا غلط؟ چاہے اس میں میری نوکری ہی کیوں نہ چلی جائے میں نے اپنے افسران بالا سے اس اسکیم پر کام نہ کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی مستند عالم یا بزرگ سے اسلامی حوالہ سے کوئی تحریر اس کی ممانعت کے متعلق دے دیں ہم بھی اس اسکیم کو چھوڑ کر کوئی اور سلسلہ کاروبار کا چلا لیں گے کیونکہ اس سے ہماری بھی بہتری ہو جائے گی۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مستند جواب بمعہ حوالہ دے کر بندہ ناچیز پر شفقت فرمائیں۔
(محمد اجمل خان ، عارف و الہ)
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ ، وَلَا شَرطَانِ فِیْ بَیْع ، وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنْ ، وَلَا بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ ‘‘ رَوَاہُ الْخَمْسَۃُ ، وَصَحَّحَہُ التِّرمذِیُ وَاِبْنُ خُزَیْمَۃَ وَالْحَاکِمُ رَحمھم اللّٰہ تعالی))2 [’’قرض اور تجارت ایک دم حلال نہیں اور دو شرطیں ایک تجارت میں جائز نہیں۔ قبضہ کرنے سے پہلے کسی چیز کا نفع لینا جائز نہیں اور ایسی چیز کی تجارت کرنا منع ہے جو حاضر اور موجود نہ ہو۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن خزیمہ اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔‘‘]کمپنی کی یہ بیع کئی وجوہ کی بناء پر شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
(۱)… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مندرجہ بالا فرمان کی رو سے ایک بیع میں دو شرطیں ناجائز اور حرام ہیں جبکہ کمپنی والی اس بیع میں کم از کم تین شرطیں پائی جاتی ہیں لہٰذا یہ تو بطریق اولیٰ حرام اور ناجائز ہے۔
(۲)… بذریعہ قرعہ سینکڑوں ڈیلروں سے صرف دس کو موٹر سائیکل دینا میسر ، قمار اور جوے میں شامل ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2 ترمذی؍کتاب البیوع؍باب فی کراھیۃ بیع مالیس عندہ۔ ابو داؤد؍کتاب البیوع؍باب فی الرجل یبیع ما لیس عندہ۔ نسائی؍کتاب البیوع ؍باب بیع ما لیس عند البائع۔ ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب النھي عن بیع ما لیس عندک۔
اور میسر و جوئے کو اللہ تعالیٰ نے {رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} [المآئدۃ :۹۰] [’’گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پا سکو۔‘‘] قرار دیا ہے اس لیے بھی یہ بیع حرام ہے۔
(۳)…ایک لاکھ پہلے بطورِ قرض دے کر مشتری کا بائع سے فائدہ اُٹھانا بھی اس بیع میں پایا جاتا ہے جو سود کے زمرہ میں شامل ہے اور سود بھی حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا} [البقرۃ:۲۸۵] [’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] لہٰذا یہ بیع بھی حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مندرجہ بالا فرمان : ((لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَّ بَیْعٌ))1 کی رو سے بھی یہ بیع حرام ہے جو صورتِ بیع آپ نے تحریر فرمائی ہے یہ بیع سلم کی صورت نہیں۔ بالفرض کوئی صاحب اس صورت کو بیع سلم میں شامل کریں تو بھی پہلی دو وجوہ کی بناء پر یہ بیع ناجائز اور حرام ہے۔ واللہ اعلم ۶/۲/۱۴۲۳ھ
1 ترمذی؍کتاب البیوع؍باب فی کراھیۃ بیع ما لیس عندہ۔ ابو داؤد؍کتاب البیوع؍ باب فی الرجل یبیع ما لیس عندہ۔ نسائی؍کتاب البیوع؍باب بیع ما لیس عند البائع 2 بخاری؍کتاب السلم؍باب السلم فی کیل معلوم۔ مسلم ؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی السلف فی الطعام والتمر۔ ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب السلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم۔ 4 ایضاً