ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً سترہ اٹھارہ سال ہے اس کے والد نے بینک سے سود لے رکھا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ اب اس کے والد کے پاس کسی بھی طرح اتنی رقم نہیں کہ وہ بینک کا روپیہ واپس کر سکیں۔ اُن کے پاس صرف ایک مکان ہے جو فی الحال فروخت نہیں ہو رہا۔ ایسے لڑکے کے بارے میں کیا حکم ہے (۱) کیا وہ اپنے والدین کے ساتھ رہے اور اُن کی کمائی کھاتا رہے جبکہ اُس کے پاس اس کے علاوہ کھانے پینے اور رہائش کا کوئی انتظام نہیں؟ کیا ایسا لڑکا والدین سے ملنے والے جیب خرچ سے اپنے دوستوں کو کھلا پلا سکتا ہے؟ یا صدقہ کر سکتا ہے؟کیا ایسا لڑکا بھی سود کھانے کی وجہ سے گنہگار ہے یا پھر وہ مجبوری کے باعث مستثنیٰ ہے؟
(۲) ایک آدمی ساری عمر بینک میں کام کرتا رہا اب وہ بینک سے ریٹائرڈ ہو چکا ہے اور اُسے بینک کی طرف سے چند لاکھ روپے ملے ہیں ۔ایسا آدمی اب اس گناہ سے توبہ کرنا چاہتا ہے اس کی صرف بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔ اُس کے پاس آمدن کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔ توبہ کی صورت میں اس کے لیے کیا حکم ہے کیا وہ سارا روپیہ اپنے پاس رکھے یا بینک کو واپس لوٹا دے جبکہ اُس کے پاس اس رقم کے علاوہ ایک روپیہ بھی نہیں۔ کیا اس آدمی کے عزیز و اقارب اس کا مال کھا سکتے ہیں اور اس کے گھر جا کر رہ سکتے ہیں؟
کتاب و سنت کی نصوص صریحہ سے ثابت ہے کہ سود حرام ہے ۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اس پر عمل کرتے ہوئے سود سے اجتناب کریں اور اس کے قریب تک نہ جائیں اور کوئی حلال ذریعہ اختیار کریں۔
(۲) یہ رقم حرام ہے۔ رشتہ داروں کا فرض ہے ایسے آدمی کو حرام سے بچائیں۔ واللہ اعلم ۱۴/۱/۱۴۲۴ھ